مشترکہ محاذ۔۔محسن ابدالی

وزیرستان کے مختلف قبائل اور دور دراز سے شامل ہوئے پشتونوں کا اپنے حقوق اور بقاء کے معاملات پر منظم احتجاج اور متحدہ مظاہرہ، ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ وزیرستان اور قبائل کے لوگوں نے کئی دہائیوں سے ان پر ٹھونسی جانے والی شعوری انتہاء پسندی اور ننگی دہشت گردی اور جبر سے جراتمندانہ بغاوت کی ہے۔ یہ حکام اور پالیسی سازوں کے لیے  سادہ مگر واضح پیغام ہے کہ وہ اب اپنی زمین پر خون کی ہولی اور اپنے لوگوں پر مزید جبر برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ مٹھی بھر شر پسند عناصر  کے مفادات کی خاطر اپنے وطن کو ،مزید  میدان جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بربادی کا شاخسانہ بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اس لڑائی سے عاجز اور متنفر ہو چکے ہیں جو  شاید ان کی کبھی تھی ہی نہیں۔ ان کے مطالبات منطقی اور ان پر عمل انتہائی ضروری ہے۔ وہ نقیب اور اس جیسے بیشمار خوبرو نوجوانوں کے درندہ صفت قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا دیکھنے کے منتظر ہیں۔ وہ اس “غائبانہ” طاقت کا خاتمہ چاہتے ہیں جو نجانے کس منطق کے زیر اثر صحیح اور غلط کا اپنے ہی بنائے ہوئے بے ڈھنگے اصولوں کے مطابق فیصلہ اور سزائیں  دیتی پھرتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے علاقوں میں بچھے موت کے جال سے، جس کا نشانہ آئے دن کسی کا بیٹا یا کسی کا باپ بنتا ہے، چھٹکارا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :مشال قتل کیس اور مذہبی جماعتوں کا رویہ۔ طاہر یاسین طاہر

ان کا مطالبہ ہے کہ وہ جو پہلے سے ہی اس بنیاد پرستی اور دہشت گردی جیسی لعنت کا بالواسطہ نشانہ ہیں، اپنے ہزاروں لوگ کھوچکے ہیں، اپنا گھر بار لٹا یا برباد ہوتے دیکھ چکے  ہیں، مزید کسی نقصان اور دکھ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس کے ساتھ ہی حالیہ کچھ عرصے میں ایک بڑی ڈیویلپمنٹ جو دیکھنے کو ملی ہے وہ یہ کہ اب کسی بھی طبقے اور کمیونیٹی کے مسائل کو ان لوگوں یا طبقات کا ایکسکلوزیو مسئلہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ معاشرے کے دوسرے طبقات سے درد دل رکھنے والے، با شعور لوگ بھی مظلوم کے حق میں کھل کر سامنے آتے ہیں اور ان کے ہم آواز ہوتے ہیں۔ اس مشترکہ محاذ  میں طلباء کا کردار قابل تحسین ہے۔ چاہے وہ لاہور میں دلاور کا   قتل ہو،  چارسدہ میں مشال کا اجڈ اور جاہلوں کے ہاتھوں قتل ہو، پشاور کی زرعی یونیورسٹی میں ہونے والی دہشتگردی ہو یا کراچی میں ہونے والا نقیب کا    قتل ہو، طلباء نے ہر ایسے فعل کی عملاً  مزمت کی اور ایسے واقعات کی مستقبل میں روک تھام کے لیے  موثر آواز اٹھائی۔ اس اتحاد    کی بیش بہا مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ لوگ اس نظام جبر کے تحت ابھرنے والی بیگانگی سے باہر آچکے ہیں اور وہ دوبارہ اپنی بہتری کو مشترکہ اور سب کی بہتری میں تلاش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :  مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت،5کو 25سال قید

سندھ اور ملک کے دوسرے حصوں کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں مختلف عناصر اور مفادات کے ہاتھوں ہونے والے جبر اور دباؤ کی لہر بھی اس نئی سوچ اور نئے مظہر کو دبانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ طالبعلم اور دوسرے پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ اب مزید جبر اور دباؤ  سے باغی ہوچکے ہیں کیونکہ وہ اسے انتہائی حدوں تک بھگت اور برداشت کر چکے ہیں۔ نقیب کے  ریاستی پولیس کے ہاتھوں ہونے والے قتل کو حقیقی اور بڑی سطح کے مسائل کے ساتھ جوڑنا، وزیرستان کی نئی ابھرنے والی باشعور اور ترقی پسند قیادت کے سیاسی اور سماجی شعور اور ان کی وطن کی بہتری کی لگن اور محبت کی واضح مثال ہے۔ اور یہ کہ وہ حقیقی اور فوری حل طلب مسائل لے کر سامنے آئے۔ ان کے ان مطالبات کی فوری شنوائی اور موثر اور ضروری حل کے لیے پورے ملک سے طالبعلموں نے ان کے حق میں آواز اٹھائی اور ان سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ ملک کے چھوٹے اور بڑے شہروں میں زیر تعلیم طالبعلم خود جا کر اس مظاہرے کا حصہ بنے اور جو نہیں جاسکے انہوں نے اپنی جامعات اور دوسرے اداروں اور شہروں سے یکجہتی اور مکمل حمایت کا اعلان کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سماجی، سیاسی، قومی اور ملکی سطح پر سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ طابعلم، جو ہمارے معاشرے کا مستقبل اور سب سے اہم اور قیمتی سرمایہ ہیں، انہوں نے نقیب شہید کی ماں اور وزیرستان میں مرنے والے ہر بچے، نوجوان، بیٹا، ماں، باپ، بیٹی کے درد کو محسوس کیا۔ اور  سب سے بڑھ کر یہ کہ، اس کا عملی طور پر اظہار کیا۔ ایک نئی سوچ، ایک نیا مظہر۔ میری حکام سے التماس ہے، مجھے یقین ہے کہ ان میں بھی بیشمار انسانیت اور وطن سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، کہ وہ اس سوچ اور ان عوامل کو رد کریں اور ان کے خلاف لڑیں، جنہوں نے ہمارے خوبصورت وزیرستان اور ملک کو دہشت کا  مسکن  بنایا۔ اور ان کے  جو آج بھی، مشال جیسے باعلم، باشعور اور باضمیر طالبعلم کا قتل اور قاتلوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مشترکہ محاذ۔۔محسن ابدالی

Leave a Reply