اللہ اللہ کر کے وہ دن بس آیا ہی چاہتا ہے کہ جب ہم جو کہ لب بستہ ہیں دلگیر ہیں ، اپنا سکوت زباں و احساس زیاں توڑیں گے اور پیمان وفا کی تجدید، و چند دیگر خالی آسامیوں پر درد دل کی درخواست ارسال کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں-
اے یاران وطن پچھلے برس اس موقع پرہمارے دوست “چنن دین “پر کیا بیتی کیا بتائیں – بہرحال اصرار ہے تو بتائے دیتے ہیں_ کچھ شیطان صفت دوستوں نے چنن دین صاحب کو ٹچ بٹناں والا موبائل دلا کر طریقہ ہائے واردات مع چند عفیفاؤں کے نمبروں کے سمجھا کر فرمایا کہ لگ جا بیٹا کام پہ – بعد از محنت شاقہ چنن دین صاحب ایک نمبر پر دل کے تار ملانے میں کامران ہوئے اور بر درخواست عفیفہ اس فتنہ پرور دن کا انتظار کرنے لگے کہ جس دن میل دلاں دے ہونے۔۔ چنن دین آنکھوں میں خواب سجائے اور للچائے دل کے ساتھ اکثر گنگناتا رہتا کہ “کدی آ مل سانول یار وے” تو آگے سے جواب آتا” کر لے چودہ فروری تک انتظار وے” ،
ہجر کے دن پاٹنا کار مشکل تھا مگر امید کی کرن اس مفسد دن پر موقوف تھی – چنن دین سادہ دل و سادہ طبیعت اور تا وقت اسماء بیلنس والی، اور پیسے اینٹھنے والی مشینوں کی کارستانیوں سے ناواقف تھا – محلے بھر کا پانی بھر کر جو چار پیسے بناتا وہ نادیدہ محبوبہ کی فون خرچیوں پر اڑ جاتے اور یار لوگ چادر تان کر سو رہتے کہ اس دن میلے ہونے ہیں -مشکل سے ہی سہی مگر وقت ہجر تمام ہوا اور یہ ویلنٹائن دن آن پہنچا – چنن دین مانگے کا سوٹ زیب تن کیے، دنداسہ مل کر، عازم سوئے منزل عشق ہوا – طرح طرح کے خیالات عاشق صادق کے من میں گھر کرتے رہے اور پڑوسی کی مانگی چپل کے سہارے منزلیں مارتے رہے یوں مقررہ وقت سے کچھ وقت قبل ہی منزل مقصود پر پہنچ کر ایک طرف براجمان ہو رہے –
چنن دین اب دل کے ہاتھوں مجبور و بے بس تھا کہ اسی لمحے ایک برقعہ پوش مگر ایسی صحت مند کے بھینس بھی شرما جائے دھک سے چنن دین کے مورے آن کھڑی ہوئی، ایسی مورت آن کھڑی ہوئی تھی کہ چنن دین کو کم از کم اس پہاڑ صفت کے گرد گھوم کر ایک کامل زیارت کرنے کو دو دن درکار تھے – بس اسی دلشکستہ لمحے چنن دین اس نامراد دن سے مایوس ہوا اور اس کی مخالفت میں جت گیا – اس فتنہ پرور دن کے خلاف چنن دین نے مہم برپا کر رکھی ہے اور سالانہ بنیادوں پر اب وہ اس ویلنٹائن مخالفانہ جنگ کے ہر اول دستے کا سپاہی ثابت ہو ریا –
ویلنٹائن کی تاریخ کو کرید کر اپن لوگوں نے کیا لینا جو بھی تھا کوئی مسکین برے حال ہی میں تھا – گمان غالب ہے کہ اس موئے نے اپنی محبت کے اظہار کے بعد اسی محبت سے شادی کر لی جس کا خمیازہ اس نے زوجہ کے حکم تھلے لگ کر عمر گزار کر بھگتا – اخیر عمرے اس کو یہ خیال فاسق آیا کہ اس کھیل میں جو بیتی ہے یہ آنے والوں پر بھی بیتے تو سواد آجائے اور ان کو محبت کی پھائی پڑے تو تب سے یہ مفسدانہ سلسلہ شروع ہے –
چونکہ ہم نے اب ترقی کر کے پانی پر گاڑی چلا لی، نقلی چی گویرے پیدا کر لیے اور تو اور پاکستان میں پابلو نریدے بھی پیدا کر لیے، اور اسی قبیل کے دیگر کارنامے انجام دے چکے تو اب یہ امت کا آخری تنازعہ بچا تھا یعنی ویلنٹائن ڈے اب اخیر لے درجے کے معرکے سال بہ سال ہو رہے ،مگر یہ تنازعہ حل ہو کر نہیں دے رہا –
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں