خدارا جماعت کو جمیعت سے بچائیں!

(تحریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ، اگر کوئی جواب دینا چاہے تو مکالمہ حاضر ہے ۔مدیر)

Advertisements
julia rana solicitors

’’اسلامی‘‘ جمیعت طلبہ ایک بار پھر شہ سرخیوں میں ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ تاثر حقیقت سے زیادہ مستحکم ہوتا ہے۔ جمیعت پر یہ مثال صادق آتی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جمیعت اس مقولے کی عملی تفسیر ہے! بدقسمتی سے اس کے لیئے قصوروار بھی خود جمیعت ہی ہے، جمیعت کا رویہ نہ صرف خود اس کے لیے زہر قاتل بن چکا ہے بلکہ اس سےبڑھ کر یہ عوام کے جماعت اسلامی سے بڑھتے ہوئے تنفر کی بھی غالباً سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔ وہ نسل اب تقریباً ریٹائر ہو چکی ہے جس نےکسی زمانے کی مہذب جمیعت کا مشاہدہ کیا ہوگا۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں سرکاری جامعات، خصوصاً جامعہ کراچی اور جامعہ پنجاب سے تعلیم حاصل کی ہے انہیں جمیعت کے اصل کردار کا بخوبی علم ہے اور اسی لئے وہ جماعت سے بھی متنفر ہیں۔
جمیعت کے خراب رویے کے متاثرین کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ اب لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ ان کے لڑکوں کے ذاتی جھگڑوں میں مخالفین کے سر پھاڑتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے لگانے کے چشم دید گواہوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ گنتے گنتے تھک جائیں گے۔ جمیعت خدائی فوجداری اور خود کو مامور من اللہ سمجھنے کے چکر میں اپنے اصل مقصد سے کب کی بھٹک چکی۔ اب تعلیمی اداروں میں جمیعت کو زیادہ تر افرادی قوت ان نوجوانوں سے میسر آتی ہے جو تھوڑا بہت اسلامی ذہن تو رکھتے ہیں لیکن نہ ان کے پاس دین کا مناسب علم ہوتا ہے نہ ہی ان کی وضع قطع مکمل اسلامی ہوتی ہے۔ انہیں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا شوق ہوتا ہے اور ہنگامہ آرائی سے ان کو تھرل حاصل ہوتا ہے۔ خود کے دوسروں پر حاوی ہونے اور دوسروں سے طاقتورہونے کا احساس اپنے اندر بہت سرور رکھتا ہے اور جمیعت کے کارکنوں کی اکثریت اسی سرور کے حصول کی خاطر جمیعت میں پناہ ڈھونڈتی ہے اور جمیعت بھی ، جس کا مقصد اب تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کردار سازی سے زیادہ اپنی خوردبینی ریاستیں قائم کرنا رہ گیا ہے، ایسے لڑکوں کو نہ صرف بخوشی اپنے اندر پناہ فراہم کرتی ہے بلکہ اپنے مقاصد کے لئے حصول کے لیے بطور ہراول دستے کے استعمال بھی کرتی ہے ۔
ہو سکتا ہے میں اپنے تجزیئے میں غلط ہوں۔ جمیعت کی نیت ہو سکتا ہے صحیح ہو ، مگر اس کا طریقہ کار اس قدر غلط ہے کہ اس کا دفاع جماعت اسلامی کو عوام کی نظروں سے مسلسل گرا رہا ہے۔ کیا آپ عوام کو بےوقوف سمجھتے ہیں یا بے خبر ؟ جو وہ آپ کی بودی جواز تراشی پر بلا توقف ایمان لے آئیں گے؟ کیا وہ تمام لوگ جو سرکاری جامعات میں گزشتہ تیس سالوں میں زیر تعلیم رہے ہیں اندھے اور بہرے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھا ہی نہ ہو؟ بدقسمتی سے جامعہ کراچی میں سن2003سے جمیعت کی بلاوجہ بدمعاشیوں کا میں خود گواہ ہوں اورانہیں بھگت بھی چکا ہوں۔ ان کے کارکنوں کا ذاتی حال تو یہ ہے کہ اپنے6-5فٹ کے جسم پر شریعت لاگو کرتے انہیں مشکل ہوتی ہے۔ کسی کو شرعی داڑھی رکھنے کا کہہ دو تو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر مودودی صاحب کے اقوال میں پناہ تلاش کرنے لگ جاتا ہے مگر دوسروں کے بارے میں اتنے متشدد ہیں کہ انہیں اپنی مرضی کے خلاف سوچنے کی اجازت دینے کے بھی روادار نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرا ایک کلاس فیلو کراچی یونیورسٹی میں اپنے دوستوں کی محفل میں ایک بار گٹار لے آیا (خیال رہے کہ یہ صرف لڑکوں کی محفل تھی، مخلوط محفل نہیں تھی)۔ ان کو کہیں سے خبر مل گئی اور یہ فوراً آدھمکے فحاشی کا تدارک کرنے۔ میرے کلاس فیلو کے ساتھ کافی بدتمیزی کی۔ مجھے اعتراض اس بات پر نہیں کہ وہ گٹار بجانے کے کیوں خلاف تھے۔ اسلام میں موسیقی کے احکام سے ہم سب واقف ہیں سو اس میں مجھے کوئی کلام نہیں۔ مسئلہ مجھے ان کی خدائی فوجداری سے ہے۔آپ کو کس نے یہ اختیار دے دیا کہ آپ ضابطہ اخلاق کو بزور قوتِ بازو نافذ کروانا شروع کردیں اور جو آپ کی بات نہ مانے اس پر اپنے سیاسی اثر و رسوخ اور غنڈہ گرد افرادی قوت کے بل بوتے پر تشدد کریں۔اگر کوئی غلط کام کر رہا ہے تو آپ اسے دعوتی انداز سے زیادہ موثر طریقے سے سمجھا سکتے ہیں جیسا کہ تبلیغ والوں کا یا تنظیم اسلامی والوں کا طریقہ کار ہے۔ یہ دونوں گروہ اپنے اچھے رویے کے سبب ہی نہ صرف عوام کی نظر میں عزت و احترام رکھتے ہیں بلکہ ان کے ہاتھوں منکرات سے تائب ہونے والوں کی تعداد ان افراد سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے آپ کے اس ’’جہاد ‘‘ میں آج تک حصہ لیا ہوگا۔
جس دوست کی میں نے مثال دی، اس کے جیسے ان گنت لوگ جو جمیعت کے متشدد رویے کا شکارہوئے پچھلی تین دہائیوں میں ہمارے تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر عملی زندگیوں میں داخل ہو ئے ہیں اور ان سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی جو جمیعت کےمتشدد رویوں کا براہ راست شکار تو نہیں ہوئے مگر اس کے عینی شاہد ضرور ہیں اور تعلیمی اداروں میں اپنے قیام کے دوران جمیعت کے کارکنوں کو ٹکے ٹکے کے ذاتی و سیاسی جھگڑوں میں ایسے نعرہ تکبیر لگاتے مخالفین کے سر پھاڑتے دیکھ چکے ہیں کہ گویا یہود و نصاریٰ کے خلاف جہاد بالسیف کر رہے ہوں۔ تین نسلیں جمیعت کی بے وقوفیوں کی وجہ سے جماعت اسلامی سے متنفر ہو چکی ہیں، مگر افسوس اپنی مقبولیت میں کمی کی وجوہات کی تلاش میں سرگرداں جماعت کے ذمہ دار اب تک اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام ہیں اور اپنے ان بگڑے بچوں کی فہمائش کرنے کے بجائے ان کی ہر جائز ناجائز بات کا دفاع کر کے مسلسل اپنے پیروں پر کلہاڑی چلائے جا رہے ہیں۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ تقریباً سب ہی طلبہ تنظیمیں تشدد میں ملوث ہیں اور اس حوالے سے وہ بھی جھوٹ بولتے ہیں، مگر قبلہ ان میں اور آپ میں فرق یہ ہے کہ وہ اسلام کے نام پر سیاست نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے ذاتی جھگڑوں کو جہاد کا رنگ دے کر اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقدس نام لے کر اپنی ذاتی پرخاش نکالتے ہیں۔ اگر آپ نے دینی سیاست کا بیڑا اٹھایا ہے تو پھر آپ پر ذمہ داری بھی زیادہ عائد ہوتی ہے۔ اگر آپ نے بھی روایتی سیاسی دروغ گوئی سے کام لے کر ’’سب اچھا ‘‘ ہے کا ورد ہی کر نا ہے تو آپ میں اور دیگر جماعتوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اسلام پسند سیاست کو زوال پذیر دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہوتا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں عوام میں مقبولیت حاصل کریں تاکہ ملک میں اسلامی نظام کی راہ ہموار ہو سکے مگر جب جماعت اسلامی جیسی جماعت کی غلطیوں کی نشاندہی پر کبوتر کی طرح آنکھیں موند لے گی تو بہتری کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply