باچا خان کے عدم تشدد کا فلسفہ آج بھی آہم ہے

مشعال خان کے سفاکانہ قتل کے بعد آج ایک بار پھر باچاخان بابا کے عدم تشدد کا فلسفہ پشتونخوا وطن میں سوالیہ نشان بنا کھڑا ہے ۔ باچاخان بابا نے پشتونخوا وطن میں عدم تشدد کا جو پودا لگایا تھا اگر ہم نے اس کی اہمیت کوسمجھا ہوتا تو نعرہ تکبیر کے ساتھ مشعال خان کے قتل کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ مگر افسوس صد افسوس !ہم نے اس مرد ِ درویش کے عدم تشدد کے فلسفے کو نہیں سمجھا اور آج حال یہ ہے کہ انتہاپسندی اور تشدد پسندی کی آگ نے پورے پشتون وطن کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے مگر آج بھی ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پشتون دھرتی کے فرزند اپنے وطن کی مٹی سے یہ آگ بجھانے کے لیئے سر گرم عمل ہیں ۔ مشعال خان بھی وطن کی مٹی کا قرض فرض کی طرح چکاتے ہوئے اپنی جان وار بیٹھا۔ مشعال خان پشتون وطن کا پہلا بیٹا نہیں جس نے انتہاپسندی اور تشددپسندی کی آگ کو اپنے خون سے بجھانے کی کوشش کی ہو، اس سے پہلے بھی ہزاروں پشتونوں نے امن اور رواداری کے لیئے اور وحشت و دہشت کے خلاف لڑتے ہوئےجانیں نثار کی ہیں۔ وطن کے ان فرزندوں میں زیادہ تر باچاخان بابا کے عدم تشدد کے نظریے کے سپاہیوں کی ہے جنہوں نے پشتونخوا وطن میں امن اور رواداری کے فکر ی فروغ کے لیئے اپنی جانوں کے نذرانوں سے اپنے نظریے کی صداقت اور اہمیت کی گواہی دی ہے۔
مشال خان کے قتل کے خلاف وطن کے قوم پرست اور بائیں بازو سیاسی کارکنوں نے جس زور و شور سے آواز بلند کی اس ہی کا نتیجہ ہے کہ کچھ رجعت پسند قسم کے سیاسی لوگ بھی مذمت کرنے پر مجبور ہو گئے اور مشعال کے گھر جا کر تعزیت بھی کی۔ مشعال خان کے جنازے کے وقت جب سب لوگ چپ تھے اور اقبال لالا کے ساتھ کوئی کھڑا ہونے والا نہیں تھا تو باچاخان بابا کے نظریے کا سپاہی ، اے این پی کا کارکن شیرین یار یوسفزئی بندوق ہاتھ میں لیئے کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا میں نمازجنازہ پڑھاؤں گا۔ ایسے وقت میں جب گاؤں کا ایک انتہاپسند اور دہشت پسند مولوی لوگوں کو مشعال خان کی نمازجنازہ پڑھنے سے روک رہا تھا تو اقبال لالا کا ساتھ دینے اور لوگوں کو نمازجنازہ پڑھانے کی تلقین کرنے کے لیئے عدم تشدد کا پیروکارشیرین یار لالا موجود تھا۔ یہ قوم پرست اور بائیں بازو کے کارکن ہی تھے جنہوں نے مشعال خان کے گاؤں میں گلی گلی جا کر اس کو بے گناہ ثابت کرنے کےلیئے آواز بلند کی اور مشعال خان کی بیگناہی اور اس کی فکری تائیداور ساتھ دینے کے نعرے لگاتے رہے،مگر اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا ، گو کہ مشعال خان کے قتل کے خلاف دوستوں نے اپنا کردار ادا کیا مگر اس واقعہ نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ باچاخان بابا نے عدم تشدد کا جو پودا لگایا تھا ہم نے اس کو اس طرح پروان نہیں چڑھایا جس طرح کہ ضرورت تھی۔ اب بھی انتہا پسندی اور تشدد پسندی کی بلا معاشرے میں گھوم رہی ہے ۔ یہ ذہنیت ہمارے ارد گرد موجود ہے جس کا مقابلہ کرنا ہے۔ انتہاپسندی کی اس بلا کو افراد کی پہچان سے نہیں بلکہ ذہنیت کی پہچان سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ہم پر وطن کی مٹی کا قرض اور فرض ہے کہ اس ذہنیت کو پہچانیں، لوگوں کو اس کی پہچان کرائیں اور اس کو مزید پھلنے پھولنے سے روک کر اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگرہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو خدانخواستہ کل کوئی اور پشتون فرزند اس بلا کا شکار ہو جائے گا، جو میں بھی ہو سکتا ہوں اور آپ بھی!

Facebook Comments

Amin Shah
میں ایک ہیومنسٹ ہوں اورانسانی مساوات پر یقین رکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply