گڈانی شپ بریکنگ ،مزدوروں کا مقتل

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ماہی گیروں کی قدیم بستی گڈانی کے نام سے موسوم ہے جو کراچی سے 60کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر پرانے اور ناکارہ جہاز توڑنے کی صنعت شپ بریکنگ ہے جسے عام طور پر گڈانی شپ بریکنگ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ بحیرۂ عرب کے 15کلو میٹر ساحلی علاقے پر محیط 132یارڈ ہیں، جہاں بیک وقت 200سے لیکر 300جہاز توڑے جانے کی گنجائش ہے۔ یہاں 1968میں پہلا جہاز توڑنے کے لیے لایا گیا تھا، اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ مقام شپ بریکنگ کا ایک نمائندہ مرکز بن گیا ۔ یہاں سے سالانہ ایک لاکھ 60ہزار ٹن اسکریپ نکالا جاتا ہے اور اس صنعت سے بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر بیس ہزارمحنت کش وابستہ ہیں جن میں مقامی مزدوروں کے علاوہ سندھ ، پنجاب اور پختونخوا سے تلاش معاش میں آنے والے محنت کش بھی شامل ہیں ۔ اس وقت گڈانی شپ بریکنگ کو باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل ہے اور شپ بریکنگ کی دنیا میں اس کا شمار تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ اسے کہا تو پرانے بحری جہازوں کا قبرستان جاتا ہے لیکن یہ عملی طور پر محنت کشوں کا قبرستان بنا ہوا ہے ۔

یکم نومبر کا دن گڈانی شپ بریکنگ کے ان 250 مزدوروں کے لیے قیامت کا دن ثابت ہوا جو پلاٹ نمبر 54 پرکٹائی کے لیے لائے گئے ایک پرانے جاپانی آئل ٹینکر شپ (ٹنM-T-Aces FUDREAL 24000) کو توڑنے کے لیے رات کو ہی جہاز پر پہنچا دیے گئے تھے ۔ صبح 9 بجکر 40 منٹ پراس جہازمیں لگنے والی آگ وہاں پڑے ہوئے سلینڈرز اور دیگر خطرناک کیمیکلز میں بھڑک اٹھی اور اس نے آناََ فاناََ جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ شدید دھماکوں سے جہاز کے بڑے بڑے فولادی ٹکڑے اور پائپوں نے ارد گر تباہی مچادی ۔ جہاز پرآگ لگنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ تیل صاف کیے بغیر مزدوروں کو جہاز کی کٹنگ پر مجبور کیا جا نا ہے۔ یہ کٹنگ گیس ویلڈنگ سے کی جاتی ہے جو کہ اس المناک سانحے کی وجہ بنی ۔اس سانحے میں تادم تحریر 20سے زائد ورکرز شہید 70سے زائد زخمی ہوچکے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 150کے قریب ورکرز اب بھی جہاز میں موجود ہیں جن کے زندہ رہنے کی امدیں دم توڑ چکی ہیں، کیونکہ تیسرے دن تک بھی آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے ۔ اس موقع پر سب سے پہلے امدادی سرگرمیوں کے لیے یہاں عبدالستار ایدھی صاحب کے فرزند فیصل ایدھی پچاس سے زائد ایمبولینس اور رضاکاروں کے ساتھ پہنچے جب کہ اُس وقت حکومتی اداروں کا دور دور تک یہاں نام ونشان نہیں تھا۔

گڈانی شپ بریکنگ کی تاریخ کے اس سب سے ہولناک حادثے کے امکانات کے بارے میں مسلسل نشاندہی کی جاتی رہی لیکن کسی نے اس پر کان نہیں دھرے ۔ اس سانحے سے محض دو دن قبل کراچی پریس کلب پر ’’ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن‘‘(NTUF)کے زیر اہتمام گڈانی شپ بریکنگ کے مزدوروں نے ہیلتھ وسیفٹیی ، یونین سازی واجتماعی سوداکاری کے حق اور ٹھیکہ داری نظام کے خاتمے کے لیے احتجاجی ریلی نکالی تھی اور یہ احتجاج دس سال سے جاری ہے ۔ پاکستان کی مزودر تنظمیں سانحہ بلدیہ (علی انٹر پرائز) کے بعد سے فیکٹریوں ،کارخانوں اور کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لیے حکومتی سطح پر حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کرتی رہیں، احتجاجات کیے گئے لیکن اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا جو ایک مجرمانہ عمل ہے اور اس کا منطقی نتیجہ سانحہ گڈانی شپ بریکنگ ہے ۔

شپ بریکنگ مالکان گڈانی کے محنت کشوں کی نمائندہ یونین کی حیثیت اور اجتماعی سوداکاری کے حق سے ہی انکاری ہے ۔ مالکان نے ایک پاکٹ یونین مزدوروں پر مسلط کر رکھی ہے جس کے کرتا دھرتا ٹھیکہ دار ہیں اور یہ مزدوروں پر مظالم کے ساتھ ساتھ ان سے ہر ماہ یونین چندے کے نام پر سو روپے فی کس جبری بھتہ وصول کرتے ہیں ۔

گڈانی شپ بریکنگ مزدوروں کے لیے ایک مستقل مقتل بنا ہوا ہے جہاں آج تک توڑے گئے جہازوں سے زیادہ تعداد ان مزدوروں کی ہے جو یہاں کام کے دوران شہید ہو چکے ہیں ۔ان تمام ورکرزکی شہادتوں کے ذمہ دار شپ مالکان اور جمعدار ( ٹھیکہ دار) ہیں ۔ ان کی مجرمانہ غفلت کی پشت پناہی لیبر ڈپارٹمنٹ ،مقامی پولیس اور انتظامیہ کرتی ہے ۔گڈانی شپ بریکنگ میں مسلسل ہر روز چھوٹے موٹے حادثات معمول کی بات ہے اور ہر ماہ کوئی نہ کوئی ورکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔یہاں محنت کشوں کو غلاموں سے بدتر حالت میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔یہاں ملک کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور مکمل طور پر شپ بریکنگ مالکان کی حکمرانی ہے ۔ ورکرز سوشل سیکورٹی، EOBI، پینشن اور یونین سازی سمیت اجتماعی سواکاری کے حق سے محروم ہیں۔ یہاں کام کے دوران ضروری حفاظتی انتظامات و آلات سرے سے ہی موجود نہیں اور ورکرز پر بدترین ٹھیکہ داری نظام مسلط کیا گیا ہے ۔ شپ بریکنگ کا کام انتہائی خطرناک ہے جس میں ویلڈنگ اور بڑی بڑی فولادی چادروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر نے کے لیے کرینوں کا سہارا لیا جاتا ہے اس کام میں زرا سی بے احتیاطی ایک محنت کش کی زندگی کا چراغ گل کر سکتی ہے یا اسے زندگی بھر کے لیے معذور بنا سکتی ہے ۔ سیفٹی شو ز، چرمی اور دیگر مخصوص دستانے ، حفاظتی ، ماسک ، ہیلمٹ، سیفٹی بیلٹ ، ڈانگری اور آگ بجھانے والے آلات کے بغیر اس کام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر مالکان کی جانب سے ان محنت کشوں کے لیے ایسی کوئی بھی سہولت میسر نہیں ۔ اربوں روپے کما کر دینے والی انڈسٹری کے مزدور اسپتال، ایمبولنس ، رہائشی کالونیوں ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ ،بجلی ، گیس اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں ۔ حفاظتی تربیت کی عدم فراہمی اور حفاظتی آلات کی غیر موجودگی کی وجہ سے یہ صنعت کان کنی کی طرح خطرناک بن چکی ہے ۔مضر صحت کیمیکلز ، گیسوں اور اس طرح کے دیگر خطرناک مواد کو محفوظ طریقے سے نکالنے اور ٹھکانے لگانے کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدور جلد، پھیپھڑوں اور کینسر جیسی بیماریوں کا شکار ہیں ۔ جبکہ سمندر اور آبی حیات بھی شدید خطرات سے دوچار ہے ۔لیکن اس ساری گھمبیر صورتحال میں حکومتی ادارے مسلسل پہلوتہی کر رہے ہیں جس میں انھیں شپ بریکنگ مالکان کی حمایت حاصل ہے ۔

یہ وہ مالکان ہیں جن کے منافعے کا اندازہ ’’لیڈی ڈیانا‘‘ نامی بحری جہاز سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس جہاز کا وزن38 ہزار ٹن تھا اسے 48 کروڑ روپیہ میں خریدا گیا تھا ۔اسے توڑنے میں 4 ماہ کا عرصہ لگا اوراس سے مالکان کو 1 ارب 71 لاکھ روپے کا فائدہ حاصل ہوا۔ جب کہ جہاز کا مختلف سازو سامان جن میں موٹریں، انجن، ائیر کنڈیشننز ،جنریٹر، مختلف قسم کی مشینری ،کشتیاں ،سلینڈر،کرسیاں، صوفے، پلنگ، لکڑی کی کھڑکیاں، دروازے، مختلف قسم کی لکڑی ، پیتل ، دویگر دھاتوں سے ہونے والی آمدنی اس کے علاوہ ہے ۔ ہر جہاز سے تقریبا 10 سے 15 ٹینکر آئل بھی نکلتا ہے ۔ ایک جہاز توڑنے پر ٹھیکدار جو (جمعدار ) کہلاتا ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، 25 سے 30لاکھ روپے وصول کرتا ہے اس سے بدترین استحصال کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔

اس سانحے کے موقع پر ’’ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان ‘‘ کی قیادت جائے حادثہ پر موجود رہی ۔فیڈریشن کی کال پر تین روز سوگ اور ہڑتال کے اعلان کیا گیا ۔ محنت کش تین دن سے مسلسل فیڈریشن کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کراحتجاجی ریلیاں نکال رہے ہیں وہ یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ تمام شہید ہونے والے محنت کشوں کو فی کس 25لاکھ روپے اورزخمیوں کو فی کس 5لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جائے ، اس سانحے میں ملوث شپ بریکنگ مالکان کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم کیا جائے ، لیبر ڈپارٹمنٹ ، سوشل سیکورٹی اور EOBIکے افسران کو غفلت برتنے پر فی الفور معطل کیا جائے ، شپ بریکنگ یارڈ میں جمعداری ( ٹھیکہ داری ) نظام ختم کیا جائے ، یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کا حق تسلیم کیا جائے اور ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور پنشن کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے اور شپ بریکنگ ورکرز کے لیے خصوصی قانون سازی کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سانحہ بلدیہ کراچی ہو یا سانحہ گڈانی شپ بریکنگ اس کے اصل محرکات کام کی جگہوں پر صحت وسلامتی کے اقدامات ، آلات اور تربیت کی عدم فراہمی ہے اور لیبر قوانین سے روگردانی کا شاخسانہ ہے۔ اس جرم میں مالکان سے لے کر لیبر سے متعلقہ ادارے تک برابر کے شریک ہیں۔جب تک ان اسباب کا قلع قمع نہیں کیا جائے گا اس وقت تک کام کی جگہیں ، فیکٹریاں ، کارخانے محنت کشوں کے لیے موت کے کنویں بنے رہیں گے ۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply