میں نے یوم یکجہتی کشمیر منایا۔۔نجم ولی خان

میں نے یوم یکجہتی کشمیر پورے جوش اور جذبے کے ساتھ منایا، میں مال روڈ بھی گیا جہاں بہت سارے دوست ریلیاں نکال رہے تھے، کیمپ سجائے بیٹھے تھے،نعرے لگا رہے تھے، مجھے تمام ٹی وی چینلوں پرکشمیر سے یک جہتی کا اظہار کرتی ہوئی رپورٹیں بھی اچھی لگ رہی تھیں اورمیں بہت برس پہلے نوے کی دہائی کا وہ پہلا یوم یک جہتی کشمیر یاد کر رہا تھا جس کی بنیادی طور پر کال بھارت کے بڑھتے ہوئے مظالم کے خلاف جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے دی تھی او ر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اس کی مکمل حمایت کر دی تھی، نتیجے میں مارکیٹیں اور بازار تو ایک طرف رہے ریڑھیاں اور کھوکھے تک بند ہو گئے تھے، ہر سڑک اور ہر چوک اس روز مال روڈ تھا، ہر کوئی سراپا احتجاج تھا۔میں نے اپنی قوم کو اس دن سے زیادہ آج تک متحد اور پرجوش نہیں دیکھا۔
میں نے تو اپنے زمانہ طالب علمی والے پہلے یوم یک جہتی کشمیر کی بات کی ہے مگر کشمیر یوں کی تحریک میری پیدائش سے بھی بہت پہلے کی ہے،اس پر تو حضرت علامہ اقبال نے نہ جانے کب کہہ دیا تھا،
’ ’توڑاس دست جفا کیش کویارب جس نے
رُوح آزادی کشمیر کوپامال کیا۔۔‘‘

ہم نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑی ہیں، پہلی جنگ کے نتیجے میں ہم قبائلی عوام کی مدد سے کشمیر کا ایک حصہ آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ میں نے ایک طالب علم کے طور پر اس جنگ کی تفصیلات بھی پڑھی ہیں اور مجھے علم ہے کہ بھارت کشمیر کی آزادی کے لئے اس جنگ کو اسی طرح پیش کرتا ہے جس طرح ہم ہندوستان سے مسلمانوں کے قافلوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ وہ اپنے شہریوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کو بڑھانے کے لئے تاریخ کو مسخ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس کے بعد دوسری جنگ بھی کشمیر کے حوالے سے نتیجہ خیز نہیں رہی اور تیسری جنگ کا ذکر تو یہاں کرنا ہی زیب نہیں دیتا۔میاں نواز شریف نے پاک بھارت تنازعات کو حل کرنے کے لئے ایک مختلف راستہ اپنایا، وہ بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو بس میں بیٹھ کے پاکستان بلانے میں کامیاب رہے، واجپائی نے مینار پاکستان پر حاضری بھی دی اور اس تاریخی مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر بھی آمادگی کا اظہار کیا۔ مجھے پرویز مشرف کا وہ دور بھی یاد آیا جبب پاک فوج کے سربراہ نے مسئلہ کشمیر کے متبادل حل تلاش کرنے پرکام شروع کیا تھا ۔ جناب خورشید محمود قصوری جیسی دبنگ شخصیت ان کی وزیر خارجہ تھی، وہ بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ مطلق العنان پرویز مشرف اس وقت کیا سوچ رہے تھے۔ نواز شریف نریندر مودی کو بھی رام کرنے میں کامیاب رہے تھے، نریندر مودی نے افغانستان سے اپنے جہاز کا رخ اچانک لاہور کی طرف موڑ دیا تھا اور نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پرجاتی امرا پہنچ گئے تھے۔

میں نے یوم یکجہتی کشمیر پر میاں نوازشریف کے مظفر آباد میں جلسے کو بھی دیکھا اور اس کے بعد لاہور میں پیپلزپارٹی کے جلسے میں بھی مسئلہ کشمیرکی گونج سنی۔ سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کہہ رہے تھے کہ نواز شریف کو اس لئے نکالا گیا کہ انہوں نے کشمیر کے کاز سے غداری کی تھی ۔مجھے آزاد کشمیر کے انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کی وہ گرما گرم انتخابی مہم بھی یاد آ گئی جس میں انہوں نے نواز شریف کے لئے مودی کا یار ہونے کے نعرے لگوائے تھے اور تواتر کے ساتھ لگوائے تھے مگر آزاد کشمیر والوں سے زیادہ کشمیر کاز کے ساتھ مخلص اور وفادار کون دوسرا ہو سکتا ہے کہ ان کی نسلیں ایک دوسرے کو گلے لگانے اور ایک دوسرے کو شب دیگ کھلانے کے لئے ترس رہی ہیں۔ کشمیریوں نے اس زہریلی انتخابی مہم کے جواب میں مسلم لیگ نون کو کلین سویپ کروا دیا تھا اگرچہ یہ بات الگ ہے کہ پیپلزپارٹی کشمیر کے انتخابات کو نواز شریف کا مینڈیٹ نہیں سمجھتی۔ ہم میں سے بہت سارے یہی سمجھتے ہیں کہ فی الوقت کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان کی حکومتیں اسی کی گود میں ہوتی ہیں جو وفاق میں طاقت کااستعارہ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری سمیت تمام پیپلزپارٹی والوں کی تقریریں اورفواد چودھری کے ردعمل سمیت پی ٹی آئی والوں کے طعنے کشمیریوں پر کام نہیں کریں گے۔اس وقت سیاست کا بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے او ر نواز شریف سیاست میں حکومت کے ساتھ ساتھ انتہائی کامیابی کے ساتھ اپوزیشن کا کارڈ بھی استعمال ہو رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات ملکی سیاست کی طرف چلی گئی ، میں نے سوچا، ہم سب مسئلہ کشمیر کو بھی اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں حالانکہ آئین، جمہوریت ، ایٹمی پروگرام اورمسئلہ کشمیر پر اتفاق رائے ظاہر کرتے ہوئے بہت سارے دوسرے معاملات پر بھی سیاست کی جا سکتی ہے۔ باتیں تو اور بھی بہت ساری سوچنے والی ہیں کہ جب ہم ستر برسوں میں باقی ماندہ کشمیر کو آزادی نہیں دلوا سکے تو اب ہم کیسے بھارت کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے۔ ہم کیسے اقوام متحدہ کو شرمندہ کر سکتے ہیں کہ اپنی قراردادوں پر عمل کروائے ، ہاں دنیا کی واحد سپر پاور اپنا کردار ادا کر سکتی ہے مگریہ عالمی طاقت بھی ہماری تمام تر خدمات کو نظرانداز کرتے ہوئے بھاواور تاو کھائے بیٹھا ہے۔ میں نے دیکھااور سنا، ایک سیاسی رہنما نے ٹی وی چینل کا مائیک سامنے آنے پر بھارت کو جنگ کی بھی دھمکی دی، اب یہ بات وہی بتا سکتے ہیں کہ کیا پاکستان ہی نہیں بلکہ بہت بڑی معیشت ہونے کا دعوے دار بھارت بھی اس وقت جنگ افورڈ کر سکتا ہے کہ ایک بم برسوں کی محنت اور کمائی کوایک دھماکے اور ایک لمحے میں تباہ کر سکتا ہے۔ جہاں ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے دباو ڈالنے پر مجبور نہیں کر سکے تو بھارت بھی کشمیریوں کا دل جیتنے میں ناکام رہا ہے۔ کشمیری پاک بھارت میچ میں پاکستان کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ توپوں اور بندوقوں کی موجودگی میں اپنے جلسوں اور جلوسوں میں پاکستانی پرچم لہراتے ہیں، کشمیری خواتین پاکستان کا قومی ترانہ پڑھتی ہیں اور جرات کے ساتھ اس کی ویڈیو ریلیز کرتی ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ سرحد پر باڑھ لگا کے اسے سِیل کر دیا ہے مگر اس کے باوجود بھارت میں آزادی کی تحریک پورے جوش اور جذبے کے ساتھ جاری ہے،وہاں آج بھی وانی شہید جنم لے رہے ہیں۔
میں نے یوم یکجہتی کشمیر پر بہت سوچا، مجھے اپنے اندر بہت ساری خامیاں، کمیاں اور کوتاہیاں نظر آئیں، میں نے دیکھا کہ ہمارے بہت سارے سیاستدانوں نے اس دن کو بھی ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائیوں اور گھٹیا پوائنٹ سکورنگ میں ضائع کیا، ہم سفارت کے ساتھ ساتھ جنگوں کے ذریعے بھی مسئلہ کشمیر کے حل پر بھارت کو مجبور نہیں کر سکے مگرمجھ سے زیادہ سوچنے کی ضرورت بھارت کے دانشوروں اور پالیسی سازوں کو ہے۔ انہوں نے اپنے گلے میں ایک ڈھول لٹکا رکھا ہے جس کے وزن نے ان کی کمر ٹیڑھی کر رکھی ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply