بہار مبارک۔۔مریم مجید

موسم اک بار پھر سے جون بدل رہا ہے ۔ رخصت ہوتے ہوئے جاڑے کے زرد گالوں پر گلابی غازہ  ملنے والی مشاطہ ،بہار جو ابھی آئی تو نہیں مگر اپنے ہونے کی نشانیاں بھیج رہی ہے ۔۔
فطرت کے بدلتے رنگوں کو محسوس کرنے والا میرا دل ، موسموں کے اتار چڑھاؤ سے جڑی میری حیاتیاتی گھڑی کہہ رہے ہیں کھڑکیوں پر جالی دار آسمانی پردے لٹکانے کا موسم آیا چاہتا ہے اور منی پلانٹ کے پیالے میں کھلنے والا پہلا ننھا پتہ جو ہرا چمکیلا اور ملائم ہے وہ میرے لیے  بہار کا پہلا سندیسہ لے کر آیا ہے۔ بہار کی دوشیزہ بھاری اونی لباسوں سے نجات پا کر اب ہلکی سبک اور ریشمی ساڑھی باندھ رہی ہے جس پر سیبوں کے گلابی پھول کھلتے ہیں اور اس کی شہد رنگ زلفوں میں چیری کے شگوفے ہیں جن کی نیند آور مہک شہد کی مکھیوں کو کھینچے لاتی ہے۔۔

پہاڑوں میں فطرت اپنی تمام تر شفافیت کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے اور محسوسات کی شدت ،مشاہدے کی گہرائی کے تال میل سے روح کے وہ سب کونے بھر جاتے ہیں جو پر ہنگام، شور آلود شہروں کے گردوغبار سے اٹے ہوتے ہیں ۔ ۔
میری خوش قسمتی کہ مجھے فطرت کی آغوش میسر ہے ،وہ تجربہ گاہ میسر ہے جہاں میرا بے چین دل زندگی ،کائنات اور محبت کے عناصر کو باہم یکجا کرتے ہوئے خوشی تخلیق کرتا ہے۔
میری آنکھ الارم کی بھدی آواز کے بجائے پرندوں کی چہچہاہٹ سے کھلتی ہے ۔سرخ پیروں اور چونچ والی سیاہ ہمالئین بلبل کی سریلی آواز، لمبی دم اور رنگدار پروں والے غشپ پرندے میگ پائی کی شور مچاتی پکار اور گلدم کی میٹھی آواز میری کھڑکی پر دستکیں دے کر مجھے جگاتی ہے۔

انہیں دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے جیسے یہ ابھی ابھی پینٹ کیے  گئے شاہکار فن پارے ہیں ۔جن کے چمکیلے اور حیات پرور رنگ ہنوز گیلے ہیں ۔ نیلے سبز اور زرد ننھے طوطے جو بید مجنوں کی شاخوں پر اگنے والے غنچوں کو اپنی سیاہ چونچوں سے کریدتے ہیں ان کی اٹھکھیلیاں پیام دیتی ہیں کہ زندگی ابھی بھی حسین اور امید ابھی بھی زندہ ہے۔ بدلتا موسم بہار ہے،زرخیزی اور شادابی ہے۔
سوکھی گھاس کی بھوری جڑوں سے ننھی سبز پتیاں جھانکنے لگی ہیں اور اوائل بہار کے ڈینڈلائن سورجوں کی سی تابناک زردی لیے  زمستانی ہوا میں جھومتے اور لہراتے ہیں ۔کچھ دن جاتے ہیں کہ گل دوپہر کی کیاری میں بنفشی اور سرخ پھول کھلنے لگیں گے اور باد شمال زرخیز پانیوں سے بھرے سرمئی بادل کھینچ کر لانے لگے گی۔۔

پائن کے درختوں میں نئے آنے والے سوئی نما پتے بہت ہی ہلکے سبز رنگ کے اور بے حد نرم ہیں اور اگر انہیں چبایا جائے تو لہو کا رنگ ہرا ہونے لگتا ہے۔ زرد چنبیلی پر اتنے پھول آئے ہیں کہ اس کے کاہی مائل سبز پتوں پر پھولوں کی زردی غالب ہے اور وہ سیاہ رات میں چمکنے والے ستاروں کی مانند محسوس ہوتے ہیں ۔

کچھ دن سے ایک نیا مشغلہ ہاتھ آیا ہے کہ گھر سے کچھ فاصلے پر گیدڑوں کی کھوہ میں کچھ نئے بچوں کا جنم ہوا تھا، اب وہ اس عمر میں ہیں جو کھیلنے اور سیکھنے کی ہوتی ہے اور چمکیلی دھوپ میں وہ ننھے بچے تمام دن اپنی کھوہ کے آس پاس اچھلتے کودتے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ۔ ان کی کھال کا بھورا رنگ ابھی نیا اور چمکدار ہے۔
وہیں قریب ایک پتھروں کی چھوٹی سی ڈھیری ہے جہاں چمکتے ہوئے نارنجی رنگ والا نیولا اپنے خاندان کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کی موٹی اور لمبی دم گرے ہوئے پتوں پر گھسٹتی چلی جاتی ہے اور وہ گرے ہوئے جنگلی اخروٹ اس مہارت سے کترتا ہے گویا کہیں سے سیکھ کر آیا ہو۔

چشمے کا پانی جو پچھلے دنوں بالکل خشک ہو چلا تھا ، اب اس میں بھی روانی آ گئی ہے اور تمام دن کنگ فشر وہاں ڈریگن فلائی کے تعاقب میں منڈلاتا رہتا ہے۔
کل ہی ایک سیاہ پرندہ جس کی دم گہری نیلی ہے ، ٹین کی چھت کے جھکے ہوئے کنارے تلے گھونسلہ بنا رہا تھا مگر گھاس پھونس سے نہیں ‘ گارے سے۔ اس کے سیاہ پر اور زرد چونچ مٹی سے لتھڑے ہوئے تھے اور وہ مستقل اپنے گھروندے کی تعمیر میں مصروف تھا۔ معمار پرندہ!

گھاس کے ٹڈے اور ننھی تتلیاں چمکدار گرم دوپہر میں مورپنکھ کے پودوں میں پھدکتے رہتے ہیں ، میری بلیاں تتلیوں کے تعاقب میں بھاگتی پھرتی ہیں اور سورج ڈھلنے کے ساتھ ہی لمبی سونڈ والے بھورے بھنورے جن کے پروں کی بھنبناہٹ میں کائنات گیت گاتی محسوس ہوتی ہے، جرینیم کے سرخ گلابی اور سفید پھولوں کا رس پینے پہنچ جاتے ہیں ۔
مخملیں بمبل بی اپنے ساتھیوں سمیت کیکٹس کے پھولوں پر بھنبناتی رہتی ہے۔
روہن چڑیوں اور بھوری چڑیوں نے آشیانوں کے لیے تنکے، دھاگے اور پتیاں جمع کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے ۔ ووڈ پیکر کی کھٹ کھٹ بہار کی آمد کی دستک معلوم ہوتی ہے اور کریپر وائن میں پھول آنے لگے ہیں ۔

بہار جو افزائش کا موسم ہے ، جو امید سرخوشی اور تعمیر کا پیام ہے، آن پہنچا ہے۔ اپنے ہاتھوں میں پھولوں سے بھری ٹوکری پکڑے دستکیں دیتا پھرتا ہے کہ۔۔۔۔

اے نوع انساں ! ! حالات کی شدتوں اور تلخیوں سے گھبرا کر مایوس نہ ہو جانا ! ٹنڈ منڈ درختوں سے ناامید نہ ہونا کہ خزاں میں جہاں سے بھی پتہ گرا تھا، بہار میں اسی مقام سے پھوٹے گا۔ آشیانوں کے بکھرے تنکے پھر سے جمع کیے جائیں گے اور زندگی ایک بار پھر پوری آزادی سے گیت گائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان بہار کے پُر خمار دنوں میں میرا دل شدت سے اس ایک دل کے لیے دعا گو ہے جو محبت سے ڈر چکا ہے، جو آشیانہ پھر سے تعمیر کرنے سے گھبراتا ہے ۔ اے خدا! اس دل کو پھر سے محبت آشنا کر دے! اس بہار میں اس کے بدن کی سب رگوں کو بہار آشنا کر دے۔۔اے خدا! وہ بہار جو چرند پرند اور نباتات کو جیون دینے آ رہی ہے ، اس سے اس دل کو محروم نہ رکھنا جو مجھے دنیا میں سب سے پیارا ہے!

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply