قلوپطرہ، مصر کی آخری ملکہ، جس نے روم کے دو بڑے سیاستدانوں کو اپنے اشاروں پر نچایا اور ان کے ساتھ ایک خطرناک محبت کا سلسلہ شروع کیا۔ اس محبت نے نہ صرف ان کی زندگی کو تبدیل کیا بلکہ روم کی تاریخ اور مصر کی تقدیر کو بھی متاثر کیا۔ اس ویڈیو میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ قلوپطرہ نے کیسے اپنے حسن، ہوش اور حیلے سے روم کے دو مخالف فرقوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور ان کے بیچ ایک جنگ کو جنم دیا۔ اس جنگ میں ان کے محبوب مارک اینٹونی اور ان کا بیٹا سیزریون مارے گئے اور قلوپطرہ نے خود کو زہریلے سانپ سے کٹوا کر اپنی جان لے لی۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ کیا قلوپطرہ نے واقعی میں خودکشی کی یا بات کوئی اور ہے؟ آئیے جانتے ہیں قلوپطرہ کی حیرت انگیز اور سکینڈلز سے بھرپور کہانی۔
قلوپطرہ ساتویں سلسلہ کی مصری ملکہ تھیں جو 69 سے 30 قبل مسیح تک حکومت کرتی رہیں۔ ان کا پورا نام قلوپطرہ فیلوپاٹر تھا جس کا یونانی زبان میں مطلب ہے “باپ کی شہرت” ۔ ان کے باپ پٹولمی بھی مصری بادشاہ تھے جو الیکسینڈر دا گریٹ کے ایک جنرل پٹولمی سوتر کی نسل سے تھے۔ اس لیے قلوپطرہ کی نسل مقدونی یونانی تھی اور وہ مصری زبان کے ساتھ ساتھ یونانی، عبرانی، لاطینی اور دیگر زبانیں بولتی تھیں۔
جب قلوپطرہ کی عمر 18 سال تھی تو ان کے باپ کی موت ہو گئی اور ان کو اپنے چھوٹے بھائی پٹولمی تیرہویں کے ساتھ شریک حکومت بننا پڑا۔ لیکن ان کے بھائی کے ساتھ ان کا تعلق اچھا نہیں تھا اور ان کے بھائی کے مشیران نے ان کو حکومت سے دور کرنے کی کوشش کی۔ قلوپطرہ اپنی جان بچانے کے لیے مصر سے فرار ہو کر سوریہ چلی گئیں اور وہاں سے ایک فوج جمع کر کے واپس آئیں۔
اسی دوران روم میں ایک شدید سیاسی جھگڑا چل رہا تھا۔ جولیس سیزر، ایک مشہور فوجی سربراہ اور سیاستدان، نے اپنے حلیفوں پومپی اور کریسس کے ساتھ مل کر روم کی سینیٹ کو کنٹرول کیا تھا۔ لیکن جب کریسس کی موت ہو گئی اور پومپی نے سیزر کے خلاف بغاوت کی تو سیزر نے اپنی فوج کے ساتھ روم پر حملہ کیا اور پومپی کو شکست دے دی۔ پومپی مصر کی طرف بھاگا جہاں اس کا سر قطع کر کے سیزر کو پیش کیا گیا۔ تاہم سیزر نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور مصر کی حکومت کو اپنے زیرِ اثر لانے کی کوشش شروع کی۔
قلوپطرہ نے سیزر کو اپنا حلیف بنانے کے لیے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ اس نے اپنے ایک خادم کے ذریعے اپنے آپ کو ایک بھیڑیے کی کھال میں لپیٹ کر ایک بڑے ٹوکرے میں چھپایا اور اس ٹوکرے کو سیزر کے پاس بھیجوا دیا۔ جب سیزر نے ٹوکرے کو کھولا تو اس میں سے قلوپطرہ نکلیں اور انہوں نے اس کو اپنی خوبصورتی اور ذہانت سے بہت متاثر کیا۔ سیزر نے قلوپطرہ کو اپنی محبوبہ بنا لیا اور ان کے ساتھ مصر میں رہنے لگا۔ اس سے قلوپطرہ کے بھائی اور ان کے مشیران نے سیزر کے خلاف بغاوت کی اور ان کے مقابلے میں ایک جنگ شروع ہو گئی۔
سیزر نے قلوپطرہ کے بھائی کو شکست دے کر ان کو مصر کی حکومت میں شریک بنا دیا۔ اس کے بعد وہ اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے روم واپس آئے اور قلوپطرہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ قلوپطرہ نے سیزر سے ایک بیٹا پیدا کیا جس کا نام سیزریون رکھا گیا۔ سیزر نے اس بیٹے کو اپنا وارث بنانے کی خواہش ظاہر کی لیکن روم کی سینیٹ نے اس کو منظور نہیں کیا۔ سینیٹ کے کچھ رکنوں نے سیزر کو قلوپطرہ کے جال میں پھنسی ایک کٹھ پتلی سمجھا اور اس کے خلاف ایک سازش رچائی۔
44 قبل مسیح کو مارچ کے مہینے میں سیزر کو سینیٹ میں اپنے ہی دوستوں اور حلیفوں نے گھیرلیا اور اس کو چاقو کے 23 وار کرکے مارڈالا۔ یہ واقعہ روم میں ایک نئی جنگ کے باعث بنا۔ قلوپطرہ نے جب یہ خبر سنی تو فورًا مصر واپس آئیں اور اپنے بیٹے کو مصر کا وارث بنانے کی کوشش کی۔
سیزر کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لیے اس کے دو حلیفوں نے ایک اتحاد بنایا۔ ایک تھا مارک اینٹونی، ایک بہادر فوجی سربراہ اور سیاستدان، اور دوسرا تھا اوکٹیویس کیسر، سیزر کا بھانجا اور وصی۔ ان دونوں نے سیزر کے قاتلوں کو شکست دے کر روم کی حکومت میں ایک تقسیم کرڈالی۔ مارک اینٹونی نے مشرق کا حصہ حاصل کیا جس میں مصر بھی شامل تھا۔
مارک اینٹونی نے مصر کی طرف رخ کیا اور قلوپطرہ سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ اس سے مدد طلب کرنا چاہتا تھا کہ وہ پروشیا کے خلاف ایک جنگ شروع کرے۔ قلوپطرہ نے اس کو اپنے شاندار محل میں خوش آمدید کہا اور اس کو اپنی خوبصورتی، دولت اور ثقافت سے متاثر کیا۔ مارک اینٹونی نے بھی قلوپطرہ کو اپنی محبوبہ بنا لیا اور ان کے ساتھ مصر میں رہنے لگا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو بہت سے تحفے دیئے اور بہت سی تقریبات منائیں۔ ان کے بیچ ایک بہت گہرا پیار پیدا ہو گیا۔
قلوپطرہ نے مارک اینٹونی سے تین بچے پیدا کیے۔ ایک بیٹا جس کا نام الیکسینڈر ہیلیوس تھا، ایک بیٹی جس کا نام کلیوپاٹرا سیلین تھی اور ایک دوسرا بیٹا جس کا نام پٹولمی فیلادلفس تھا۔ مارک اینٹونی نے ان بچوں کو مصر کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے حکمران بنانے کا اعلان کیا۔ اس نے قلوپطرہ کو مشرق کی ملکہ کہا اور اس کے ساتھ ایک شادی کی تقریب بھی منائی۔
ان تمام حرکتوں نے روم میں ایک بڑا ہنگامہ مچا دیا۔ اوکٹیویس کیسر نے مارک اینٹونی کو دہشت گرد اور قلوپطرہ کو جادوگرنی قرار دیا۔ اس نے ان کے خلاف عوام کو بھڑکایا اور ان کے ساتھ جنگ کا اعلان کیا۔ اس جنگ کو اکتویان جنگ کہا گیا۔ اس جنگ میں دونوں فرقوں نے اپنی بحری افواج کا آپس میں مقابلہ کرایا۔
اکتویان جنگ کا فیصلہ 31 قبل مسیح کے اگست میں ہوا۔ اس جنگ میں اوکٹیویس کیسر کی فوج نے مارک اینٹونی اور قلوپطرہ کی فوج کو شکست دے دی۔ مارک اینٹونی اپنے جہاز کو چھوڑ کر قلوپطرہ کے پیچھے بھاگا۔ قلوپطرہ نے اپنے محل میں ایک محفوظ کمرہ بنا لیا اور اس کا دروازہ بند کر دیا۔ شاید قلوپطرہ شکست کی ذمہ داری مارک اینٹونی پر ڈال رہی تھی اس لیے مارک اینٹونی کو پریشان کرنے کے لیے اس نے ایک پیغام بھیج کر مارک اینٹونی کو بتایا کہ اس نے خود کو مار ڈالا ہے۔ مارک اینٹونی نے یہ سن کر اپنے آپ کو چاقو سے زخمی کیا اور اس کو اس کے خادموں نے قلوپطرہ کے کمرے تک پہنچایا۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ قلوپطرہ زندہ ہے اور اس نے اپنے محبوب کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ مارک اینٹونی نے اس کو اپنا آخری سلام کیا اور پھر مر گیا۔
قلوپطرہ نے اپنے محبوب کے جانے کے بعد اوکٹیویس کیسر سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس سے اپنے بچوں کی حفاظت اور اپنے ملک کی عزت کی گزارش کرتی رہی۔ لیکن اوکٹیویس نے اس کو اپنے ساتھ روم لے جانے کا ارادہ کیا۔ وہ اس کو اپنی فتح کا اور عبرت کا نشان بنانا چاہتا تھا۔
قلوپطرہ نے اس بات کا احساس کر لیا کہ اوکٹیویس اس کو اپنی غلامی میں لے جائے گا اور اس کو روم میں ایک تماشہ بنائے گا۔ وہ اس کی بات نہ ماننے کا فیصلہ کرتی ہے اور اپنی زندگی کو ختم کرنے کا ایک طریقہ سوچتی ہے۔ وہ اپنے خادموں سے ایک ٹوکری میں کچھ پھلوں کے ساتھ ایک زہریلے سانپ کو اپنے پاس بھیجنے کا حکم دیتی ہے۔ جب اوکٹیویس کے سپاہی اس کو پکڑنے کے لیے اس کے کمرے میں آتے ہیں تو وہ انہیں اندر آنے سے روکتی ہے اور اپنے آپ کو سانپ سے کٹوا لیتی ہے۔ وہ اپنے محبوب کے پاس بیٹھ کر اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھتی ہے اور اپنی آخری سانسیں لیتی ہے۔ اس طرح قلوپطرہ نے اپنی زندگی کا اختتام کیا اور اپنی حکومت کو اوکٹیویس کے حوالے کر دیا۔
یہ تھی قلوپطرہ کی کہانی، جس نے مصر کی آخری ملکہ بن کر اپنی زندگی اور موت میں بہت سے سکینڈلز اور سازشیں پیدا کیں۔ ان کی خوبصورتی، ہوشیاری اور اداؤں نے روم کے دو بڑے سیاستدانوں کو ان کے قدموں میں گرا دیا اور ان کی محبت نے روم کی تاریخ اور مصر کی تقدیر کو بدل کرکے رکھ دیا۔ ان کی موت نے مصر کی تاریخ کا ایک عہد ختم کر دیا اور روم کو ایک نئی سلطنت کی شکل دی۔ ان کی کہانی نے تاریخ اور فنون کو ایک نئی روشنی دی اور ان کی یاد اب تک زندہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں