نظریاتی حیوانوں کی کرتب بازیاں/عامر شہزاد

” انسان نظریاتی حیوان ہے ” ایسی بات کوئی دانا ہی کہہ سکتا تھا
میں نہیں جانتا کہ یہ کس نے کہا لیکن اسے سن کر اطمینان سا ضرور ہو جاتا ہے کہ ایک حد تک تو ہم بھی حیوان ہیں خواہ وہ حد نظریاتی ہی کیوں نہ ہو۔

اپنی اس تھوڑی سی عمر میں میں نے اپنی سڑکوں پر ایسی بہت سی نعشیں دیکھی ہیں جو کفنائی ہوئی حالت میں سڑک کے بیچ پڑی ہوتی تھیں ، اس کے ایک طرف ٹائر جلائے جا رہے ہوتے
اور انکے اردگرد کچھ عورتیں اپنے سینے پھاڑ کر اور کچھ مرد اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر ریاست سے اپنا کوئی جائز حق مانگ رہے ہوتے تھے۔
میں سوچتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو اپنے حقوق کا مقدمہ نعشوں پر قائم کر رہے ہیں
اور ریاست ایسی بہری کیوں ہے کہ اس سے حقوق مانگنے کے لئے عورتوں کو سینہ اور مردوں کو گلہ پھاڑنا پڑتا ہے
اور ریاست کی بینائی اتنی کمزور کیوں پڑ گئی کہ اسے مردوں کا لحاظ تو ہے لیکن جو زندہ ہیں ان کی کوئی فکر نہیں۔

اسے ہماری مردہ پرستی کہہ لیں یا موقع پرستی کہ  ہم نظریاتی حقوق تو خیر نہیں لیکن نظریاتی جنگیں نعشوں پر ہی لڑنے کے عادی ہو چکے ہیں
پچھلے دنوں کی بات ہے ، ایک لڑکی جس کا گھر میں اچانک قتل ہو جاتا ہے
لڑکی کے پی کی باسی تھی اور اسلام آباد میں رہتی تھی
وہ ٹک ٹاکر تھی اور اچھی فالونگ رکھتی تھی۔
اس کی نعش ابھی گھر میں پڑی تھی کہ ہمارے ہاں ایک نظریاتی جنگ شروع ہو گئی
مردے کے کاندھے پر پہلی بندوق ہمارے روشن خیال طبقہ نے رکھی
جو اس کے قتل کو فرسودہ روایات، مذہبی تنگ نظری اور غیرت کے نام پر قتل سے جوڑ رہے تھے
لڑکی دفنا دی گئی اور قتل کا معاملہ بھی کچھ واضح ہو گیا
بات جو گھر سے باہر نکلی وہ یہ تھی کہ لڑکی کا قاتل اس کا کوئی سابقہ بوائے فرینڈ ہے
اس بار نظریاتی بندوق مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں تھی جو وہ اس کی قبر پہ رکھ کر چھوڑ رہے تھے جس کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی ” ہور بے پردہ کرو اپنی کڑیاں نوں ”

یوں تو ریاستی نصاب کے بقول تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں
اور پنجابی، سندھی ، بلوچ اور پختون سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ایک ہیں
ایسے ہی کبھی بنگالی اور ہم بھی ایک تھے
لیکن پھر وہ ہم سے اتنا ہی دور ہو گئے جتنا کہ وہ واقعی دور تھے۔
ان ریاستی بھائیوں کے باہمی جھگڑے ہمیشہ سر اٹھاتے رہتے ہیں
ہر طرف کے قوم پرست خود کو اس نظریاتی میدان جنگ میں اترنے سے پہلے کسی قبر میں سوئے ہوئے بزرگ کو میدان میں لا کھڑا کرتے ہیں
یوں پنجاب کی طرف سے گولہ باری بلھے شاہ کی مرقد سے ہو رہی ہوتی ہے اور سندھ میں شاہ لطیف بھٹائی کی درگاہ سے
اسی جنگ و جدل کے شور میں ایک قبر ایسی بھی ہے جس کو لیکر عداوت اور دشمنی کی ایک فضا قائم ہو چکی ہے کہ اس کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چھوڑنے کے جملہ حقوق کس کے پاس محفوظ رہیں گے
یہ کوٹ مٹھن کا سئیں غلام فرید ہے جسے لاہور کے نیشنلسٹ کھینچ کھینچ کر پنجاب کے تخت پر بٹھانا چاہتے ہیں اور ساؤتھ بیلٹ کے نیشنلسٹ تخت ملتان پر۔

پنجاب کے پانیوں میں موت بہہ رہی ہے اور تباہی کی وبا نے ستلج سے لیکر ساؤتھ پنجاب تک کا تمام علاقہ اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے
فصلیں تباہ ہو گئیں، جمع پونجیاں پانیوں میں بہہ گئیں اور کتنا کچھ تھا جو نابود ہو گیا۔
جب اتنی بربادی ہو گئی تھی، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم اپنی عادت سے باز رہتے
پنجابی نیشنلسٹ اور سندھی نیشنلسٹ ایک بار پھر میدان عمل میں ہیں
اور سیلابی ریلوں میں بہتی موت اور تباہی پر نظریاتی جنگ لڑی جا رہی ہے
جو مرتا ہے وہ مرے بس ہمارا نظریاتی زعم ماند نہ پڑھ جائے۔

یہ ویسی ہی لڑائیاں ہیں جو پہلے صحرائی بدو کنوؤں کے پانیوں پر لڑا کرتے تھے
وقت بدل گیا انسان کے ہاتھ میں مشکیزوں کی بجائے اے آئی آ گیا
اور پانی بھی اب منرل واٹر بن گیا ہے
لیکن وہ قتل و غارت والی خصلت ہے کہ بدلتی ہی نہیں۔

دریاؤں کے پانیوں میں طغیانی آئی تو ریاست نے وہی ازلی پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ پڑوسی دشمن ہمیں ڈبو کر مارنا چاہتا ہے
اور تب ہم ڈوب بھی رہے تھے کیونکہ اس بار  پانی راوی کا تھا شرم کا نہیں
پھر ریاست کے اندر سے ہی خبر نکلی کہ ہمیں تین ماہ پہلے ہی اطلاع مل گئی تھی کہ فی الحال سیلاب کے لئے تیار ہو جاؤ ، بنیان مرصوص والی جنگ کا اگلا پارٹ سیلاب کے گزر جانے کے بعد دیکھ لیں گے۔

پانی نے خوب تباہی مچائی اور تباہی طاقتوں کے لئے ہمیشہ ایک موقع ثابت ہوتی ہے
ایسا ہی ایک موقع پاک فوج کو اپنی عوام دوستی ثابت کرنے کا مل گیا
اور ریاست کے لئے یہ بنڈل آفر تھی کہ اپنی عوام کے سامنے دشمن کے ناپاک ارادے واضح کر سکے
لیکن عوام ریاست کی بانگ درا سننے کی بجائے ان ویڈیوز کو دیکھ کر آبدیدہ ہو رہی ہے جس میں سیلابی ریلے پڑوسیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

قدرت کی یلغار کسی تمیز کو باقی نہیں رہنے دیتی جو پانی کی زد میں آئے گا پھر اس کی قسمت صرف ڈوبنا ہی ہوتا ہے
پانی نے جہاں گھر ڈبوئے، فصلیں تباہ کیں وہاں بہت سی قبروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا
کچھ تصاویر ایسی بھی ملیں جن میں بہت سی درگاہیں پانی کے سامنے بے بس دکھ رہی تھیں
جس پر تالیاں بجائی گئیں، طنز بھی ہوئے اور نظریاتی فائرنگ بھی
یوں لگ رہا تھا کہ جیسے قدرت نے خاص طور پر وہابی اسلام کی حمایت میں بریلویوں کی تباہی کا سامان کیا ہو۔
نظریاتی حیوانگی کی ان کرتب بازیوں سے دوسری طرف دو ملین لوگ بے گھر ہو چکے ہیں
نہ جانے کتنے درخت گرے ہونگے جن پر سے گرے گھونسلوں کو کوئی نہیں گنے گا
ہلاکتوں کی تعداد اگر لکھ دوں تو تعداد کا ابجد موت کا وزن ہلکا کر دے گا
اتنا کہوں گا کہ کچھ مائیں ہیں جو پانی پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں
شاید پانی پر تیرتی ہوئی نعش اس کے بیٹے کی ہو جسے اس نے سڑک پہ رکھ کر گلہ نہیں پھاڑنا تھا بلکہ اسے ایک آخری بار اپنے سینے سے لگانا تھا۔

Facebook Comments

عامر شہزاد
افسانہ نگار، سیاح، کالم نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply