دہشتگردوں کے لیےعام معافی کا اعلان

میرے سامنے25مارچ کا روزنامہ جنگ میں لکھا ہوا سلیم صافی کا کالم ’’طالبان کے خلاف عام معافی کیوں؟‘‘ موجود ہے اور میں اس مضمون کو کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں(نوٹ: مضمون کا لنک آخر میں موجود ہے)۔ میں یہاں صرف اس مضمون میں سے ان باتوں کو نقل کروں گا جس مقصدکےلیے سلیم صافی نے یہ مضمون لکھاہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ’’میرا عقیدہ ہے کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے سے بڑھ کر سنگین جرم کوئی نہیں۔چونکہ میں جانتا ہوں کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والوں اور اپنے جسموں سے بم باندھ کر خود اپنے آپ کو اور معصوم پاکستانیوں کو اڑانے والوں کی ایک بڑی تعداد مخلص لوگوں پر مشتمل ہے اور چونکہ میں جانتا ہوں کہ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد ٹریپ ہو کر ریاست پاکستان کے خلاف اس ناپاک اور ناپسندیدہ جنگ میں مبتلاء ہے۔ اس لئے میں زہر کا یہ گھونٹ پی کر اس موقع پر یہ گزارش کررہا ہوں کہ حکومت پاکستان عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کا اعلان کردے‘‘۔ اس مضمون میں دہشتگرد تنظیم طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کے سسر کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا صوفی محمدکی رہائی کی بھی مانگ کی گئی ہے، لال مسجد کے دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ جماعت الدعوۃ، انصارالامۃ، جماعت اہلسنت اور تحریک جعفریہ کا بھی ذکر اس مضمون میں موجود ہے۔ اپنے اس مضمون کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اور یہ ظاہر کرنے کےلیے کہ یہ مضمون صرف دہشتگردوں کے لیے نہیں لکھا گیا ہے اس میں ایم کیو ایم اور بلوچ عسکریت پسندوں کے گرفتار لوگوں کی رہائی کا تقاضہ بھی کیا گیا ہے۔ اب تک70ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانیوں کو بم دھماکوں میں ہلاک کرنے والے ان قاتل اور درنددوں کے بارے میں سلیم صافی جانتے ہیں کہ وہ نہ صرف مخلص ہیں بلکہ بہکاوے میں آکر ریاست پاکستان سے لڑ رہے ہیں، اس لیے سلیم صافی چاہتے ہیں کہ ریاست دہشتگردوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرے ، وہ بھی سلیم صافی کی شرائط کے ساتھ کہ’’ اس معاملے میں فوج اور سول اداروں کو مشاورت کرکے پہلے مکمل ہم آہنگی لانی چاہیے، اس اعلان سے قبل پورا ہوم ورک ہونا چاہیے، یہ اعلان کسی چال کے تحت نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ ہونا چاہیے، جو لوگ تائب ہو کر ریاست سے بغلگیر ہونا چاہیں، انہیں معاف کرکے گلے لگا لینا چاہیے، اس اعلان سے قبل عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سیاسی قیادت کوبھی اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ منصوبے پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل ہوسکے‘‘۔ سلیم صافی کے اس مضمون کو پڑھنے کے بعد میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ ریاست پاکستان میں جس کی جو مرضی چاہے کرے، لوگوں کو قتل کرے یا اغواء ، ایک نوعمر بچے کے گھر والوں کی غربت کا فائدہ اٹھا کر اس بچے کے جسم پر بم باندھ کر، اس سے بیچ بازار میں خود کش حملہ کروا کر سینکڑوں لوگو کو ہلاک اور زخمی کروایا جائے اور بچے کے گھر والوں کو چند لاکھ روپے دے کر بتایا جائے کہ آپ کا بچہ تو سیدھا جنت میں گیا اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا ہے۔ عام جگہوں، عبادت گاہوں اور مزاروں پر بم دھماکے کرکے لوگوں کو ہلاک یا زخمی کرنے والے یہ دہشتگرد بقول سلیم صافی کے مخلص اور بہکائے ہوئے لوگ ہیں۔
دہشتگردی میں دو عناصر کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، پہلا سیلپر سیل یہ جائے وقوع پر یا تو بم دھماکہ کرتا ہے یا خودکش حملہ آور کی مدد کرتا ہے، یہ عام لوگوں میں زندگی گزارتا ہے، اس کے بارے میں اس کے گھر والوں اور دوستوں کو بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا جب تک وہ پکڑا یا مارا نہیں جاتا۔ عام عام طور پر سلیپر سیل ایک دوسرے کو بھی نہیں جانتے، ان کا ایک انچارج ہوتا ہے جو ان کو ہدایت دیتا ہے اور وہی اپنے ماتحت کام کرنے والے ان سیلپر سیل کو جانتا ہے۔ دہشتگردی کو کامیاب بنانے کے لیے جو دوسرا عنصر ہے وہ سہولت کار کا ہوتا ہے، سہولت کار دہشتگردی کے لیے مالی سہولت فراہم کرتا ہے، اگر وہ پیسے والا ہے تو اپنے پاس سے دیتا ہے ورنہ یہ عام طور پر بھتہ خوری اور لوٹ مار کے ذریعے رقم فراہم کرتا ہے، دہشتگردوں کےلیے محفوظ ٹھکانے بھی سہولت کار مہیا کرتا ہے، سہولت کاروں میں وہ لکھاری بھی شامل ہیں جو دہشتگردی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں عناصر میں سہولت کار عام طور پر پڑھے لکھے ہوتے ہیں جبکہ سیلپر سیل بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کام کر رہے ہیں، ان میں سے شاید دس فیصد ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو مذہب کے نام پر بہکایا جاتا ہے۔ بہت آسان لفظوں میں کہہ لیجیے کہ یہ دونوں عناصر نہ تو معصوم ہوتے ہیں اور نہ اس بات سے بے خبر کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اس کا عام لوگوں کو کتنا نقصان پہنچے گا۔
سلیم صافی نے شاید یہ یاد کرنے کی بالکل کوشش نہیں کی کہ70ہزار سے زائد انسانی جانوں کے علاوہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو سال2016تک مجموعی طور پر118ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جو شاید پاکستان کے غیر ملکی قرضے سے زیادہ ہے ۔ مالی سال2016-2015کےدوران دہشتگردی سے ہونےو الے نقصانات کا خسارہ5ارب56کروڑ ڈالر رہا ۔ سلیم صافی کے مخلص اور بہکائے ہوئے دہشتگردوں کے خلاف ایک عرصہ کے بعد جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان نے صحیح راستہ اختیار کیا ، جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی دہشتگردوں کے خلاف لڑرہے ہیں، جنرل باجوہ نے دہشتگردوں کے خلاف ایک نیا آپریشن ردالفساد شروع کیا ہے، ایک دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد میں یہ فرق ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کا مقصد دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرکے ریاست کی رٹ قائم کرنا تھا جبکہ آپریشن ردالفساد کا مقصد کاونٹر ٹیرر اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ہے۔ آپریشن ردالفساد کے ذریعے پاکستان کے اندر موجود دہشتگردوں کے سیلپر سیل کا خاتمہ کرنا ہے، اس کے علاوہ آپریشن ردالفساد کے ذریعے ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے جو کہ براہ راست دہشتگردی میں ملوث نہیں ہیں لیکن دہشتگردوں کو مختلف طریقوں سے مدد فراہم کررہے ہیں یعنی دہشتگردوں کے سہولت کار ہیں۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی پوری کوشش ہے کہ آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشتگردوں کے سیلپر سیل اور ان کے سہولت کاروں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ سلیم صافی کو معلوم تھا کہ اس مضمون کا ردعمل کیا ہوگا لہذا اس نے پہلے ہی اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے بچنے کےلیے یہ کہہ کر بند باندھ لیا کہ مجھے معلوم ہے کہ سیکولر، لبرلز اور اے این پی کے ہمدرد میری اس تجویز پر بجا طور پر سیخ پا ہوں گے۔ سلیم صافی کو معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی بھی انسانیت سے محبت کرنے والا اس مضمون کو پسند نہیں کرے گا۔ اس مضمون میں جو کچھ لکھا ہے وہ صاف صاف بتا رہا ہے کہ مضمون نگار کو دہشتگردی کا شکار ہونے والوں سے کسی بھی طرح کی کوئی ہمدردی نہیں ہے، یہاں تک کہ16دسمبر2014 کو پشاور آرمی سکول کے ان132بچوں سے بھی نہیں جو دہشتگردی کا شکار ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ سلیم صافی کی بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ اس نے گزشتہ ماہ فروری2017میں پورے پاکستان میں آٹھ دہشتگرد حملوں کے بارے میں بھی نہیں سوچا جن میں100سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے، یہ مضمون ایک ایسے شقی القلب انسان کا ہے جو انسانیت کا نہیں دہشتگردی کا حامی ہے اور دہشتگردوں کا ایک سہولت کار ہے۔ اس سے پہلے اردو کالم نگاری میں انصار عباسی اور اوریا مقبول جان طالبان دہشتگردوں کے سہولت کار تھے اب یہ تیسرا سہولت کار بھی پیدا ہوگیا ہے۔ یہ تمام سہولت کار اپنی کالم نگاری کے ذریعے کسی بھی دہشتگردی کے بعد مذہب، غربت اور انتقام کو جواز بنا کر دہشتگردی کو جائز قرار دیتے ہیں۔آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اگر چاہتے ہیں کہ پاکستان سے مکمل دہشتگردی ختم ہو تو ان سہولت کاروں کا خاتمہ جلد از جلد ہونا بہت ضروری ہے۔
نوٹ: سلیم صحافی کے مضمون ’’طالبان کے خلاف عام معافی کیوں؟‘‘ کا لنک:۔
http://search.jang.com.pk/print/287763-taliban-ke-khilaaf-aam-maafi-kion

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply