خود غرض بیانیہ۔۔۔۔آصف محمود

احباب کہتے ہیں : بیانیہ صرف نواز شریف کے پاس ہے ۔ درست کہتے ہوں گے ۔ عرض صرف اتنی ہے کہ یہ بیانیہ ہے تو بڑا ہی خود غرض اور نا معتبر بیانیہ ہے۔

نواز شریف گرفتار ہو کر جیل پہنچتے ہیں ۔ بیانیہ اودھم مچا دیتا ہے : واش روم گندہ ہے، کمرے میں سیلن ہے ، کمرہ ہوادار نہیں ، طبی سہولیات غیر موزوں ہیں ، جیل میں اچھا ہسپتال نہیں ہے ، جیل میں قابل ڈاکٹر نہیں ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔ شام ڈھلنے تک بیانیہ ایک قوالی بن جاتا ہے ، کیا خبر ، کیا کالم ، کیا ٹاک شو ، ہر جگہ یہی قوالی پڑھی جاتی ہے ۔ بیانیے کی اس قوالی کی موسیقیت ، شاعری اور ترنم سے انکار نہیں ، سوال مگر کچھ اور ہیں ۔

گندے واش روم سے کیا صرف نواز شریف کی طبیعت کراہت محسوس کرتی ہے اور باقی قیدی گندے واش رومز کو دیکھ کر آسودہ ہو جاتے ہیں ؟ کمرے کی سیلن سے کیا صرف نواز شریف کے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں اور عام قیدیوں کے لیے یہ سیلن ایک تریاق کا کام دیتی ہے؟ جیل میں طبی سہولیات اور ڈاکٹر کی حاجت کیا صرف نواز شریف صاحب کو محسوس ہوئی اور باقی قیدی بلال گنج کے کباڑ خانے کا مال ہیں جو کبھی بیمار ہوتے ہیں نہ انہیں کسی ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے. عشروں انہوں نے اس ملک پر حکومت کی لیکن جیل کی حالت زار کا خیال نہیں ۔ یہ خیال اس وقت آیا جب خود جیل میں جا پہنچے ۔ اس وقت بھی انہیں یہ کہنے کی توفیق نہیں ہو رہی کہ جیلوں کا عمومی نظام بہتر کیا جائے ، یہ صرف اپنے معاملات پر شور مچا رہے ہیں ۔ کوئی ان سے یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ جب آپ حکومت میں تھے آپ نے جیلوں میں طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کیا کیا تھا ؟کتنی ڈسپنسریاں بنوائی تھیں ، کتنے ہسپتال بنوائے تھے اور کتنے ڈاکٹرز تعینات کیے تھے؟

جیل سے میاں صاحب کو ہسپتال لایا جاتا ہے ۔ عام شہر کے کسی ہسپتال میں نہیں جہاں ایکسرے کی سہولت بھی ستیاب نہیں ہوتی بلکہ آدھے پنجاب کا بجٹ کھا جانے شہر لاہور کے ہسپتال میں لایا جاتا ہے ۔ اس ہسپتال کے کسی کاؤنٹر پر بھی نہیں لے جایا جاتا سیدھا وی آئی پی وارڈ میں لے جایا جاتا ہے ۔ میاں صاحب کو وی آئی پی وارڈ کا کوئی کمرہ پسند نہیں آتا ۔ ایک ایک کر کے انہیں کئی کمرے دکھائے جاتے ہیں لیکن عشروں کے اقتدار کا حاصل یہ ہے کہ اپنے ہی شہر لاہور کے ہسپتال کے امراض دل کے شعبے میں وی آئی پی وارڈ میں انہیں ایک بھی کمرہ پسند نہیں آتا ۔ کمرہ پسند آتا ہے تو کہاں ؟ گائنی وارڈ میں ۔ دل کا مریض گائنی وارڈ کے وی آئی پی روم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ دنیا میں کہیں اس تماشے کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ کیا بیانیے کو کچھ خبر ہے کہ جیل میں موجود دیگر قیدیوں کو کبھی دل کی تکلیف ہو جائے تو انہیں بھی علاج کے لیے کسی ہسپتال بھیجا جاتا ہے یا وہ جیل کی کوٹھڑی میں ہی ڈسپرینیں کھا کھا کر مر جاتے ہیں ؟ یہ کیسا بیانیہ ہے جو اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا ؟

پاکستان میں سب سے طویل مدت اقتدار شریف خاندان کے پاس رہا ۔ عشروں اس ملک پر حکمرانی کرنے کے باوجود وہ یہاں سے علاج کروانا پسند نہیں کرتے ۔ ایک طرف یہ دعوی ہے کہ ہم نے اپنے با برکت دور حکومت میں ملک میں طبی سہولیات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ۔ دوسری جانب ملک کے کسی ہسپتال سے علاج کروانا قبول نہیں ۔ ان کی گڈ گورننس کا اس سے اچھا پوسٹ پارٹم کوئی کیا کر سکتا ہے؟ کیا یہ ہیں میاں صاحب کی مثالی طرز حکمرانی کے نقوش جن کی تعریف و توصیف یہاں دن میں گیارہ مرتبہ کی جاتی ہے؟ یہ کتنا سفاک اور کتنا خود غرض بیانیہ ہے کہ جن ہسپتالوں کو عوام کے لیے نعمت قرار دیا جاتا رہا اور جنہیں اپنی اعلی طرز حکومت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا رہا خود ان ہسپتالوں سے علاج کروانے کے بھی روادار نہیں؟

اس ملک میں احتساب کے نام پر مخالفین کو دبانے کے لیے ’’ احتساب بیورو ‘‘ خود نواز شریف نے قائم کیا اور اپنے چہیتے سیف الرحمن کو اس کا سربراہ بنا دیا ۔ اس وقت بیانیہ یہ تھا کہ احتساب بہت ضروری ہے۔ آج مگر خود قانون کی گرفت میں آئے ہیں تو بیانیہ بدل چکا ہے ۔ آج احتساب ایک غیر ضروری مشق ہے جس کا مقصد سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔

موجودہ نیب بھی وہیں تھا اور اس کے سارے قوانین بھی اپنی جگہ موجود تھے جب میاں نواز شریف اس ملک کے وزیر اعظم تھے ۔ جب چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد زرداری کے ساتھ مل کر آئینی ترامیم لائی جا رہی تھیں تب بھی نیب اسی شکل میں موجود تھا ۔ جب نواز شریف چیئر مین نیب کی تعیناتی کے لیے مشاورت فرما رہے تھے اس وقت بھی یہی نیب اور یہی قانون تھا ۔ نواز شریف کو کبھی خیال نہیں آیا کہ نیب قوانین میں اصلاح اور ترامیم کی ضرورت ہے ۔ احساس ہوتا تو جہاں سب نے مل کر کئی قوانین بنائے اور ان میں ترامیم کیں وہیں نیب کے قانون کو بھی بدل دیتے۔

قانون یہ ہے کہ نیب جس بندے کو پکڑ ے اسے ضمانت نہیں مل سکتی ۔ اسفند یار ولی کیس میں سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود کسی حکومت نے اس قانون میں تبدیلی نہیں کی ۔ کیوں کہ اس وقت اس ظالمانہ قانون کا نشانہ اور لوگ بن رہے تھے ۔ آج خود پر بات آئی ہے تو انہیں یاد آ گیا ہے کہ نیب قانون میں فلاں فلاں چیز درست ٹھیک نہیں ہے ۔ تب عدالت نے ایک متبادل راستہ نکالا کہ ملزم کو نیب قانون کے تحت بھلے ضمانت پر رہائی کا حق نہ ہو، وہ آئینی پیٹیشن میں ضمانت کا ریلیف ہائی کورٹ سے لے سکتا ہے ۔ آج تک نیب کے ملزمان کو ضمانت پر رہائی اسفند یار ولی کیس میں طے کردہ اسی متبادل راستے سے مل رہی ہے۔ قانون سازوں کو قانون بنانے کی توفیق نہیں ہوئی۔

یعنی جب تک بیانیے کے اپنے پاؤں نہیں جلتے وہ ہر چیز سے لاتعلق رہتا ہے۔تب نہ جیل کی حالت زار کا خیال آتا ہے نہ نیب قانون میں اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جیسے ہی معاملہ اس کی ذات تک پہنچتا ہے یہ چیخنا شروع کر دیتا ہے ۔ پھر اسے جیل کے واش روم کی گندگی بھی تنگ کرنے لگتی ہے اور سیلن بھی ۔ اسے نیب قانون بھی ظالمانہ لگنے لگتا ہے اور اصلاحات کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ یعنی بیانیہ صرف وہاں جھاڑو لگاتا ہے جہاں اس نے خود تشریف فرما ہونا ہوتا ہے۔ باقی خلق خدا کس حال میں ہے ، بیانیے کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی ذات کے گنبد میں قید یہ رویہ اگر بیانیہ ہے تو انتہائی خود غرض اور نامعتبر بیانیہ ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply