بیانیہ کیسے تشکیل پاتا ہے؟

پچھلے دنوں جب وزیراعظم نواز شریف جامعہ نعیمیہ میں خطاب کے دوران دہشت گردی کے خلاف نیا بیانیہ تشکیل دینے کی بات کر رہے تھے تو مجھے خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہورہی تھی۔ خوشی اس بات کی کہ بالآخر خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا تھا اور پہلی بار وزیر اعظم صاحب اس موضوع پر کچھ بول رہے تھے جبکہ حیرت وزیر اعظم صاحب کے بھولپن پہ ہورہی تھی کیونکہ ایسا کوئی بیانیہ تشکیل دینا علماء یا عوام کا کام نہیں بلکہ اس کارِ خیر کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے جس کا کام ہی قانون سازی، اس کی تشریح اور اس کا مکمل نفاذ ہے۔اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔۔ بس ذرا گردن گھما کر ماضی قریب کی ملکی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی کہ یہ حکمران اور ریاستی ادارے ہی تھے جنہوں نے ہمیشہ باہمی افہام و تفہیم سے نہ صرف خارجہ پالیسی تشکیل دی بلکہ اندرونی بیانیہ بھی ترتیب دیا۔1973 کا آئین جسے بلا شبہ ملک کا پہلا اور آخری متفقہ آئین قرار دیا جاسکتا ہے، پاکستان کے تمام شہریوں کو اپنے عقیدے پر آزادانہ اور بلا خوف و خطر عمل کرنے کی ضمانت دیتا ہے لیکن ملکی تاریخ سے واقف لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ضیاء الحق نے اس آئین کا جس بری طرح سے حلیہ بگاڑا، اس نے مذہب اور مذہبی معاملات میں ایک نئے بیانیے کی داغ بیل ڈالی۔ یہ انہی کا نعرہ تھا کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں اس کے بعد پاکستانی اور یہی وہ نعرہ تھا جس نے پاکستان میں بسنے والے غیر مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس دلایا۔ عوام کی منتخب اسمبلی کو برطرف کرنے کے بعد جب انہوں نے اپنے ہم خیال لوگوں پر مشتمل مجلسِ شوریٰ بنائی تو یہ بھی نئے بیانیے کی تشکیل کا ہی ایک مرحلہ تھا جس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے وہ قرآن مجید کی آیت ”وامرہم شوریٰ بینہم“ کا سہارا لیتے رہے۔ جنرل ضیاء ہی کے دور میں جب امریکہ بہادر کے کہنے پر سی آئی اے اور عرب ملکوں کے تعاون سے افغان جہاد کا آغاز کیا گیا تو درحقیقت یہ بھی من پسند بیانیے کی تشکیل کا ہی ایک حصہ تھا۔جب افغان جہاد کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر سے مجاہدین کی بھرتی کا عمل زوروں پر تھا اور ہم سی آئی اے کے توسط سے قرآن مجید چھپوا کر مجاہدین میں بانٹ رہے تھے (بحوالہ کتاب، شکستِ روس، مصنف، بریگیڈیر ریٹائرڈ محمد یوسف) تب بھی ایک مخصوص بیانیہ ہی تشکیل پارہا تھا اور جب کھیلوں کے میدان میں سیاسی مخالفین کو باندھ کر ان کے برہنہ جسموں پر کوڑے برسائے جا رہے تھے تب بھی تو ایک نئے بیانیے کی ہی تشکیل ہورہی تھی۔
اسی طرح ایک بیانیہ اس وقت بھی تشکیل پا رہا تھا جب بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر طالبان کی تشکیل کا کارنامہ سرانجام دے رہے تھے اور یہ اسی بیانیے کا ہی تسلسل تھا جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود سرحدیں عملاً مٹ گئی تھیں اور یہاں کے مجاہدین قافلوں کی شکل میں وہاں جاکر جہاد میں حصہ لے رہے تھے اور جب پاکستان میں کفر کے فتوے صادر کرکے بے گناہ لوگوں کی لاشیں گرائی جارہی تھیں تب بھی تو ایک بیانیہ ہی تشکیل پا رہا تھا۔ لیکن اس وقت کسی نے عوام سے رجوع کرنے اور ان کی مرضی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی اس لیے یہ بات کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں حکمرانوں نے عوام سے صلاح و مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کی تو اس بیانیے کو تبدیل کرنے میں کونسی مصلحت مانع ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسی باتیں کرکے محض خانہ پری کی جا رہی ہے؟ ورنہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر وہ اور ان کی پارٹی چاہے تو نئے بیانیے کی تشکیل کے لیے تمام عوامی نمائندوں کے ساتھ مل کر سنجیدہ اور قابلِ عمل اقدامات کر سکتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی بہت قابل غور ہے کہ علماء اور عوام سے دہشتگردی کے خلاف بیانیہ تبدیل کرنے کی بات کرتے ہوئے اس بات کو فراموش کر دیا گیا کہ ضرب عضب کے آغاز پر جب حکومتی مشیر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان ان شدت پسندوں کو کیوں نشانہ بنائے جو پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں ہیں؟ تو وہ دراصل ریاستی بیانیے کا ہی پرچار کر رہے تھے۔ اسی طرح جب ملک کے ایک سابق آرمی چیف کی سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والی فوج کی کمان سنبھالنے کی باتیں گردش کرنے لگیں گی تو عوام اسے بھی ریاستی بیانیے سے ہی تعبیر کریں گے، جب ملک کے وزیر داخلہ کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے تو اس میں بھی حکومتی بیانیے کی ہی جھلک نظر آئے گی، جب خیبر پختونخوا میں عوامی فنڈ سے کسی خاص مدرسے کو کروڑوں روپیوں کی امداد دی جائے گی تو یہ بھی صوبائی حکومت کے بیانیے کا ہی اظہار ہوگا، جب گستاخ پیجز کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر پابندی کی افواہیں اڑائی جائیں گی تو یہ بھی کسی ریاستی ادارے کی تشکیل کردہ بیانیے کی ہی ایک جھلک ہوگی۔
اس صورت حال میں جناب وزیر اعظم کا عوام اور علماء سے اس بات کی توقع کرنا کہ وہ بیانیے کی تبدیلی میں اپنا کردار ادا کریں گے، اپنے کاندھوں سے ذمہ داریوں کی گٹھڑی اتار پھینکنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں کیونکہ وہ بھی یہ بات جانتے ہوں گے کہ کسی سیمینار میں دس یا پندرہ منٹ کے خطاب سے وہ بیانیہ تبدیل نہیں ہو سکتا جس کی تشکیل میں ان کے پیشرؤں نے کئی دہائیاں لگا دیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم صاحب پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر آئین میں ایسی ترمیم لائیں جس کی رو سے کسی فرقے کو کافر قرار دینا اور بات بات پر جہاد کے فتوے صادر کرنا باقاعدہ جرم تصور ہو جس کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جائیں۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کو اپنے ذاتی تعلقات پسِ پشت ڈالتے ہوئے ان دوست اسلامی ممالک سے بھی دو ٹوک اور سنجیدہ بات کرنی ہوگی جن کی پراکسی جنگ کے باعث ملکی سالمیت مسلسل خطرے سے دوچار ہے ورنہ ان کا خطاب نشستند و گفتند و برخاستند ہی کہلائے گا۔

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply