• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایامِ فاطمیہ کی مناسبت سے، چند امور کا اجمالی تذکرہ (صحیح روایات کی روشنی میں) ۔۔مفتی امجد عباس

ایامِ فاطمیہ کی مناسبت سے، چند امور کا اجمالی تذکرہ (صحیح روایات کی روشنی میں) ۔۔مفتی امجد عباس

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد جانشینی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امور کی نگرانی کے حوالے سے مسلمانوں میں شدید اختلافات نے جنم لیا۔ اِسی عرصے میں اہلِ بیتؑ اور صحابہ کرام کی اصطلاح شدت سے پروان چڑھی۔ اہلِ بیتؑ خلافت اور دیگر نبوی امور کے متولی، حضرت علیؑ کو سمجھتے تھے، جبکہ صحابہ کرام میں اس حوالے سے گروہ بندیاں سامنے آئیں۔ انصار کی اکثریت، اہل بیت کی ہم خیال تھی، مہاجرین کی اکثریت کو حضرت عمر نے بنی ساعدہ کی بیٹھک میں حضرت ابوبکر کو خلیفہ مان کر، اپنے ساتھ ملا لیا۔ حضرت ابوبکر کو خلیفہ چننا کوئی آسان کام نہ تھا، بنی ساعدہ کی بیٹھک میں انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ، اُن کے چند ساتھیوں اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور اِن کے ساتھ آنے والے چند دیگر مہاجر صحابہ کی تلخ کلامی، ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنا تاریخ کی کتب میں ثابت ہے۔ حضرت ابوبکر کی بیعت ایک حادثاتی امر تھا، جس کے شر سے اللہ نے امت کو بچا لیا، اس معاملے پر حضرت علی، حضرت عباس اور انصار صحابہ کی اکثریت رضامند نہ تھی، مہاجر صحابہ کا بھی اختلاف تھا۔ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے، جس میں اس بیعت کا حال حضرت عمر یُوں بتاتے ہیں:

إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ، أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا، وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ، مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَا يُبَايَعُ هُوَ: وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا، وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَمَنْ مَعَهُمَا، وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ، لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ، فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، فَقَالَا: أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ؟ فَقُلْنَا: نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَا: لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ، اقْضُوا أَمْرَكُمْ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا: فَقَالُوا: هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: مَا لَهُ قَالُوا: يُوعَكُ، فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ: فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ، وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ، فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، فَلَمَّا سَكَتَ، أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي، أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ، وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: عَلَى رِسْلِكَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي، وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا، أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا، حَتَّى سَكَتَ، فَقَالَ: مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا، وَدَارًا، وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ، فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ، فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا، كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ، وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتَّى فَرِقْتُ مِنَ الِاخْتِلَافِ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، فَبَسَطَ يَدَهُ، فَبَايَعْتُهُ، وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ، ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ، وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ عُمَرُ وَإِنَّا: وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ، خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ، أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا، فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى، وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ (اچانک، حادثاتی طور پر) ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔

اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلیے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا: امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا: بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی)۔
(صحیح بخاری، کتاب المحاربین، باب ۳۱، حدیث ۶۸۳۰)

امام بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کو حضرت ابوبکر کے بطورِ خلیفہ نامزدگی پر، فساد کا خوف تھا تاہم معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

خلافت کے بعد سب سے پہلا جو اختلاف اہلِ بیت اور صحابہ میں سامنے آیا وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث اور موقوفات کی سرپرستی کا تھا، جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا چاہتی تھیں کہ باغِ فدک اُنھی کے پاس رہے، وہ خود اُس میں سے فقراء، مساکین اور اہلِ بیتؑ پر خرچ کریں جبکہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی رائے تھی کہ اِن اموال کی سرپرستی خلیفہ کا حق ہے۔ اس امر پر اتفاق ہے کہ جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا، حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور اُن سے باغِ فدک کا مطالبہ کیا، مطالبے کی نوعیت میں اختلاف ہے، کہا جاتا ہے بطورِ میراث مانگا، بعض روایات میں بطورِ ہبہ مانگنے کا تذکرہ ہے جبکہ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ آپؑ کا مطالبہ اتنا تھا کہ اِس کی نگرانی ہم اہل بیت کو ہی دی جائے جسے حضرت ابوبکر نے تسلیم نہ کیا، جناب سیدہؑ ناراض ہو گئیں، یہ ناراضگی مرتے وقت تک باقی رہی، آپؑ بعد از نبی، چھ ماہ زندہ رہیں، اِس دوران آپؑ نے یا حضرت علیؑ نے (صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث کے مطابق) حضرت ابوبکر کی بیعت نہ کی، یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ جناب سیدہؑ کی وفات پر، خلیفہ کو اطلاع ہی نہ دی گئی، جنازہ رات کو حضرت علیؑ نے پڑھا دیا۔ اِس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اور روایت ملاحظہ ہو:

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ , وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: ” لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ “، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا
عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتے رہیں گے اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب ۳۹، حدیث ۴۲۴۰ و ۴۲۴۱)

اب چند دیگر محدثین کی آراء دیکھیے:

ابن قتیبہ دینوری نے تاویل مختلف الحدیث میں لکھا:
وقد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا وأوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا.
فاطمہ(س) نے ابوبکر سے اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا ابوبکر نے قبول نہیں کیا تو فاطمہ(س) نے قسم کھائی کہ ابوبکر کے ساتھ بات نہیں کریں گی اور وصیت کی کہ انہیں رات کو دفن کیا جائے اور وہ (ابوبکر) ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو۔
(الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفیٰ 276هـ)، تأويل مختلف الحديث، ج 1، ص 300، تحقيق: محمد زهري النجار، ناشر: دار الجيل، بيروت، 1393هـ، 1972م.)

امام عبد الرزاق صنعانی لکھتے ہیں:
عن بن جريج وعمرو بن دينار أن حسن بن محمد أخبره أن فاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم دفنت بالليل قال فرَّ بِهَا علي من أبي بكر أن يصلي عليها كان بينهما شيء.
ابن جریح اور عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے کہ انہیں حسن بن محمد نے خبر دی کہ فاطمہ (س) بن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کو رات میں دفن کیا گیا اس نے کہا کہ فاطمہ (س) اور ابوبکر کے درمیان جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے علی (ع) نے اسے نماز پڑھنے کے لیے مطلع نہیں کیا۔

وہ مزید لکھتے ہیں:
عبد الرزاق عن بن عيينة عن عمرو بن دينار عن حسن بن محمد مثله الا أنه قال اوصته بذلك
حسن بن محمد سے اس کے مشابہ ایک اور روایت بھی نقل ہوئی ہے اس میں صرف اتنا فرق ہے کہ اس میں آیا ہے کہ فاطمہ(س) نے خود اس کام کی وصیت کی تھی۔
(الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفیٰ211هـ)، المصنف، ج 3، ص 521، حديث شماره 6554 و حديث شماره: 6555، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ)۔

ابن بطال نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:
أجاز أكثر العلماء الدفن بالليل… ودفن علىُّ بن أبى طالب زوجته فاطمة ليلاً، فَرَّ بِهَا من أبى بكر أن يصلى عليها، كان بينهما شىء.
اکثر علماء نے جنازہ کو رات میں دفن کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔۔۔ اور علی بن ابی طالب نے اپنے زوجہ فاطمہ کا جنازہ رات کو دفن کیا تاکہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھ سکے چونکہ ان دونوں ( فاطمہ اور ابوبکر) کے درمیان کوئی اختلاف تھا۔
(إبن بطال البكري القرطبي، أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (متوفیٰ 449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 325، تحقيق: أبو تميم ياسر بن إبراهيم، ناشر: مكتبة الرشد – السعودية / الرياض، الطبعة: الثانية، 1423هـ – 2003م)۔

ابن ابی الحدید نے جاحظ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
وظهرت الشكية، واشتدت الموجدة، وقد بلغ ذلك من فاطمة ( عليها السلام ) أنها أوصت أن لا يصلي عليها أبوبكر۔
فاطمہ کی شکایت اور نارضگی اس حد تک تھی کہ انہوں نے وصیت کی کہ ابوبکر ان کے جنازہ پر نماز نہ پڑھے۔
(إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفیٰ 655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 16، ص 157، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ – 1998م)۔

دوسری جگہ لکھتے ہیں:
وأما إخفاء القبر، وكتمان الموت، وعدم الصلاة، وكل ما ذكره المرتضى فيه، فهو الذي يظهر ويقوي عندي، لأن الروايات به أكثر وأصح من غيرها، وكذلك القول في موجدتها وغضبها.
فاطمہ (س) کی قبر کا مخفی ہونا، موت کو چھپانا، اور ابوبکر کا نماز جنازہ نہ پڑھنا، اور مزید جو کچھ سید مرتضی نے لکھا ہے وہ سب میرے نزدیک واضح اور مورد تائید ہے۔ اس لیے کہ اس موضوع پر کثرت سے روایات موجود ہیں اور باقی روایتوں سے صحیح تر ہیں اور اس طرح ( شیخین کے سلسلے میں ) آپ کی ناراضگی اور غضب کی بات بھی میرے نزدیک مورد تائید ہے۔
(شرح نهج البلاغة، ج 16، ص 170)۔

اِس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی، سیدہ فاطمہؑ اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے مابین رنجش تھی، معاملات صاف نہ تھے، تاہم حضرت علیؑ اور دیگر اہلِ بیتؑ کا رویہ اِس حوالے سے معاندانہ نہ تھا۔
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت علیؑ نے سیاسی حالات کے پیش نظر، جناب سیدہؑ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر سے صلح چاہی لیکن وہ حضرت عمر سے خفا تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت عمر اُن کے گھر آئیں، جبکہ حضرت عمر کو ڈر تھا کہ حضرت ابوبکر اکیلے، حضرت علیؑ کے پاس گئے تو لڑائی کی نوبت بھی آ سکتی ہے، اوپر مذکور ایک روایت کا آخری حصہ ملاحظہ ہو:
فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں علی رضی اللہ عنہ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے!
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب ۳۹، حدیث ۴۲۴۰ و ۴۲۴۱)۔

بظاہر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور اہلِ بیتؑ بالخصوص حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے درمیان کئی امور پر شدید تنازع موجود تھا، تاہم حالات کے پیش نظر معاملات جنگ کی طرف نہ بڑھے۔ حضرت علیؑ نے مشورہ طلب کرنے پر خلفاء کو مشورے دیئے لیکن کوئی حکومتی عہدہ نہ تو آپؑ کو پیش کیا گیا، نہ آپؑ نے قبول کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(صحیح بخاری کی روایات اور ترجمہ اسلامک اردو بُکس ڈاٹ کام نامی اہلِ حدیث ویب سائٹ سے ماخوذ ہے، دیگر حوالہ جات المکتبۃ الشاملۃ سے ماخوذ ہیں۔)

Facebook Comments

امجد عباس، مفتی
اسلامک ریسرچ سکالر۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply