آپ کا کام ہو گیا.

سنا ہے زمین کی تاثیر انسانوں کے رویے پر بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ مثلاً پہاڑی قومیں جفاکش ،سخت مزاج اور محنت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ریتلے علاقوں میں رہنے والے بھی مزاج میں ریت کی مانند ہی ہوتے ہیں،۔ جیسے ریت مٹھی سے نکل جاتی ہے لوگ بھی آپ کے ہاتھ جلد نہیں آتے۔ ہمیں بھی ایک پرائی زمین کی تاثیر کو پرکھنے کا موقع ملا، حفاظت جان و مال کے پیش نظر ہم زمین کے خواص اور علاقے کا نام مخفی رکھتے ہوئے آپ سے آپ بیتیاں شیئر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ مارکیٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک ریموٹ خریدنا تھا اسی چکر میں دوکان پر کھڑا تھا کہ ایک صاحب آئے، ٹی وی کو کندھوں پر لادا ہوا تھا۔ اتار کے سائیڈ پہ رکھا اور مکینک سے چیک کرنے کی درخواست کی۔
چھوٹے ۔۔۔ ذرا ادھر آ ۔ ان کا نمبر لکھ لو اور ٹی وی اٹھا کے اندر رکھ دو، ان صاحب نے اپنا نمبر لکھوایا۔۔سر کب تک ٹھیک کر دیں گے؟
کل صبح آجانا آپ کا کام ہو جائے گا، دوکاندار نے جواب دیا!۔۔۔۔یہ لیں سر مل ہی گیا آپ کا ریموٹ بھی، دوکان والے نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا۔۔ میں نے ریموٹ لیا اور گھر کی راہ لی۔
ریموٹ ٹھیک طرح کام نہیں کر رہا، گھر پہنچ کے پتا چلا۔۔ وہاں ہی چیک کر لینا چاہئے تھا، چلو جو ہوا خیر، واپس کروا کے دوسرا لے لیں گے۔ تین دن ایسے ہی گزر گئے۔ چوتھے روز میں نے ریموٹ لیا اور مارکیٹ چلا گیا، لیکن یہ کیا دوکان تو بند پڑی تھی اور سامنے وہی بندہ کھڑا تھا جو چار روز قبل اپنا ٹی وی بنوانے کے لئے دے گیا تھا۔ کیا ہوا جناب منہ لٹکائے کیوں کھڑے ہیں۔۔؟ میں نے پوچھا۔
کیا بتاؤں یار چھوٹا موٹا کوئی مسئلہ تھا لیکن ابھی تک ٹی وی بنا کر ہی نہیں دیا، صبح و شام چکر لگا رہا ہوں، صبح آؤں تو کہہ دیتے ہیں شام کو آکے لے جانا شام کو آؤں تو صبح لے جانا، کبھی مکینک دوکان پہ نہیں ہوتا اور آج دوکان ہی بند پڑی ہے۔۔ ہوسکتا ہے نماز وغیرہ پہ گئے ہوں۔۔ میں نے دلاسہ دیا۔ آجاؤ تھوڑی دیر گپ شپ کرتے ہیں بلکہ یہ ساتھ والی دوکان سے پوچھتے ہیں اس سے پوچھا تو معلوم نیست۔ آج صبح سے دوکان بند ہے۔ کوئی نمبر وغیرہ؟ یہ اس کا نمبر ہے کبھی لگتا ہے کبھی نہیں، میں نے نمبر لیا اور اسے کہا آجاؤ کوشش کرتے ہیں۔۔۔ہم نے نمبر ملایا۔
بیل تو جا رہی ہے۔۔ ہیلو جی وہ دوکان بند ہے آپکی؟
دوکان تو بند ہی ہو گی اپن شادی پہ جو آئیلا ہے! فون بند۔
منظر بدلتا ہے۔۔۔
ہمارے ایک دوست کو ایک کمپیوٹر ڈیوائس کی ضرورت تھی۔ ہم نے اسے بتایا کہ دانش صاحب اکثر فلاں شہر جاتے رہتے ہیں۔ انہیں کہہ دو۔ ڈیوائس آ جائے گی۔ میرا شکریہ ادا کر کے وہ سیدھا دانش صاحب کے پاس گئے۔ یقیناً انہیں اپنا مدعا سنایا ہو گا۔ دانش صاحب نے انہیں کہا آپ پریشان ہی نہ ہوں آپ کا کام سمجھیں ہو گیا۔ چند دن ہی گزرے تھے کہ دانش صاحب کو کسی کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا۔ ہمارے دوست نے انہیں یاددہانی کرائی جس پر انہوں نے دوبارہ پریشان نہ ہونے کی تلقین کی۔ دو روز بعد جب دانش صاحب کی واپسی ہوئی تو ہم دونوں ان کے پاس پہنچے ۔ حال احوال اور سفر کے متعلق استفسار کے بعد ڈیوائس کا ذکر ہوا تو انکے منہ سے نکلا۔۔۔۔اڑےےےےےےےے۔۔
اپنی جیب سے فوراً موبائل نکالا اور کسی کو کال ملائی۔۔ جلدی کریو، وہ فلاں رنگ کی گاڑی ہے ابھی وہ واپس یہیں سے گزرے گی اسکی فلاں سیٹ پہ میں ایک ڈیوائس بھول آیا ہوں ۔ گاڑی والے سے ڈیوائس لے لیجیو۔ کال بند کرنے کے بعد دانش صاحب ہماری طرف متوجہ ہوئے اور بولے آپ بے فکر ہو جائیں مل ہی جائے گی۔
منظر بدلتا ہے۔۔
ہم اپنے دوست کے ساتھ کہیں دعوت اڑانے میں مصروف تھے، انہیں کال آئی۔۔ چند سیکنڈز توقف کے بعد بولے جی جی میں آپ کا ہی کام کر رہا ہوں۔۔ بے فکر ہو جائیں، بس جیسے ہی ہوتا ہے آپکو کال بیک کرتا ہوں، اللہ حافظ۔
مجھے تھوڑا حیران و پریشان دیکھ کے بولے۔۔کیا ہوا دعوت کا مزہ نہیں آیا کیا؟
مزید منظر بدلنے کی بجائے اس بات پہ اجازت چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی کو کال کریں اور وہ صاحب تین سیکنڈز کی خاموشی کے بعد آپ کو فرمائیں کہ پریشان ہی نہ ہوں آپ کا کام سمجھیں ہو گیا۔ تو آپ کو سمجھ ہی جانا چاہئے۔

Facebook Comments

محمد شفیق عادل
ذیادہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا. اور ذیادہ کوشش بھی نہیں کی. بس کبھی آنکھ کھلتی ہے تو قلم پکڑ لیتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply