دہشتگردی کی کمر کرپشن ہے

فروری 2017میں دہشتگردوں نے پاکستان میں خوب دہشت پھیلائی۔چاروں صوبوں میں سینکڑوں لوگ جاں بحق اورزخمی ہوئے ۔کسی بھی ملک میں دہشتگردی کی مدد وہاں ہونے والی کرپشن کے ذریعے ہوتی ہے۔اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ دہشتگرد بغیر اپنے سہولت کاروں کے دہشتگردانہ کاروائیاں نہیں کرسکتے،یہ سہولت کار سرکاری ملازم بھی ہوسکتے ہیں اور ایک عام آدمی بھی۔پاکستان میں کرپشن نے دہشتگردی اور لاقانونیت کو جنم دیا اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ غیرملکی سرمایہ کار تو بھاگا ہی اپنے ملک کے صنعت کار بھی دوسرےممالک جانےلگے۔حکمران کرپشن ختم کرنے کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود اب تک اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
پاکستانی سرکاری ملازمین کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین اُن ملازمین میں ہوتا ہے جو شاید ہی کسی اور ملک میں پائے جاتے ہوں۔ ہمارے ہاں بڑے عہدیدار سے لیکر چھوٹے سے اہلکار تک سب اپنی اپنی بساط کے مطابق کرپشن کے ذریعےاپنا اپنا حصہ وصول کررہے ہیں۔پیپلزپارٹی کے2008سے2012ء کے دورِ حکومت میں کوئی ایسا شعبہ بھی ایسا نہیں تھا جہاں کرپشن نہ ہوئی ہو۔صوبہ سندھ میں اب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے،حکومت کو 95فیصد ریونیو دینے والا شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔دو سابق وزیراعظموں کا شہر لاڑکانہ جسےذوالفقار علی بھٹوپاکستان کا پیرس بنانا چاہتے تھےآج اس کی صورتحال یہ ہے کہ اس کےترقیاتی فنڈز کے بارے سندھ ہائی کورٹ میں چلنے والے ایک مقدمے کے مطابق 2008 سے اب تک کے ترقیاتی فنڈزمیں سے سابق صدر کی ہمشیرہ ڈاکٹر فریال تالپور 90 ارب روپےکی کرپشن کرچکی ہیں۔اس بارے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ جاتی ہے،لاڑکانہ تو پیپلز پارٹی کا اپنا شہر ہے۔۔لاڑکانہ کےہی ایک سرکاری اسپتال میں سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ماہ جنوری2017 میں ایک خاتون نے اسپتال کے لان میں بچے کو جنم دیا کیونکہ اسپتال کے پاس نہ بیڈ تھے اورنہ ہی کوئی دوا۔۔
اپریل2016ءمیں پاناما لیکس کی کہانی منظر عام پر آئی جس میں وزیراعظم نواز شریف کا پورا خاندان کسی نہ کسی طرح ملوث ہے عوام سپریم کورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں لیکن اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں کے مصداق صدر ممنون حسین کا گذشتہ سال کوٹری میں ایک تقریب سےخطاب کرتے کہنا تھاکہ’’پاناما لیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا ہےاب بڑے بڑے کرپٹ لوگ پکڑے جائیں گے‘‘ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کو انکی یہ بات بالکل پسند نہیں آئی اور اب صدر صاحب نے ایک مرتبہ پھر ایوان صدر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہےکہ”پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جو شخص جتنا کرپٹ اور بدعنوان ہوگا وہی لمبی لمبی تقریریں کرتا پھرے گا،ان لوگوں کو کوئی شرم ہوتی ہے نہ کوئی حیا،تمام اداروں کے اندر افسران کو کرپشن اور حرام خوری کی عادت ہوچکی ہے‘‘۔
صدر ممنون حسین کا حکومتی کرپشن پر انگلی اٹھانا قابلِ تحسین ہے۔وزیر اعظم آئے دن اپنی حکومت کی تعریف میں ملک میں ہونے والی معاشی ترقی کا ذکر لازمی کرتے ہیں لیکن وہ کبھی کرپشن کا ذکر نہیں کرتے جس کو ختم کرنے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔چند روزقبل روزنامہ نوائے وقت میں فضل حسین اعوان کے چھپنے والے مضمون کچھ حیا کچھ شرم میں لکھا ہے کہ دی نیوز میں فرخ سلیم کی ایک رپورٹ پاور ریٹ کےعنوان سے شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ’’ریوا سولر پارک بھارتی حکومت اور مدھیہ پردیش کا مشترکہ منصوبہ ہے،10فروری2017ءکوسویڈش کمپنی کے ساتھ750میگا واٹ کا معاہدہ طے پایا،پاکستانی کرنسی میں اسکی قیمت5.19روپے فی یونٹ طے پائی،پاکستان میں دو سال قبل مارچ2015میں قائد اعظم سولر پاور کیلئے نیپرا نے14.85روپے یونٹ کی منظوری دی تھی۔(ریوا سولر پاور فی میگاواٹ کاسٹ0.6ملین ڈالر ہے جبکہ قائد اعظم سولر پارک1.5ملین ڈالر ہے)انڈیا میں سویڈش کمپنی جبکہ پاکستان میں چینی کمپنی کام کر رہی ہے،مذکورہ رپورٹ میں کوئلے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنےوالےمنصوبوں کے ٹھیکوں کا بھی اسی طرح کا تقابل موجود ہے‘‘۔فضل حسین اعوان نے اپنے اسی مضمون میں لکھا ہے کہ’’آج کی سب سے زیادہ حیران کن خبر وزیراعظم کی طرف سے چیف جسٹس صاحبان کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں کی منظوری ہے جس کا اطلاق چیف جسٹس افتخار چودھری سے ہو گا۔افتخار چودھری کے پاس ایک بلٹ گاڑی موجود ہے،حکومت واپس لینے کیلئے ہائیکورٹ گئی ہوئی ہے۔اس گاڑی کو ”حلال“ قرار دینے کیلئے وزیراعظم نے نیا آرڈر جاری کر دیا۔دہشتگردی کے موجودہ حالات میں سکیورٹی کی انتہائی اہمیت ہے۔ چیف جسٹس صاحبان بلا امتیاز قابل احترام ہیں۔ حکومت ان میں امتیاز کیوں کر رہی ہے؟جسٹس افتخار سے پہلے ریٹائر ہونے والے ججوں کو کیا سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے؟
ملک کے ہر شعبے میں رشوت خوری اور کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ایک بین الاقوامی آئینہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے2016ءکے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں75فیصد افراد پولیس کو،68فیصدعدالتوں کو،61فیصد پانی صفائی اور بجلی کے محکموں،38فیصد شناختی دستاویزات،ووٹرز کارڈ،حکومتی پرمٹ بنانے والے اداروں،11فیصد سرکاری اسپتالوں اور9فیصد افراد سرکاری اسکولوں کو رشوت دیتے ہیں حتیٰ کہ44فیصد افراد کے خیال میں وزیراعظم کے دفتر کا عملہ بھی کرپٹ ہے۔رشوت دینے والوں میں64فیصد غریب اور26فیصد امیر افراد شامل ہیں۔
کیاٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بعد بھی کوئی دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟نہیں جناب کرپشن ہر دور میں عروج پر رہی ہے اور ابھی بھی ہےاوریہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کی کمر نہیں ٹوٹ رہی۔۔لہذا اگر آپ واقعی دہشتگردی کی کمر توڑنا چاہتے ہیں تو پہلے پاکستان سے کرپشن کوختم کریں کیونکہ دہشتگردی کی کمر کرپشن ہے!

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply