امریکی مقاصد آشکار ہیں۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

امریکہ ایک طاقتور ریاست ہے۔ معاشی اور عسکری حوالے سے، ٹیکنالوجی میں اسے برتری حاصل ہے۔ اس کے تھینک ٹینکس ہمہ وقت ملکوں، خطوں اور قوموں کا تجزیہ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ دنیا کے ہر کونے میں امریکی مفادات ہیں، جیسا کہ ہر ملک کے ہوتے ہیں۔ ان دنوں امریکہ پاکستان کو آڑے ہاتھوں لئے ہوئے ہیں۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے تو کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اب امداد صرف مطلوبہ نتائج ملنے پر ہی دی جائے گی۔ کبھی پاکستان کو عالمی معاشی اداروں کے ذریعے دبائو میں لانے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔ اس سب کا مقصد پاکستان جیسے اتحادی کو دبائو میں لاکر مطلوبہ سمت میں ڈالنا ہے۔ پاکستان مگر ماضی کے برعکس اس بار امریکہ کو دوٹوک جواب دے رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اپنی قربانیوں کا بر ملا ذکر کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف بیان بازی اس امر کی غماز ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو ہر حال میں دبائو میں رکھ کر اپنے وہ مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے، جو اسے مشرق وسطٰی اور افغانستان میں مطلوب ہیں۔ اپنے ان مقاصد کی جانب پیش قدمی کے طور امریکہ بھارت کی پیٹھ بھی تھپکاتا رہتا ہے، تاکہ دبائو برقرار رہے۔

امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ارکان ممالک کے ذریعے دہشت گردوں کے معاون ممالک کی فہرست میں شامل کرا دے۔ اس حوالے سے پیرس میں ہونے والی کانفرنس کے ذریعے پاکستان پر شدید سفارتی دبائو بھی تھا۔ رواں ماہ کے وسط میں امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ قوانین میں سختی اور انسداد دہشت گردی کے خاتمے کے لئے “غیر موثر حکمت عملی” ہونے کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں امریکہ، پاکستان کو عالمی دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ہونے والی ریاست کی فہرست میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کرے گا۔ پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی فہرست میں شامل کرنے سے متعلق پہلا اجلاس 20 فروری کو پیرس میں منعقد ہوا، جس میں چین، ترکی اور سعودی عرب نے ملک کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں ڈالنے کی مخالفت کی، لیکن بعدازاں امریکہ کے دباؤ پر 22 فروری کو دوبارہ اجلاس منعقد ہوا۔ اسی دوران امریکہ نے سعودی عرب کو پاکستان کے حق میں دستبردار ہونے کی شرط پر ایف اے ٹی ایف کی فل ممبرشپ کا وعدہ کیا، جس کے بعد صرف دو ممالک چین اور ترکی باقی بچے جبکہ کسی بھی قرارداد کو روکنے کے کم از کم تین ممالک کی مخالفت ضروری ہوتی ہے۔

اب پاکستان مئی میں اپنا نیا ایکشن پلان جمع کرائے گا اور ایف اے ٹی ایف جون میں پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ پلان کا جائزہ لے کر ملک کو واچ لسٹ میں ڈالنے کے حوالے سے فیصلہ کرے گا۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے حامی ملک سعودی عرب کو لالچ دے کر حمایت سے دستبردار کرنا بھی امریکی مقاصد کو عیاں کرتا ہے، جبکہ بھارت کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر نے کہا کہ “جغرافیائی سیاست پر مبنی ایجنڈا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پشیمان ہے اور بھارت امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بھرپور انداز میں عمل پیرا ہے اور پاکستان کو ایسے وقت میں دیوار سے لگانا چاہتا ہے، جب ملک بیلنس آف پے منٹ کے تلخ مرحلے سے گزر رہا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک عالمی ادارہ ہے، جو جی سیون (G-7) ممالک کے ایما پر بنایا گیا کہ جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی کرتا ہے، تاہم پاکستان اس ادارے کا براہِ راست رکن نہیں ہے۔ مذکورہ غیر سرکاری ادارہ کسی ملک پر پابندی عائد کرنے کے اختیارات نہیں رکھتا، لیکن گرے اور بلیک کیٹیگری واضع کرتا ہے۔ انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف قابل قدر اقدامات کی صورت میں اس ملک کو گرے کیٹیگری میں شامل کیا جاتا ہے، جبکہ کسی ملک کی جانب سے منی لانڈرنگ کے خلاف کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو اُسے بلیک کیٹیگری میں ڈال دیا جاتا ہے، جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر زرِمبادلہ کی نقل و حرکت اور ترسیل میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں 2012ء میں ڈالا گیا تھا۔ بعدازاں اسلام آباد کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی پر ایف اے ٹی ایف نے تصدیق کی اور پاکستان کو 2015ء میں واچ لسٹ سے نکال دیا گیا۔ اب ایک بار پھر سے پاکستان کے سر پر یہ تلوار لٹک رہی ہے۔ دراصل امریکہ افغانستان میں اپنے طویل تر قیام کے جواز کے لئے مختلف حربے استعمال کرتا آرہا ہے۔ان حیلہ سازیوں میں امریکہ بھارت کے ذریعے بھی اپنی خارجہ پالیسی کو خطے میں آگے بڑھاتا نظر آتا ہے۔ آشکار ہے کہ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہے بلکہ کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت سب سے زیادہ قربانیاں دینے ولا ملک ہے۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار بھی ہے۔ عقلی طور پہ بھی یہ بات قابل قبول نہیں کہ ایک ملک جو خود دہشت گردی کا شکار ہے، وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کیسے کرسکتا ہے؟ یا وہ ملک کس طرح دہشت گردوں کے کسی گروپ سے صرف ِ نظر کرسکتا ہے؟ امریکہ اپنے حربوں کے ذریعے اصل میں اس نئے عالمی اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، جو روس، چین، اپکستان اور ایران کی شکل میں نمودار ہو رہا ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply