چھوٹا آدمی۔۔عاطف ملک

ائیرمارشل ایک بدتمیز آدمی تھا اور میں اُس کا سٹاف افسر تھا۔ دفاتر میں ایسے لوگ آپ کو ملتے ہیں جو اپنے آپ کو عقلِ   کُل سمجھتے ہیں۔ آپ اِن سے معقول بات کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں کہ نہ جانے مزاج پر کیا گراں گزرے اور بے نقط سننے کو مل جائے۔معقولیت و نامعقولیت کے فرق سے عاری، عہدے کا نشہ اُن کے سر پر چڑھا ہوتا ہے۔ ماتحت کیا کرے؟ اگر ان سے بچ کر دن گزار سکے تو بہت اچھا، ورنہ دن سولی پر ہی  گزرتا ہے اور لب پر ہر وقت عافیت کی دعائیں جاری رہتی ہیں۔ مگر اس صورتحال میں آپ کو ماتحتوں کا ایک اور طبقہ بھی ملے گا کہ جو جان جاتے ہیں کہ دعا کی بجائے چاپلوسی زیادہ پُراثر ہے، اور نتیجتاً  صاحب کا مزاج اور بھی سات آسمانوں کو جاپہنچتا ہے۔

فوجی ادارے میں عموماً ڈسپلن کے نام پر اختلاف رائے کو کچل دیا جاتا ہے۔ عہدے میں جو جتنا بڑا ہوا، اس کی بات اُتنی ہی درست ہے۔ بڑا آسان کلیہ ہے، غلط یا صحیح کے تعین میں وقت ضائع کرنے سے بھی بچ گئے اور برہمیِ باس سے بھی بچے رہے۔میرا باس اسی ادارے کی پیداوار تھا، مگر اس کا ارتقائی عمل اکثریت سے فرق تھا۔ایک خوبرو فرد کے طور پر اپنی نوکری کے آغاز میں ہی وہ ادارے کے سربراہ کا سٹاف افسر لگ گیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑے لوگوں کے پاس ہونے کےبڑے فوائد ہیں،کام نکلتے ہیں، تعلقات بنتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے کئی نقصا ن بھی ہیں، سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان کو علم ہوتا ہے کہ بڑے لوگ کتنے چھوٹے ہوتے ہیں، کئی بت پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ ان بڑوں کی خواہشات بعض اوقات اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ آپ کا دل پہلے اپنا سر پیٹنے کواور پھر اُن کو پیٹنے کو چاہتا ہے۔ آپ حیران ہوتے ہیں کہ ایسی بات کا اظہار کرتے انہیں عہدے کا نہیں تواپنا ہی خیال ہوتا۔ ماتحتوں کا چاپلوسانہ پن اور باس کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کی پھرتی دیکھ کر آپ کا انسانیت پر یقین متزلزل ہوسکتا ہے۔ سٹاف افسر کے طور پرآپ سے بہت سے سوالات باس کے متعلق پوچھے جائیں گے؛ صاحب کا مو ڈ کیسا ہے، کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں، رشتہ داریاں کہاں کہاں ہیں، شوق کیا ہیں، کس بیکری کے کیک پسند کرتے ہیں۔ بیگم صاحبہ کی بابت پتہ کیا جاتا ہے، کونسا درزی ہے، کہاں سے میک اپ کراتی ہیں ۔ ایسے سوالات کہ آپ پوچھنے والے سے پوچھیں تو وہ اپنے گھر والوں کے متعلق ان سے آدھا بھی نہ جانتا ہو۔ یہ سوال کرنے والے آپ سے عہدے میں کہیں بڑے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا اُن سے پہلے کہیں واسطہ پڑا ہو تو اُن کے لہجہ کی رعونت آپ کا خون کھولا دے، مگر آپ جب سے سٹاف افسر ہوئے،ان کے لہجے کی حلاوت آپ نے کہیں اور محسوس نہ کی ہوگی، اہلِ سوال شکار کے لیے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ اُن کا کام نکلنا چاہیے، اہل غرض کی پٹاری سے وہ کرتب نکل سکتے ہیں کہ بڑے بڑے شعبدہ باز ششدر رہ جائیں۔ صاحب نمازی ہیں تو اُن کو دکھا کر نماز پڑھنی ہے، وضو ہونا یا نہ ہونا ضمنی بات ہے۔ ویسے اگر وضو ہو بھی تو کیا ایسی نماز ہو جاتی ہے؟صاحب شوقین مزاج ہیں تو خدمت گزارایک سے ایک آگے بڑھ کر حاضر ہوتے ہیں۔ جام و سبو پیش ہونگے،  گرما گرم  سیخ کباب کا انتظام ہوگا، اعلیٰ  طوائفوں سے لے کر غربت کی مجبور سب کو پیش کردیں گے۔ نوکری کےغرض مند دلالی کو بھی گُن سمجھتے ہیں۔

سٹاف افسر یہ کمالات صبح شام دیکھتا ہے اور اُس پر نتیجتاً دو اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یا تو وہ اس انسانی بےچارگی کو دیکھ کر ہر ایک کی حتِ المقدور  مدد کرنے لگتا ہے، ورنہ وہ بھی اس نفانفسی دوڑ کا حصہ بن جاتا ہے۔ اپنی پوزیشن کا بے دریغ استعمال، جھوٹے مال میں منہ مارنا، صاحب کا نام استعمال کرکے اپنے مفادات کا تحفظ، صاحب کے نام پر بلیک میلنگ، غرض کسی بھی سطح تک جایا جاسکتا ہے۔ اپنے سے بڑے کو اگرآپ کانپتا دیکھیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے، اور اگر یہ بھی آپ کے علم میں ہو کہ اُس کی اِس حالت میں آپ کا ہاتھ ہے تو ایک بے رحمانہ تسکین ہوتی ہے، اپنی خدائی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اگر کبھی ضمیرملامت کرے تو اُسے تھپک دیں کہ ان  چاپلوس لوگوں کی اپنے مفاد کے لیے دکھائی گئی اخلاقی گراوٹ اُن کے ساتھ ایسے سلوک روا رکھنے کا جواز ہے۔  ائیر مارشل نے اپنے سٹاف افسری کے دور میں   دوسرے رویے کو چنا اور جیسے جیسے وہ عہدے میں ترقی کرتا گیا، اُس کے اس رویے میں نکھار آتا گیا۔

آج میں ماضی کے اُس سٹاف افسر کا  سٹاف افسر تھا۔ ائیر مارشل کی بدتمیزی سے لوگ پناہ مانگتے تھے۔ میں بھی بعض اوقات زیر عتاب آجاتا تھا، مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ باس کی حرکات تین افراد سے نہیں چھپ سکتیں، ایک اُس کی بیوی، دوسرا اُس کا ڈرائیور اور تیسرا  اُس کا سٹاف افسر ، کیونکہ کئی کام میرے سے ہو کر جاتے تھے، سو اس بنا پر میری کچھ بچت ہوجاتی تھی۔

دفتر کے قریب ہی آفیسر میس تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنایا گیا تھا، سامنے پہاڑی سلسلہ تھا، رات کو پورا شہر جگ مگ نظر آتا  تھا۔  یہ میس خاص الخاص تھا،  ایسا خاص کہ عام افراد کی پہنچ سے تو دور تھا ہی بلکہ عام افسران کی پہنچ سے بھی دور تھا۔ جب بھی کوئی غیر ملکی یا اہم سرکاری عہدیدار آتا تو میس کا مین ڈائنگ ہال کُھلتا- سفید ماربل کی بنی سیڑھیوں پر مہنگے پودے گملوں میں بہار دکھاتے، سیڑھیوں سے آگے ایک خوبصورت ہال، جس کے وسط میں ایک  بڑا  دودھیا  فانوس چھت سے لٹکا تھا اور اس کے نیچے فوارہ جس کا پانی  اُس  فانوس کی روشنی میں عجب منظر پیش کرتا۔ فوارے گے گرد سنگ مرمر کی کیاریوں میں سبز پودے اپنا حسن پیش کرتے۔ ہال کی دیواروں  پر مختلف جنگی مناظر کی بڑی بڑی پینٹنگز  آویزاں  تھیں۔

یہ علم نہیں کہ یہ خیال کس اعلیٰ  عہدیدار نے پیش کیا کہ جیسے ہی ڈ ائنگ ہال میں داخل ہوں، سامنے قائد اعظم، علامہ اقبال اور مینارِ قراردادِ پاکستان کی قدآور تصاویر ہوں۔ یقیناً یہ خیال اوپر سے آیا ہوگا کہ ائیر مارشل صاحب نےان پینٹنگز کے بنوانے کی ذمہ داری اٹھالی۔ جناب اب ایک ڈھنڈور مچ گیا، آرٹسٹ ڈھونڈو۔ مجھے علم نہیں کون جاوید بھائی کو اس داستان میں لے آیا۔ جب میں نے پہلی بار اُنہیں اپنے دفتر میں دیکھا تو سمجھ نہ پایا کہ یہ کون ہیں اور کیا ہیں؛     پختہ عمر، بمشکل پانچ فٹ قد، دانت پان کی کثرت سےسرخ اور ٹوٹے ہوئے، خستہ حال کپڑے اور جوتے، بال برسوں سے کنگھی کی آسائش سے محروم، بھئی یہ کون ہیں اور ائیرمارشل سے ملنے کیوں آئے ہیں۔ پتہ لگا کہ خود سکھائے آرٹسٹ ہیں، کسی ادارے سے تعلیم نہیں پائی مگر سالہا سال سے مصوری کے دشت کی سیاحی میں گزار دیے ہیں۔

صاحب نے جب اُنہیں دیکھا تو برا سا منہ بنایا مگر بولےکچھ نہیں، شاید جاوید بھائی کسی تگڑی سفارش پر آئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد حقارت سے کہنے لگے، پتہ نہیں لوگوں نے ہمیں محکمہِ یتیم خانہ سمجھا ہے، کیسے کیسے چھوٹےلوگ بھیج دیتے ہیں۔

آگے کا پھر مجھے علم نہیں کہ جاوید بھائی کو کام کیونکر مل گیا۔ وہ ایک تجربہ کار مصور تھے، استاد اللہ بخش کی طرح خود سکھائے، کئی میورل بنا چکے تھے۔ کسی بھی منظر کی تصویر دکھادیں، وہ اس کی کمال چابکدستی سے پینٹنگ بنادیتے تھے۔ کمال کاریگر تھے مگر غربت کے مارے تھے۔ نہ کوئی ڈپلومہ دکھا پاتے، نہ انگریجی کی مار دے پاتے، نہ کوئی خوبرو خاتون تھے کہ قدردان پاتے، رہے نام اللہ کا صرف فن ہی پاس تھا۔ میس کی اوپری منزل پر ایک کمرہ جاوید بھائی کا سٹوڈیو ٹھہرا اور انہوں نے وہاں پر کام شروع کر دیا۔ میری ڈیوٹی لگ گئی کہ میں اُن کے کام کی باقاعدہ رپورٹ دوںنگا، سو میں وقتاً فوقتاً  چکر لگا کر ان کا کام دیکھتا تھا۔ وہ دن میں لگاتار   بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرتے۔ ہمیشہ بال بکھرے، کپڑے رنگوں سے اٹے، بڑے کینوس سے نبرد آزما نظر آتے۔ ان کو پیسے اتنے ہی دیے جارہے تھے کہ اُن کا دال دلیا چل سکے۔ جب میرے اُن سے راہ و رسم بڑھے تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان کے معاشی حالات سخت ہیں، مگر سخت تنگدستی کے دور میں بھی انہوں نے کبھی ہاتھ نہ پھیلایا۔
کئی ہفتوں کی محنت کےبعد بلاآخرعلامہ اقبال کی پورٹریٹ تیار ہوگئی۔ یہ بارہ فٹ سے بھی اونچی پینٹنگ تھی۔ میں جاو ید بھائی کے کام سے بہت متاثر ہوا۔ ان کا یہ کام اقبال کی قدآور شخصیت کے شایانِ شان تھا۔ ائیرمارشل صاحب کو خبر دی تو وہ بھی دیکھنے کے لیے آئے۔ میں اُن کے ہمراہ ایک قدم پیچھے تھا۔ انہوں نے تصویر کو دیکھا اور جاوید بھائی کو کہا، “بے کار، یہ ٹھیک نہیں ہے”۔
جاوید نے کہا “سر، بتا دیجیے کیا کمی ہے؟”۔
“دیکھو، ہمارا ایک فوجی ادارہ ہے، اقبال کو سِلم ہونا چاہیے”۔
“مگر سر، اقبال کی کوئی تصویر اُٹھا کر دیکھ لیں، وہ تو بھاری جسم کے تھے”۔ جاوید بھائی کی آواز میں جھنجھلاہٹ تھی۔
“دیکھو، پیسے ہم دے رہے ہیں اور بھاری یا نہ بھاری، تصویر ہمارے مطابق بنے گی۔ ویسے بھی میرے باس کا حکم ہے کہ اِس محکمہ میں سب  پتلے دبلے ، سِلم سمارٹ ہوں۔ تمہارے پاس ایک ہفتہ ہے، اقبال کو پتلا کردو”۔
ائیر مارشل صاحب کا حکمِ نادرشاہی جاری ہوا۔ جاوید بھائی کے چہرے پر غصہ اور مجبوری دونوں عیاں تھے۔
ایک ہفتے بعد میں اور  ائیرمارشل دوبارہ گئےتو علامہ صاحب سِلم ہو چکے تھے۔ ائیرمارشل نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھ پر نگاہ ڈالی، مگر میں کسی اندرونی اضطراب کا شکار تھا۔ ائیرمارشل نے دوبارہ تصویر پر نگاہ ڈالی اور چونک کر بولے،” جاوید، تم نے پینٹنگ کے نیچے سائن نہیں کیے”۔ جاو ید نے آرام سے جواب دیا، “صاحب، یہ پینٹنگ میں نے نہیں بنائی آپ نے بنوائی ہے، آپ کا نام لکھ دوں؟ ویسے بھی مجھے پیسے پینٹنگ  بنانے کےملے ہیں، سائن کرنے کے نہیں” ۔ نہ جانے کیوں میرے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی۔

ائیر مارشل کے غصے، دھمکیوں کے باوجود جاوید بھائی نے پینٹنگ پر اپنا نام نہ لکھا۔ آج بھی آپ آفیسر میس کے ڈائنگ ہال میں جائیں تو آپ کو علامہ اقبال گہری سوچ میں دکھائی دیں گے، شاید فلسفہ خودی پر سوچ رہے ہونگے، ایک قدآورپینٹگ جو کہ بغیر کسی نام کے ایک چھوٹے آدمی نے بنائی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور میں کئی سالوں کے بعد بھی آج سوچتا ہوں کہ اُن دونوں میں سے چھوٹا آدمی کون تھا، خستہ حال جاوید یا سینے پر تمغے سجائے، کاندھوں پر رینک لگائے، مغلظات بکتا ائیرمارشل۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply