• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • گنجے بندر، بارہ سنگھا اور شیر کے پنجے۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

گنجے بندر، بارہ سنگھا اور شیر کے پنجے۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

دوسرا دن تھا جنگل کے شہنشاہ کی طبیعت نہایت خستہ حال تھی جنگل کے سارے جانور جِن میں لومڑی ڈاکٹرنی اپنے ساتھ کام کرنے والے نوکر گدھے کے ساتھ موجود تھی ۔گدھے کی  پیٹھ پر بہت سی جڑی بوٹیاں رکھی ہوئی تھیں ۔کچھ سبز رنگ کے بڑے بڑے پتے بھی تھے جِن کو پانی کے ساتھ بادشاہ سلامت کو کھلایا جانا تھا۔ لومڑی نے ہاتھی کو اشارہ کیا کہ جاکر قریبی تالاب سے اپنی سونڈ میں پانی بھر کر لائے تاکہ بادشاہ سلامت کو ہرے ہرے پتے کھلائے جاسکیں۔ہاتھی اپنے وزنی جسم کو تیزی سے حرکت دیتا ہوا تالاب کی طرف دوڑ پڑا، کچھ ہی دیر بعد ہاتھی کی واپسی ہوئی، اُس کی سونڈ پانی سے بھری ہوئی تھی، لومڑی نے کچھ پتے نکالے اور شیر کی طرف بڑھا دیئے، شیر نے منہ کھولا اور پتے منہ میں ڈال کر اُسے چبانے لگا۔ ساتھ ہی ہاتھی نے اپنی سونڈ بادشاہ سلامت کے منہ کی طرف بڑھا دی جس سے پانی پی کر بادشاہ سلامت پھر سے بوجہ کمزوری    اپنے بستر پر گر پڑے، جب بہت دن بعد بھی بادشاہ سلامت کی طبیعت نہ سنبھلی تو شیر نے سوچا کہ کوئی ایسا ہونا چاہیے جو اُس کی اِس معذوری کی حالت میں بھی اچھی دیکھ بھال کرے تاکہ وہ اپنی باقی کی زندگی سکون سے گزار سکے۔ یہی سوچ بادشاہ سلامت کے ذہن میں جڑ پکڑتی گئی ۔آخر کار اُس نے یہ سوچا کہ کوئی ایسا ڈھونڈنا ہے جس کو وہ سارے جنگل کا بادشاہ بنائے، اور اُس کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے لئے سارے جانوروں کے لئے حکم نامہ جاری کرے۔

دو دن سوچنے کے بعد اُس کے ذہن میں وہ دو گنجے بندر آئے جو کافی حد تک چالاک اور نہایت چاپلوس تھے اُس نے سوچا کہ اِن دونوں میں سے کسی ایک کے نام کا اعلان کیا جائے ،سارے جنگل کے سامنے، بھلا کس کی ہمت ہو سکتی تھی کہ بادشاہ سلامت کی  حکم عدُولی کرتا، بادشاہ نے دونوں گنجے بندروں کو بلوایا اور اپنا مدُعا بیان کردیا دونوں بندر خوشی سے ناچنے لگے۔ وہ سوج بھی نہیں سکتے تھے کہ کبھی جنگل کی  بادشاہت اُن کے ہاتھ آئے گی ،خیر جب وہ ناچ ناچ کر تھک گئے تو اُنہوں نے پوچھا کہ بادشاہ سلامت مگر بادشاہ تو ایک ہی ہوسکتا ہے بھلا ہم دونوں کیسے ایک ساتھ بادشاہ بنیں گے؟ تو شیر نے دھاڑ کر دونوں کو چپ کرایا اور کہا کہ بڑا بندر بادشاہ بنے گا اور چھوٹا اُس کا نگران، اگر بڑا بندر کچھ غلط کرے گا تو چھوٹا مجھے اطلاع دے گا ۔پھر میں بڑے کے کان کھینچوں گا، یوں بادشاہ نے سب جنگل والوں کے سامنے بڑے گنجے بندر کو اپنا نائب بنایا اور چھوٹے کو اُس کا مشیر۔دن گزرتے رہے اور بادشاہ سلامت کی صحت بھی لومڑی کی دی ہوئی مرغن غذاؤں کی وجہ سے روز بروز اچھی ہوتی گئی۔ لومڑی نے جنگل میں کسی بکری کو نہ چھوڑا نہ ہی کسی خرگوش کو، بکری کا دودھ اور خرگوش کا مزے دار گوشت بادشاہ سلامت کو کھلا کھلا کر اُس کو خوب موٹا تازہ کرتی گئی۔

دوسری طرف دونوں بندروں نے جنگل میں طوفان مچایا ہوا تھا کیونکہ چھوٹا بندر مسلسل اپنے سے بڑے بندر کی غلطیوں پر پردہ ڈالتا رہا اور بادشاہ سلامت کو کچھ خبر نہ ہونے دی۔ اُنہوں نے جنگل میں موجود ہر جانور سے کچھ نہ کچھ چھین لیا، ہاتھی سے اُس کے دانت توڑ کر لے گئے، بکریوں سے اُن کے بچوں کے لئے بچایا ہوا دودھ پیتے۔گدھے پر سواری کرتے اور اُسے پہاڑوں میں سارا دن گھماتے رہتے۔بیچارہ گدھا زیادہ کام کی وجہ سے سوکھا اور ہڈیوں کا پنجر نظر آنے لگا تھا۔ کبھی پرندوں کے انڈے چرا کر کھاتے تو کبھی کسی بطخ کو پکڑ کر اسے چٹ کر جاتے۔ سارے جنگل والے اُن سے بہت تنگ آگئے اور آخر کار فیصلہ یہ ہوا کہ شیر کے پاس چلنا چاہئے اور اُس سے اِن گنجے بندروں کی شکایت کرنی چاہیے۔ یہ بات سارے جنگل والوں کو اچھی لگی اور وہ تیاری کرنے لگے  بادشاہ سلامت کے پاس جانے کی ۔مگر اُن کو یہ معلوم نہ  تھا کہ اِن کے درمیان چھوٹے بندر کے جاسوس بھی موجود ہیں، اُن میں سے ایک نے جب یہ سنا تو دوڑتا بھاگتا چھوٹے بندر کے پاس پہنچا اور اُس کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔چھوٹے نے جب یہ حالت دیکھی تو ڈر گیا اور سوچنے لگا کہ اگر جنگل والے بادشاہ سلامت کے پاس پہنچ گئے تو سب سے پہلے بادشاہ سلامت مجھے مار ڈالے گا کیونکہ اُس نے مجھے بڑے گنجے بندر کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے نہیں بلکہ اُس کی خبر دینے کے لئے اُس کے ساتھ مقرر کیا تھا۔یہ سوچا تو اُس کے ذہن میں ایک خیال آیا، وہ اُس جگہ چھپ گیا جہاں وہ بکری رہتی تھی جس کا دودھ بادشاہ سلامت کے لئے لومڑی آکر لے جاتی تھی۔ بندر اپنے ساتھ ایک نوکیلاڈنڈا بھی لایا تھا، جیسے ہی وہاں وہ بکری آئی بندر نے دوڑ کر اُس بکری کے پیٹ میں وہ نوکیلا ڈنڈا اُتارا اور بکری تڑپ تڑپ کر مرگئی۔جب بندر کو یقین ہوگیا کہ بکری مرچکی ہے تو وہ سر پٹ دوڑنے لگا اور بادشاہ سلامت کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت وہ بکری جس کا دودھ آپ کے لئے آتا تھا اُسے بڑے بندر نے طیش میں آکر مار ڈالا کیونکہ اُس نے بڑے بندر کو اپنا دودھ دینے سے منع کردیا تھا۔یہ سننا تھا کہ اُس نے دھاڑ کر بھالو کو آواز لگائی اور بڑے بندر کو پیش کرنے کا حکم دیا کچھ ہی دیر بعد بڑا گنجا بندر پیش ہوا۔ بادشاہ سلامت نے پوچھا کہ تم نے اُس بکری کو کیوں مارا تو بڑا بندر قسمیں کھانے لگا کہ میں نے ایسا نہیں کیا، مگر جب جنگل کے دوسرے جانوروں نے اُس کے خلاف گواہی دی کہ اِس سے پہلے بھی یہ بندر سب کو پریشان کرتا رہا ہے، اور سب کے مال کو ہڑپ کرتا آرہا ہے تو بادشاہ سلامت نے قہر بھری نظروں سے بڑے بندر کو دیکھا اور بھالو کو حکم دیا کہ اِسے جنگل کے جیل میں بند کیا جائے اور تاحکم ثانی اِس کی کوئی بھی فریاد ہمارے سامنے نہ لائی جائے۔

بادشاہ سلامت کو مفت کا گوشت اور دودھ کی کٹوری ملتی رہی تھی اب اُس کا دل خود شکار کرنے کا نہیں چاہ رہا تھا۔ اُس نے سوچا کہ اپنے رُعایا میں کسی دوسرے اچھے اور قابل بھروسہ جانور کو اب یہ عہدہ دینا چاہیے، اُس نے لومڑی سے مشورہ کیا کہ اب چونکہ میں نہیں چاہتا کہ جنگل میں میرے خوف سے دوسرے جانور ہمیشہ ڈرتے رہیں اس لئے کسی اچھے جانشین کی تلاش میں تم میری مدد کرو۔لومڑی ٹھہری بلا کی شاطر اُس نے سوچا کہ کوئی ایسا ہو جو اُس کے بھی کام آئے اُس نے اپنے دوست  بارہ سنگھے کا نام لیا اور سفارش بھی کردی کہ وہ اپنی دانائی کی وجہ سے بہت مشہور ہے لہذا اُسی کو جانشین بنایا جائے۔محفل سج گئی بارہ سنگھا بڑی دھوم دھام سے تخت پر براجمان ہوا، سب ہنسی خوشی رہنے لگے، چھوٹے بندر کو بادشاہ سلامت نے اِس بار بھی اُسی کام پر لگایا تھا مگر اُس کو ہدایت کی تھی کہ بارہ سنگھے کے آس پاس نہ رہے کہی ایسا نہ ہو کہ وہ لات مارے اور تمھاری کوئی ہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تھوڑا عرصہ گزرا کہ جنگل کی  رعایا میں پھر سے بےچینی پھیلنے لگی، آخر کار انہوں نے سوچا کہ بادشاہ سلامت کے پاس شکایت لے کر جایا جائے اور بارہ سنگھے کی شکایت کی جائے، شکایت یہ ہوگی کہ جب بھی کوئی جنگلی جانور بارہ سنگھے کے پاس کوئی مسئلہ لے کر جاتا ہے تو وہ مسئلہ کم سنتا ہے اور چھلانگیں زیادہ مارتا ہے اور چھلانگیں مارتا ہوا ان سے کہیں دور بہت دور چلا جاتا ہے واپس اُسی جانب جہاں سے وہ آتا ہے براہ مہربانی ہماری فریاد سُنی جائے، بادشاہ سلامت نے جب یہ بات سُنی تو اپنے پنجے نکال کر اسے دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ بڑے گنجے کو واپس لے آوں یا کہ، “اِسی دوران اُسے چھوٹا بندر اپنی طرف آتا دکھائی دیا اور شیر نے پنجے دوبارہ چھپا لئے شاید اِس بار باری چھوٹے سے گنجے بندر کی تھی۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply