ہادیہ بھی چلی گئی/طبیہ ضیا ء چیمہ

ہادیہ بھی چلی گئی۔ گزشتہ اکتوبر میں جوان بھائی کا انتقال ہوا اور سال بعد ہادیہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ میری بیٹی مومنہ بہشتی کی سہیلی ہادیہ شفیق بلڈ کینسر کی تشویشناک حالت میں مبتلا تھی۔ مومنہ کی ہم عمر تھی۔ ہماری پڑوسن تھی۔ مومنہ کو غسل دینے والی مومنہ کی ڈونر ہم سب کی رونق پانچ سالہ معصوم بیٹے کی ماں نیویارک کینسر ہسپتال میں زندگی موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔

ہادیہ کے شوہر بلال نے ڈیڑھ برس اپنی اہلیہ کی خدمت سے وفا اور محبت کی مثال قائم کر دی۔ سسرال بھی مثالی ملے۔ ہادیہ بہت پیاری بیٹی تھی۔ ہادیہ کے والد نیویارک میں دانتوں کے ڈاکٹر ہیں۔ والدہ نگہت ایک صابر خاتون ہے۔ نگہت اور ہم پڑوسی ہیں۔ نگہت نے بہت صدمات اٹھائے ہیں۔ بچپن میں ماں فوت ہو گئی۔ چند برس قبل کے پی کے گاؤں میں کسی ظالم نے اکلوتے جوان بھائی کو قتل کر دیا۔ بھائی چھ یتیم بچے چھوڑ گیا اور بیوہ بھابی بھی جلد اللہ کو پیاری ہو گئی۔

جوان بیٹے کا غم نگہت کے بوڑھے باپ کو بھی موت کی نیند سلا گیا۔ صدمات اور بیماریوں نے جیسے نگہت کا گھر دیکھ لیا تھا۔ پچھلے سال اکتوبر میں جوان بیٹا فوت ہو گیا اور اس سال اکتوبر میں جوان بیٹی ایک ننھے بچے کی ماں کینسر سے اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ خزاں اندر اتر آتی ہے ورنہ باہر کی خزاں تو حسین لگتی ہے۔ ماں اور بیٹی کا رشتہ بہار کا کھلتا ہوا پھول ہے اور باپ بیٹی کا تعلق تو نبی پاک ﷺ اور صاحبزادی فاطمہ ال زہرہ کا ورثہ ہے۔ باہر خزاں ہے اور روح کے اندر بیٹی مومنہ اور ہادیہ کی جُدا کا غم ہے۔

اداسی اور تنہائی کا موسم ہے۔ انتظار اور فراق کا موسم ہے۔ پتے رنگ بدل رہے ہیں، شاخوں سے ٹوٹ کر پیروں تلے روندے جاتے ہیں۔ کسی شاعر نے جدائی کو موت سے تعبیر کیا ہے، جدائی موت ہوتی ہے، کبھی فرصت ملے تو دیکھنا پتوں کا گرنا کہ جب یہ شجر سے کٹ کر زمین پر آن گرتے ہیں تو کیسے روندے جاتے ہیں، ٹھٹھرتی رات کے خاموش لمحوں میں، کسی دکھی ماں کسی بیٹی کی تم سسکیاں سن لو، کبھی قطار سے بچھڑی کونجوں کے نوحے سن لو، نگاہ کرنا کس طرح ایک دوجے کی جدائی پہ بین کرتی ہیں، کبھی رخصت کے لمحوں میں کسی کی آنکھ سے لڑھکتے ہوئے آنسو دیکھو گے تو شاید جان پاؤ گے جدائی موت ہوتی ہے۔۔

خزاں پھر لوٹ آئی ہے، ماں کی بیٹی کی باپ کی یادیں پھر ساتھ لائی ہے۔ میں گھر میں سب سے چھوٹی ہوں، میرے حصے میں ماں آئی ہے۔۔!اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا، ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہو گیا، اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے، ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے، بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا، اٹھایا گود میں ماں نے تب آسمان چھوا؟ کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دوکاں آئی، میں گھر میں سب سے چھوٹی تھی میرے حصے میں ماں آئی، بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے، بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے، بہت جی چاہتا ہے قید جاں سے ہم نکل جائیں، تمہاری یاد بھی لیکن اسی ملبے میں رہتی ہے۔

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتی، میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے، میری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہو جاؤں، ماں سے اس طرح لپٹ جاؤں کہ بچہ ہو جاؤں، میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو، مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا، عمر بھر خالی یوں ہی ہم نے مکاں رہنے دیا، میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں، بس اک کاغذ پہ لکھا شبد “ماں” رہنے دیا۔۔

دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتی ہوں

کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

ماں جب زمین پر ہوتی ہے تو اس کے آنسو عرش ہلا دیتے ہیں اور جب عرش پر ہوتی ہے تو اس کی مسکراہٹ زمین کو گلزار بنا دیتی ہے۔ ماں کی زندگی میں اولاد کو دعا کا سلیقہ نہیں آتا۔ اولاد پردیس جا کر آباد ہو جائے، ماں کا دل اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ ماں کا گھر بھی عجیب ہوتا ہے، ماں دنیا سے چلی جائے تب بھی بیٹیاں کہتی ہیں کہ “ماں کے گھر جا رہی ہوں”۔

ماں کے دئے ہوئے زیورات اور کپڑے سینے سے لگا ئے رکھتی ہیں۔ شوہرخواہ دنیا کی تمام دولت بیوی کے پیروں میں ڈھیر کردے، باپ کا دیا معمولی تحفہ بھی بیٹی کےلئے کوہ نور ہوتا ہے۔ بیٹی کی جدائی باپ کےلئے موت ہوتی ہے۔ تری ہجر وصل کی داستاں رلاتی ہے زار زار، پت جھڑ آئے موسم بدلے، آ مل جا اِک بار، لمبے دن اور سونی راتیں بے قرار، ترا نعم البدل نہیں ہے کوئی جہاں میں بیٹی یادیں ہیں بے شمار، جس نے دیا ہے زخم یہ گہراوہی لگائے گا پار، مرنے سے پہلے مر گئے بیٹی، اٹھائیں گے کیسے یہ بھار، ہم بھی تجھ سے آن ملیں گے دن رہ گئے ہیں دو چار۔

اور پھر لگا کر اپنے سینے سے کہا یوں ماں نے بیٹی سے کہ ہو گی زندگی دشوار اب تیری جدائی سے، محبت تیری زندگی میں زخمِ دل سینے نہیں دے گی، جدائی تیری اے بیٹی مجھے جینے نہیں دے گی، لگا کر اپنے سینے سے کہا یوں ماں نے بیٹی سے، تجھے نظروں سے اک پل بھی جدا ہونے نہ دیتی تھی، اگر تو ضد پہ اڑ جاتی تجھے رونے نہ دیتی تھی، زمانے بھر کے میں نے غم اٹھا کے تجھ کو پالا تھا، میرے گھر میں تیرے دم سے اجالا ہی اجالا تھا، چلتے ہیں تیرے بعداس دل پہ غم کے تیر اے بیٹی، پھرتی ہے میری نظروں میں تیری تصویر اے بیٹی، یہ گھر آنگن جوتیرے دم سے جنت کا نمونہ ہے، تیری رخصت کے غم سے آج کتنا سونا سونا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور جس ماں کا لخت جگر ابھی تک سکول سے نہیں لوٹا، اس پراتنی مہربانی کرنا کہ اس کے گھر کا دروازہ کھلا رکھنا کہ ماں کی نظریں اس دروازے پر لگی ہوئی ہیں جو کسی بھی لمحے کھلے گا اور اس کے جگر کا ٹکڑا دوڑتا ہوا ماں کے سینے سے لپٹ جائے گا، ماں کے رخسار چومے گا اورکہے گا ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے، وقتِ رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا۔ جدائی موت ہے۔ ماں دھی کا دکھ سکھ ساری عمر “کسک” بن کر دہکتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply