مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا قومی ترانہ

دنیا کا سب بڑا جمہوریت کا دعوےدار بھارت یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے، جوسراسرجھوٹ اور فریب ہے،جس کی ایک جھلک حال ہی ہونے والے پانچ ریاستی انتخابات میں دکھائی دی جب بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) نے انتخابات میں 403 نشستیں رکھنے والی ریاست اتر پردیش(یوپی) کی ریاستی اسمبلی کی ایک بھی نشست پر کسی بھی مسلمان کو کھڑا نہیں کیا۔

بھارت کا انتہا پسند ہندوجنوبی ایشیا کو ایک متحدہ اکائی بنانا چاہتا ہے لیکن صرف ہندو مذہب کی بنیاد پر، اس لئے غیر ہندو مذاہب مسیحیت اور اسلام کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آزادی سے پہلے قائداعظم محمد علی جناع نے بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی اکثریت کو ” خون خوار اکثریت” قرار دیا تھا۔ آج پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے تمام مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور اچھوتوں سے اگر آزادانہ رائے لی جائے تو وہ محمد علی جناح کی اس تاریخی رائے کی حمایت کریں گے کہ انتہا پسند ہندوں کی نام نہاد اکثریت واقعی خونخوار ہے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ نریندر مودی سمیت تمام انتہا پسند ہندوؤں اور مسلمانوں کو نابود کردینے والے ہندو لیڈروں کا ہوش ٹھکانے آجائے گا۔ جنوبی ایشیاء کی غالب اکثریت غیر ہندو ہے۔

کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی۔۔ دعویٰ یہ ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔کشمیر پرتوبھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے جسے آج تک کشمیریوں نے نہیں مانا بلکہ آزادی کے لئے مسلسل لڑرہے ہیں، اقوام متحدہ نے بھی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم نہیں کیا، یہ کیسا اٹوٹ انگ ہے جسے بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج مار رہی ہے، قتل کررہی ہے مگر کشمیری سرکٹا رہے ہیں۔ انگریزوں سے آزادی کے بعد کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتی تھی لیکن بھارت نے اس پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔

کشمیری اس ناجائز قبضہ اور غلامی کو مٹاکر آزاد ہونے کے لئے بھارتی فوج سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔دو اپریل2017کو بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے مقبوضہ کشمیر میں ایک ہائی وے سرنگ کا افتتاح کرتے ہوئے کشمیری نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’ٹیررازم یعنی دہشتگردی کی بجائے ٹُورازم یعنی سیاحت اور ترقی کو چُنیں‘‘ ۔نریندر مودی کے اس بیان کا پس منظر یہ ہے کہ جولائی 2016 میں قابض بھارتی فوج نے ایک چھاپے کے دوران آزادی کی جنگ لڑنے والے اکیس سالہ حریت رہنما بُرہان مظفروانی کوشہید کردیا تھا۔ جس کے بعد سےمقبوضہ ریاست میں کافی بے چینی اور بدامنی ہے،۔

زیادہ تر واقعات میں مشتعل ہجوم کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینکے جاتے ہیں اور جواب میں پولیس اور فوج کے دستے شہریوں پر شاٹ گن سے فائرنگ کرتے تھے۔ ان واقعات میں چوراسی شہریوں کی جانیں گئیں جبکہ سکیورٹی فورسز کے عملے اور شہریوں سمیت بارہ ہزار سے زائد افراد زخمی ہو ئے ہیں۔ کشمیری حریت پسندوں نے نریندرمودی کے دو اپریل کے اس دورے کے خلاف احتجاج کے لیے ہڑتال کی اپیل کررکھی تھی جو سو فیصد کامیاب ہوئی۔ نریندر مودی کی اس تقریر کے ایک ہی گھنٹے بعد سری نگر میں آزادی کی لڑائی لڑنے والوں کی طرف سے پھینکے جانے والے ایک دستی بم کی زد میں آ کر ایک پولیس اہلکار ہلاک اور سات زخمی ہو گئے تھے۔

مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سری نگر سے پارلیمنٹ کی نشست کے لیے انتخاب لڑرہے ہیں،انہوں نے سری نگر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جو پتھر پھینک رہے ہیں انہیں سیاحت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ اپنے وطن کے لیے پتھر پھینک رہے ہیں، اسے سمجھنا ضروری ہے‘‘۔ساتھ ہی ڈاکٹر فارق عبد اللہ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کا بھی خیر مقدم کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی انڈیا کے اس موقف کی حمایت کرتی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ باہمی نوعیت کا ہے اور اس میں کسی تیسرے فریق کو شامل نہیں کیا جاسکتا لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اگر مسائل حل نہیں ہوتے تو امریکہ کو ثالثی کرنی چاہیے اور اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔ فاروق عبد اللہ کے ان بیانات پر حکمران جماعت بی جے پی اور حزب اختلاف کانگریس دونوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، بھارتی میڈیا میں بھی اس پر شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کے دوران پاکستانی پرچم لہرانے کا عام رجحان ہے۔ دلی میں انتہا ء پسند ہندو جماعت بی جے پی کی حکومت قائم ہوتے ہی ایسے واقعات کی بڑے پیمانے پر بھارتی میڈیا میں تشہیر ہوتی ہے، چونکہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت ہے اس لیے ریاست کی کٹھ پتلی حکومت بھی ایسی کسی بھی سرگرمی کا سختی سے نوٹس لے کر اس میں ملوث افراد کو گرفتار کرلیتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے اکثر دیہاتوں میں مارے جانے والے مسلح کمانڈروں کی یاد میں کرکٹ مقابلوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے اور کھلاڑی اکثر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہی یونیفارم پہنتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ دن قبل مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے مشرقی ضلع گاندربل میں ایک کرکٹ میچ کے دوران ہوا، کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی یونیفارم پہنی، پاکستان کا قومی ترانہ بجایا، لیکن اس میچ کا ویڈیو وائرل ہوگیا، جس کے بعد پولیس کی ایک تفتیشی ٹیم بنائی گئی جس نے ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو گرفتار کرلیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کا کوئی پولیس ریکارڈ نہیں ہے، تاہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نوجوانوں کو اُکسانے کے پیچھے کوئی تخریبی منصوبہ تو نہیں ہے۔ گاندربل سے نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی شیخ اشفاق جبار کہتے ہیں کہ ان بچوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔یہ میچ دو اپریل کو کھیلا گیا جس روز نریندر مودی مقبوضہ كشمير میں بننے والی سرنگ کا افتتاح کررہے تھے۔

بھارت کے سیکولر آئین میں انسانی حقوق کے بارئے میں بہت کچھ لکھا ہے مگر بی جے پی کی متعصب حکومت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے انسانی حقوق کی فخریہ پامالی کرتی ہے اور اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ محسوس نہیں کرتی۔ انسانی حقوق کے بارے میں بھارتی دامن پر خونِ مسلم کے جابجا دھبے ہیں ، یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا پردہ فاش ہونے کے خوف میں مبتلا ہوکر او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن کو مقبوضہ ریاست کا دورہ کرانے سے انکار کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے پہلے بھارت یو این او کے انسانی حقوق کمیشن اور دہلی میں مقیم یواین او کے مبصرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر جانے سے روک چکا ہے۔ آئے دن مقبوضہ وادی میں ہونے والے جلسے، جلوسوں میں پاکستانی پرچم اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان سے الحاق کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،کرکٹ کھیلنے والے بچوں کو گرفتار کرنے سےکشمیر کی آزادی کی تحریک نہیں رک سکتی۔ان حالات میں بھارت کو چاہیئے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے، اسی میں بھارت اور پاکستان کے عوام کی بہتری ہے۔

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply