ہم او پی ڈی میں تھے، مریضوں کا رش ختم ہو چکا تھا، ہم اپنے سینئر رجسٹرار سے باتیں کر رہے تھے ۔وہ بولے یار میں تم لوگوں کو ایک نصیحت کرتا ہوں،جو تم لوگوں کو ٹریننگ میں،اس کے بعد باقی پروفیشنل زندگی میں بڑی کام دے گی۔ وہ بولے ” آپ نے تین چیزوں پر ہمیشہ فوکس رہنا ہے،وہ ہیں : 1- زبان چست، 2- کام سست، 3- کاغذ درست ” اگر تم نے ان تینوں باتوں پر عمل کر لیا، پروفیشنل لائف میں مار نہیں کھاؤ گے۔
جو سب سے اہم کام،مجھ سمیت سبھی ینگ ڈاکٹرز کرنے سے دور بھاگتے ہیں،وہ ہے فائلوں کو نا بھرنا،یا نامکمل بھرنا ۔ ڈاکومنٹیشن ہمارے میڈیکل پروفیشن میں اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ زندگی کے لئے آکسیجن ۔
چیزیں ڈاکومنٹ کرنا آپ ہاؤس جاب میں سیکھتے ہیں، لیکن اب وہ ہاؤس جاب رہی اور نا ہی ٹریننگ ۔ میں سرجری میں ہاؤس آفیسر تھا۔ ایمرجنسی ٹرایج میں سبھی ہاؤس آفیسرز،پی جی آرز اور آن کال سینئر رجسٹرار کی مہریں ٹیبل پر پڑی ہوتی تھیں۔
ہمارے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب ڈاکومنٹیشن پر اتنا زور دیتے تھے کہ آپکی سوچ ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ فائلیں،آپکے نوٹس ،آپکے سائن اینڈ سٹیمپ ہی ہیں جو آپکو کسی بھی سانحہ / انکوائری کی صورت میں بچائیں گی، اگر کل کو خدا ناخواستہ آپکو کسی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑ گیا ۔
وہ اتنی پتے کی بات تھی جو مجھے اب جا کر سمجھ آئی ہے۔ آپ کے فائلوں پر لکھے نوٹس ،آپ کے سائن اور سٹیمپ آپ کے لئے لائف لائن کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ایک مریض کی آپ جتنی مرضی دیکھ بھال کر لیں،اور آپ نے ڈاکومنٹ نہیں کیا،اور بعد میں کل کو کوئی پیچیدگی ہو گئی تو انکوائری والے صرف آپکی فائل دیکھیں گے،آپکے نوٹس، ٹائم اور سائن دیکھے گے۔ آپ نے سب کچھ کیا ہو،فائل پر مینشن نہیں کیا۔ آپ نے کچھ نہیں کیا۔
ایسے ہی آپ آو پی ڈی میں بیشک200 مریض دیکھے،اگر انٹری رجسٹر میں 100 مریض مینشن ہیں تو آپ نے سو ہی دیکھے ہیں اور یہی کلیہ ہر جگہ لاگو ہو گا۔
پہلے الائیڈ ہسپتال فیصل آباد اور اب سر گنگارام ہسپتال لاہور میں کسی آپریشن والے مریض کی فائل آپ اٹھا کر دیکھ لیں، ہر فائل پر کوئی 30-40 صفحے لگے ہوتے ہیں۔ہر لیب،رپورٹ اور انویسٹی گیشن کا علیحدہ صحفہ لگا ہوتا ہے ۔ہر چیز مینشن کرنے کا پورشن ہوتا ہے ، لیکن 95% فائلیں آدھی سے بھی کم فل ہوئی ہوتی ہیں ۔ پھر جب کوئی پیچیدگی ہوتی ہے تو سبھی پچھلی تاریخیں ڈال کر فائل مکمل کرتے ہیں تاکہ انکوائری کی صورت میں بچت ہو جائے اور یہی رونا ہے کہ جو کام پہلے ہونا چاہیئے تھا وہ ہو رہا ہوتا ہے ۔
ستم یہ ہے کہ آپ اگر ہاوس افیسرز کو فائل مکمل کرنے کا کہیں تو طبعیت پر ایسا ناگوار گزرتا ہے کہ خدا کی پناہ،خدا کی قسم،جب ہم لوگ ہاؤس آفیسرز تھے تو ہمارے بھی یہی تاثرات ہوتے تھے کہ ہم ڈاکٹر ہو کر یہ کلرکوں والے کیوں کریں؟؟ اب جب پی جی آر بنے ہیں تو سمجھ آئی ہے۔ کل کو آج ہاؤس آفیسرز جب پی ی آرز بنکر آئیں گے تو انہیں بھی سمجھ آ جائے گی۔۔ بس وقت وقت کی بات ہے اور پھر انہیں بھی ایسا ہی ری ایکشن دیکھنے کو ملے گا۔
یہ فائلیں ایک ڈاکٹر کا سیف گارڈ ہوتی ہیں،جو کہ کسی بھی مشکل وقت میں آپکو بچاتی ہیں۔ لیکن ینگ ڈاکٹرز انہی فائلوں پر لکھنا گوارہ نہیں کرتے۔ ڈاکومنٹیشن کرنا اس پروفیشن کا ایک اہم جزو ہے۔ کل کو اگر عدالت میں کوئی کیس چلا جائے،تو ایک ڈاکٹر کے فائل پر لکھے ہوئے چند الفاظ،کسی کی جرم و سزا کا تعین کرتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود فائلز کو مکمل کرنا ڈاکٹرز اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔
سرکاری ہسپتالوں میں آپکی زبان چست رہنی چاہیے،تاکہ آپ اپنے آپ کو بہتر انداز میں بیان کر سکیں ، چست زبان سے ہی آپ اپنے مریضوں کی بہتر انداز میں کونسلنگ کر سکتے ہیں،انہیں مطمئن کر سکتے ہیں ۔لیکن زیادہ تر ڈاکٹرز، مریض کی کونسلنگ صحیح طریقے سے نہیں کر پاتے جو کہ بعد میں مسائل پیدا کرتی ہے ۔
سرکاری ہسپتالوں میں آپ زیادہ کام کریں گے تو آپکو زیادہ کام ملے گا،جس سے آپ کی توجہ مرکوز نہیں رہ پاتی ۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو جو کام اسائن ہو، اسے مقررہ وقت میں،بہترین طریقے سے سرانجام دیں،ناکہ تیزی تیزی میں کام تو کریں لیکن اس میں وہ اہم چیز آپ بھول جائیں جو کہ مریض کی دیکھ بھال کے لئے باقیوں کی بانسبت زیادہ ضروری ہو۔
سرکاری ہسپتالوں میں سروائیو کرنے کا اصل کلیہ یہی ہے،زبان چست،کام سست اور کاغذ درست۔ اگر آپ نے اس کلیہ پر عمل نا کیا تو آپ اپنے لیے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں ۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں