اسی خاک میں دب گئی میری آگ ۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

میں نے دس ایکڑ زمین 40 ہزار روپے فی ایکڑ ٹھیکہ پہ لی تھی۔ چار لاکھ روپے ٹھیکہ ادا کرنا ہے۔

میری اوسط پیداوار 600 من فی ایکڑ رہی ہے. اس حساب سے 6000 من گنا پیدا کیا ہے. ابھی تک چار ایکڑ کا کماد یعنی 2400 من کماد لیہ شوگر ملز کو فروخت کر چکا ہوں،جس کی آدھی پیمنٹ یعنی دو لاکھ روپے وصول کر چکا ہوں، آدھی رقم ابھی تک ملز کے پاس واجب الادا ہے، باقی  چھ  ایکڑ  کی پیداوار لیہ شوگر ملز سے دو کلومیٹر کے فاصلے پہ رُل رہی ہے، ابھی تک ملز کا پاس نہیں ملا کہ اپنا 3600 من گنا فروخت کر سکوں۔ گذشتہ پندرہ دن سے میری مصروفیت لیہ کروڑ روڈ پہ اپنی گنے کی ٹرالیوں سے لیکر ملز تک آنے جانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، ملز کے ادنی سے ادنی اور اعلیٰ سے اعلیٰ  اہلکار کی منت کر چکا ہوں، اُن کے آگے ہاتھ جوڑ چکا ہوں، اُن کے پیر پکڑ چکا ہوں، اُن کو رشوت دینے کی آفرز کر چکا ہوں، مگر ابھی تک پاس نہیں ملا ہے،  آج فروری کا دوسرا ہفتہ لگ چکا ہے۔

1۔ زمین کا مالک روزانہ تین مرتبہ فون کرتا ہے اور ایک بار میرے پاس چکر لگاتا ہے، اُس نے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے، وہ بار بار زمین کے ٹھیکہ کا تقاضا کر رہا ہے، کل شام اُس کی بیٹی کی کال آ گئی کہ مہربانی کریں ہمیں ہمارا ٹھیکہ ادا کریں تاکہ ہم اپنی شادی کے اخراجات کر سکیں ،میرا  دل کرتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اُس میں گُھس جاؤں.

2۔ لیبر والے جن سے گنا کٹوایا، اُس کی چِھلائی کروائی، ٹرالیوں پہ لادا وہ لوگ رقوم (مزدوری) کا تقاضا کر رہے ہیں مگر میری جیبیں خالی ہیں، میری ساکھ دن بہ دن خراب ہو رہی ہے، میں نے اگلے سال کے لیے فصل کاشت کرنی ہے مگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی لیبر میرے پاس آنے کو تیار نہیں، میں روز بہ روز الجھتا جا رہا ہوں، پیداوار کا نقصان اور مزید اگلی فصل وقت پہ کاشت نہ  کر سکنے کا نقصان مجھ پہ قیامت کی گھڑی ثابت ہو رہا ہے، میں ذہنی بربادی کا شکار ہوں، کہاں کہاں جاؤں؟ ملز سے سابقہ رقم کی وصولی کے لیے آئے روز لوگوں کی منتیں کر کے سفارشیں ڈھونڈ رہا ہوں، پیداوار کو مل میں دینے کے لیے گیٹ پاس کے لیے منتیں کر رہا ہوں، گنے سے لدی ٹرالیوں کی لیہ کروڑ روڈ پہ حفاظت کے لیے کبھی ادھر بھاگ رہا ہوں کبھی ادھر بھاگ رہا ہوں. گھر کا کچھ پتہ نہیں، بچوں کی مسلسل کالز آ رہی ہیں.

3۔ پیسٹی سائیڈ ڈیلر جس سے زرعی ادویات یعنی جڑی بوٹی کش زہر میزوٹرائیون+ایٹرازین، کیڑے کش زہریں کلوروپائیریفاس، کاربوفیوران، لیمبڈاسائی ہیلوتھرین، زرعی کھاد زنک اور پوٹاش خرید کی تھی کا قرض 70 ہزار ادا کرنا ہے، وہ روز مجھے کالز کرتا ہے، میرے گھر کے چکر لگاتا ہے، میرے پاس پہنچ جاتا ہے۔ پہلے منت کرتا رہا اور اب میرے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکیاں دے رہا ہے، میں اُس کے سامنے شرمندہ کھڑا ہوں، اُس کو دستیاب حالات بتا رہا ہوں، وہ کہتا ہے مجھے نہیں معلوم کہ گھر بیچو   ،زمین بیچو ، زیور بیچو ، مجھے میرے پیسے دو۔۔ میں اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہا ہوں، مجھے نہیں سمجھ آ رہی کہ میں نے پورا سال محنت کر کے جو کماد اگایا تھا نجانے کیوں میری گردن کا پھندا بن گیا ہے۔

4۔ زرعی کھاد ڈیلر جس سے ڈی اے پی، یوریا اور امونیم سلفیٹ خرید کی تھی کا قرض ایک لاکھ 60 ہزار روپے ادا کرنا ہے  وہ تو مسلسل ذلیل و خوار کر رہا ہے۔ سب سے زیادہ دباؤ اور پریشانی بھی اسی بندے کی وجہ سے ہے،ملز کی طرف سے ملنے والے دو لاکھ روپے میں سے اسی ہزار کھاد ڈیلر کو دئیے ہیں مگر یہ بندہ مجھے جوتے مارنے سے بھی نہیں ٹلے گا، پچاس ہزار پٹرول پمپ پر ڈیزل کا کھاتہ ادا کیا، بقایا ستر ہزار زمین مالک کو دئیے خود فاقوں پہ گزارا ہے۔

میری نیت انتہائی ایمان دارانہ ہونے کے باوجود مجھے دو اطراف سے FIR کے سامنے کا خطرہ ہے، لوگ مجھے بےایمان، چور، نااہل اور ناکام شخص کہہ رہے ہیں، بیوی بچے اگلے ماہ میرے سالے کی شادی کے لیے جوتے کپڑوں کی رقم کا تقاضا کر رہے ہیں، اس سارے چکر میں دو بار بلڈ پریشر انتہا کو پہنچ گیا اور 100 سے بھی کم رہنے والی شوگر آج صبح 211 پہ پہنچ چکی ہے.۔یہ میری زندگی کے مشکل ترین دن ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: یہ کہانی راقم کو لیہ کی بستی قاضی کے ایک کاشتکار نے سنائی مگر حقیقت میں یہ ہر کاشتکار کی کہانی ہے۔ صرف ایک فرد جس کا نام شمیم خان ہے جس کی ملکیت میں لیہ شوگر ملز ہے کی خوشنودی کے لیے کئی ہزار لوگ مسلسل ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہیں۔ یہ “انسانی فطرت پہ مبنی” سرمایہ دارانہ نظام میں زندہ درگور ایک کاشتکار کی کہانی ہے، جبکہ ہمیں بچپن سے ایک فقرہ رٹایا گیا “زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے”!

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply