۸ مارچ خواتین کا عا لمی دن اور کشمیری خواتین

دنیا بھر میں ۸ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس میں تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور یہ عندیہ دیا جاتا ہے کہ خواتین کی شمولیت کے بغیر حقیقی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں۔ ایک عام اندازے کے مطابق پاکستان میں عورتوں اور مردوں کا تناسب ۵۲اور ۴۸ فیصد ہے یعنی عورتوں کی تعداد ۴ فیصد زیادہ ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں گو کہ کوئی ایسا سروے موجود نہیں مگر یہاں بھی عورت اور مرد کے تناسب کو پاکستان اور بھارت کے تناسب کے ساتھ ہی موسوم کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر کی عورت کی طرح کشمیری عورت بھی ترقی اور تبدیلی کا حصہ بننا چاہتی ہے اور پڑھی لکھی باشعور عورت چاہتی ہے کہ اسے مناسب ، سیاسی، سماجی اور معاشرتی نمائندگی ملے تاکہ وہ ترقی کے عمل میں مرد کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے سماجی ترقی کے عمل میں اپنا کردار ادا کر سکے مگر کشمیر کے سماجی اور معاشرتی رویے ابھی شعوری ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہیں جسکی وجہ پیداوری عمل کا جمود اور پیداواری رشتوں کا ابہام ہے۔ مرد اور عورت کے سماجی تعلق ، میل جول اور ملکر کام کرنے کو آج بھی شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے ، جسکی وجہ وہ بنیادی سماجی تضادات ، ہیجان اورتعصبات ہیں جو ایک قبائلی نظام کا خاصہ ہوتے ہیں۔ عورت کی کام کرنے کی آزادی اور سماجی ترقی میں کردار کو بلاشبہ مرد وں کے سماجی رویوں سے تازیانہ بھی ملتا ہے اور راہ کے کانٹے بھی۔ ایک پدرانہ نظام میں جنسی ، سماجی ہیجانات اور ثقافتی گھٹن عورت کو غیر محفوظ بناتے ہیں اور ایک اچھا خاندانی اور ریاستی نظام اسے سماج کا کارآمد پرزہ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کشمیری معاشرہ عورت کو سماجی اور معاشرتی تحفظ کی ضمانت دے تاکہ عورتیں ترقی اور تبدیلی کے عمل میں اپنا موثر کردار ادا کرسکیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جہاں ایک حصے میں بھارتی فوج کے ہاتھوں کم و بیش بیس ہزار کا خواتین کے جنسی تشدد کا شکار ہونے کا رونا رویا جاتا ہے دوسری طرف سماجی تبدیلی کے عمل میں حصہ ڈالنے والی خواتین کی کردار کشی کرنے کا کوئی موقع نہیں گنوایا جاتا۔آذیل میں آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں سماجی اور معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنے والی چند خواتین کے کام کو اس نیت سے نمایاں کیا گیا ہے تاکہ خواتین کو ایک دھارے میں شامل کرکے انہیں ترقی کے عمل کا حصہ بنایا جاسکے۔
1۔ عطیہ انور زون
عطیہ انو ر زون کا تعلق ضلع پونچھ کی تحصیل عباسپور سے ہے اور وہ وفاقی گورنمنٹ اردو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے ساتھ ساتھ شعبہ انگریزی کی صدر ہیں ۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے انگریزی کیا اور قائداعظم یونیورسٹی سے ہی امریکن ادب میں ایم فل کیا۔ عطیہ انور زون آجکل نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں پی ایچ ڈی لسانیات کے مقالہ پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے عباسپور سے ہی حاصل کی جو کہ کنٹرول لائن سے چند کلومیٹر دور واقع ہے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج عباسپور سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد عباسپور میں ہی تعلیم جاری رکھنا جہاں اعلٰی تعلیم کے اداروں کی عدم موجودگی کی صورت میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں تھے اور خواتین کو تعلیم کے لئے دوسرے شہروں کا رخ کرنا پڑتا تھا جو ہر کسی کی دسترس میں نہیں تھا وہیں مالی ، معاشرتی اور سماجی مسائل خواتین کے محو سفر ہونے میں رکاوٹ بنتے تھے۔ سماجی اور معاشرتی رویے خواتین کے سفر کے لئے ایک مکمل ضابطہ اخلاق کے متقاضی تھے ، خواتین کے حوالے سے تمام سماجی اور معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے آمادگی اور وسائل کا ہونا ضروری ہے اور بہت سے خاندان پسماندہ سماجی رویوں کی موجودگی میں اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
عطیہ انور زون کو اپنے علاقے سے محبت اور لوگوں کی بہتری کے لئے کام کرنے کا جذبہ اپنے والد پروفیسر محمد انور شیخ مرحوم سے ورثے میں ملا جو اپنی تعلیمی اور سماجی خدمات کی بدولت آزاد کشمیر کے مقتد ر حلقوں میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اپنے اچھوتے خیالات ، تعلیم ، تربیت اور لوگوں کے لئے کام کرنے کی لگن کی وجہ سے انہوں نے ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ کے کونسل برائے انسانی حقوق میں کشمیر کی نمائندگی کے، جس سے نہ صرف عباسپور بلکہ پورے آزادکشمیر کی خواتین کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ خواتین میں سماجی کام کرنے کا جذبہ بھی بیدا ر ہوا۔ ۲۰۰۴ سے۲۰۱۰ءتک عطیہ انور مسلسل اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق میں کشمیریوں کے حقوق کی نمائندگی کرتی رہیں۔
عطیہ انور اپنے کام اور خواتین کے حقوق کی لئے کوششوں کے بارے میں استفسار پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے بذاتِ خود مسائل کو محسوس کیا ہے اور وہ ایک مصمم ارادہ رکھتی ہیں کہ وہ خواتین کو درپیش ان تمام مسائل کے حل کے لئے کام کریں جن کا سامنا عام خواتین کو ہے۔
عطیہ انور کام کرنے کے جذبے سے متاثر ہو کر ۲۰۱۲ء عملی طور پر خواتین کے لئے فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف ہیں ، انکے عوامل کا محور و مرکز آزاد کشمیر کے پسماندہ خطے کی خواتین ہیں۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ کار روائتی سماجی کارکنان سے مختلف اور موضوعات اچھوتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے تناظر میں ان کی حکمت عملی یکسر مختلف تھی وہ چاہتی تھیں کہ خواتین کو عقلمندی سے ایک گفتگو کا حصہ بنایا جائے اور انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں تمام خواتین بلا حیل وحجت درپیش معاشی، معاشرتی، سماجی اور خاندانی مسائل کو بیان کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے عطیہ انور نے آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژنز میں تسلسل سے نمائندہ خواتین کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا۔ گفتگو کے اس تسلسل میں گھریلو خواتین سے لے کر تمام شعبہ ہائے زندگی کی خواتین نے حصہ لیا، ان تما م خواتین نے اپنے گردوپیش اور ذاتی زندگی کے کم وبیش سارے مسائل کی نشاندہی کی اور ان مسائل کے ممکنہ حل تجویز کئے۔ خواتین کے تمام مسائل جاننے کے بعد عطیہ انور کی خواتین کے بارے میں ایک تشویش لاحق ہوئی اور انہوں نے آزادکشمیر کے سب سے پسماندہ ضلع نیلم کا رخ کیا جہاں وہ شاردہ ، کیل ، اٹھمقام اور اپر نیلم کی خواتین کے رو برو ہوکر نہ صرف ان کی زبانی ان کے مسائل سنے بلکہ انہیں ایک دستاویزی شکل بھی دی۔ ان تما م مسائل کی وجوہات اور ممکنہ حل کا مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے ایک تحقیقی رپورٹ مرتب کی جسکا عنوان ہے ’’ان سُنی آوازیں، ان سنائی کہانیاں؛وادیءِ نیلم میں عورتوں کی حالت زار‘‘۔مذکورہ رپورٹ کوکشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز نے حال ہی میں شائع کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور موقر مطالعہ ہے جس میں مسائل زدہ عورتوں کے تاثرات کا احاطہ کیا گیا ہے، یہ رپورٹ نہ صرف سماجی کارکنان کو وادیءِ نیلم کی عورتوں کے مسائل کو سمجھنے میں مدد دیگی بلکہ پسماندہ علاقوں کے لئے پالیسی سازی کرنے کے لئے ٓزادکشمیر کے پالیسی ساز اداروں کے لئے بھی معاون ثابت ہوگی۔
عطیہ انور نے آزادکشمیر کی خواتین کی سیاسی استعداد کار کو بڑھانے اور سیاسی عمل میں شرکت کے موضوع پر ایک اہم مکالمے کا آغاز کیا ہے، ان کا ماننا ہے کہ خواتین کی مناسب نمائندگی کے بغیر ،سیاسی ، سماجی اور معاشرتی تبدیلی کا حصول ناممکن ہے۔ ان کا مانناہے کہ خواتین سیاسی طور پر متحرک ہوں تو ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اگر آزاد کشمیر کی خواتین کو سیاسی پلیٹ فارم پر زیادہ نمائندگی دی جائے تو عام خواتین کو درپیش مسائل تیزی سے حل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ آزاد کشمیر کی تما م خواتین کو سیاسی عمل میں موثر کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی پلیٹ فارم پر زیادہ نمائندگی کے لئے آواز اٹھانی ہوگی، جب تک پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کی سطح پر خواتین کی نمائندگی نہیں ہوگی صنفی طور پر حساس پالیسی نہیں بنائی جاسکتی۔
عطیہ انور خواتین کو تبدیلی کا ایجنٹ سمجھتے ہوئے اس بات پر زور دیتی ہیں کہ خواتین کو اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی تبدیلی میں اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ خواتین دوست قانون سازی پر بھی کام کررہی ہیں اور ٓزادکشمیر اسمبلی کی مرد و خواتین ممبران اسمبلی کے ساتھ صنفی طور پر حساس قانون سازی کے ساتھ مشاورت کررہی ہیں۔ اور اس کوشش میں ہیں کہ ایک صنفی طور پر حساس قانون بنوا سکیں، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ صنف دوست قانون وہ ہتھیار ہے جسکی بدولت خواتین کو بااختیار بنایا جاسکتا ہے اور قانونی تحفظ بہت حد تک خواتین کو سماجی تحفظ بھی فراہم کر سکتا ہے۔
عطیہ انور زون کا کہنا ہے کہ ٓزادکشمیر کی عورتوں کو بھی باقی جنوبی ایشیا کی عورتوں کی طرح پدرانہ خاندانی نظام کا سامناہے اور ایسے ماحول میں خواتین کو بہت سے معاشی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی مسائل درپیش ہیں۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ خواتین کو تبادلہ ءِ خیال میں مشغول کیا جائے اور ان کی زبانی ان کے مسائل سن کر اسے ایک دستاویزی شکل دی جائے اور بنیاد پر پالیسی ساز اداروں اور ٓزادکشمیر حکومت آگاہ کیا جائے تاکہ حکومت ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک واضع پالیسی بنانے کا آغاز کر سکے۔ ایسی پالیسی جو خواتین کو سماجی خوف سے آزادی دلا سکے اور ان کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہو نے کے ساتھ ساتھ ان کو ترقی کے مناسب مواقع فراہم کرے ۔عطیہ انور سمجھتی ہیں کہ آزادکشمیر کی خواتین صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں صرف ان کی استعداد کار کو بڑھانے اور ایک خواتین دوست پالیسی ، آزاد کشمیر کی خواتین کو ترقی کی طرف بامعنی کردار ادا کرنے کا پہلا قدم ثابت ہو گا۔
گو کہ پورے ٓزادکشمیر کی خواتین کے انفرادی ، اجتماعی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل کو سن کر انہیں ایک دستاویزی شکل دینا ایک مشکل کام ہے مگر عطیہ انور اسکو اہم سمجھتے ہوئے ، ان مسائل کے ممکنہ حل جس مین پالیسی سازی، قانون سازی اور عورتوں کی سیاسی اورسماجی ترقی میں شمولیت شامل ہے، کے لئے پرعزم ہیں۔ وہ ایک فیصلہ کن عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ایک ایسی نمائندہ نسل کی امین ہیں جو ٓزاد کشمیر کی کل کی ترقی کا اعشاریہ ثابت ہوگی اور اسکے بغیر ترقی کے عمل کا منطقی انجام تک پہنچنا ناممکن ہے۔

2۔ طاہرہ توقیر

آزاد کشمیر میں خواتین کے حقوق کیلئے بولنے اور کام کرنے والی ایک توانا آواز محترمہ طاہرہ توقیر کی ہے۔طاہرہ توقیر ایک نوجوان خاتون ہیں جو کوٹلی میں مقیم ہیں اور گزشتہ چار سال سے سیاسی و سماجی محاذ پر خواتین کی نمائندہ آواز کے طور پر شبانہ روز محنت میں مصروف ہیں۔طاہرہ توقیر ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور سیاسی و سماجی راہنما کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔طاہرہ توقیر نے سیاسی جدوجہد کیلئے تحریکِ آزادی جیسے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور اسی راستے کو سماجی سطح پر خواتین کے مقام اور مرتبے کو منوانے اور انہیں ایک باشعور، ہنر مند اور برابری کی سطح کا سماجی کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کیلئے جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔وہ آزاد کشمیر بھر میں مسلسل سفر کر تی اورخواتین کے پاس پہنچتی ہیں اور خواتین سے انکے سماجی و معاشی مسائل پر براہ راست گفتگو کرتی ہیں۔طاہرہ توقیر آزاد کشمیر کے ایک متحرک آزادی پسند راہنما کی شریک حیات ہیں اور خواتین کے حقوق کیلئے اپنے کام کا آغاز کالم نگاری سے کیا۔ وہ ایک ریاستی اخبار میں کچھ عرصہ کالم لکھتی رہیں اور ان کالموں میں مختلف سیاسی و سماجی موضوعات پر طاہرہ توقیر کا ایک جاندار اور ترقی پسندانہ نقطہ نظر کھل کر سامنے آیا۔ اس کے بعد وہ اپنے مقاصد کی طرف پیش قدمی کیلئے سیاسی و سماجی میدان میں کود پڑیں اور آزاد کشمیر بھر میں عورتوں کے سماجی مرتبے اور حقوق کی آگاہی کیلئے عملی کام شروع کیا۔انہوں نے اپنے سماجی تعلقات کو عورتوں کے حقوق اور سماجی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں تک بڑھایا اور مختلف طربیتی ورکشاپس اور ٹرینگز کے ذریعے کام کرنے کی ذاتی مہارت اور استعداد میں بھی اضافہ کیا اور کر رہی ہیں۔ماس کمیونی کیشن کی طالبعلم ہونے کے باعث طاہرہ توقیر ابلاغ کی اہمیت اور ابلاغ کی سائنس کو پوری طرح سمجھتی اور دستیاب وسائل میں مختلف ذرائع ابلاغ کو اپنے مقاصد کیلئے مثبت طریقے سے استعمال میں لاتی ہیں۔وہ سوشل میڈیا کو ایک ٹول کے طور پر بخوبی استعمال کر رہی ہیں اور اس ٹول کے ذریعے سماجی تبدیلی کے ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر انکے فالورز کی تعداد ہزاروں میں ہے اور وہ غالباً آزاد کشمیر بھر میں واحد خاتون ہیں جو انتہائی مثبت اور موثر انداز میں تسلسل کے ساتھ اس میڈیا ٹول کو استعمال میں لا رہی ہیں۔
’’ سوشل میڈیا ایک تیز ترین اور موثر ذریعہ ابلاغ بن گیا ہے۔ مجھے اس ٹول کو استعمال کرنے کا جب خیال آیا تو میں نے ایک لمحہ دیر نہیں کی اور تب سے آج تک میں اسے ایک موثر اور کاریگر ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہوں۔ یہ پروپیگنڈہ کی صدی ہے ۔ اطلاعات اور معلومات کا طوفان ہے۔ ایسے میں مجھے اپنے کاز اور نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کیلئے ہر وقت موجود اور متحرک رہنا پڑتا ہے۔ آپ کو تیز تیز چلنا ہے۔ بات کو مختلف طریقوں سے پہنچانا ہے۔ایک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کیلئے تصویر سے لیکر سٹیٹس تک، تشہیر اور معلومات کے پھیلاؤ سے لیکر گروپس اور پیجز کی تشکیل تک اور لائک سے لیکر شیئر تک سب پروپیگنڈہ ہے ۔ لوگ باتیں کرتے ہیں ۔ ہم باتیں سنتے ہیں اور جواب میں گالیاں نہیں اپنا نقطہ نظر پھیلانا اور تیز کرتے ہیں۔یہ پورا محاذ ہے یہاں بھی آپ کے دوستوں اور دشمنوں کے لشکر صف آرا ہیں۔ ابلاغ عامہ کی سائنس کی طالب علم ہونے کی وجہ سے میں ابلاغ کی تکنیک، مہارت، ضرورت اور طریقہ کار کو سمجھتی ہوں اور اس سمجھ کو اپنے کام کیلئے استعمال کرتی ہوں‘‘
طاہرہ توقیر گزشتہ دو سال سے نیلم ویلی میں خواتین کیلئے ایک سکل ڈویلپمنٹ سکول بھی چلا رہی ہیں ۔اس سکول میں مقامی خواتین کومفت سلائی سکھائی جا رہی ہے۔ سکول میں موجود تمام سلائی مشینیں ، فرنیچر، کپڑا، دھاگہ وغیرہ، عمارت کا کرایہ اور ٹیچر کی تنخواہ سب کچھ طاہرہ کی فراہم کرتی ہیں۔ یہ سکول وہ اپنے خاندان سے مدد لیکر آگے بڑھا رہی ہیں ۔ گزشتہ برس اٹھمقام میں تیس نوجوان لڑکیوں نے اس سکول سے ایک سال کا مکمل سلائی کورس مکمل کیا۔اس کے بعد اس سکول کو دواریاں منتقل کیا گیا جہاں اتنی ہی طالبات اس وقت بھی سلائی سیکھ رہی ہیں۔خواتین کے مسائل کے حوالے سے طاہرہ توقیر مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے جہاں بھی ضرورت ہو سیمینارز اورسماجی تقریبات کا انعقاد بھی کرواتی ہیں اور خود بھی ایسی تقریبات میں موجود ہوتی ہیں جن میں خواتین کے حقوق اور مسائل پر بات چیت ہوتی ہے۔۔تحریک آزادی کیلئے طاہرہ کے کام کرنے کے انداز نے آزاد کشمیر بھر میں نوجوان نسل پر مثبت اثرات ڈالے ہیں۔وہ اپنے کام کیلئے وسائل بھی خود ہی پیدا کرتی ہیں اور خود کام کر کے ایک منفرد مثال قائم کر چکی ہیں۔انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ اکٹھے کام کر کے ایک اور مثبت مثال قائم کی جسے نوجوان نسل میں بہت پسند کیا جا رہا ہے اور نوجوان لڑکیاں اور لڑکے انہیں عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔وہ ایک روشن خیال، ترقی پسند، امن ، انصاف اور سماجی برابری پر مبنی معاشرے کی مبلغ اور اسکی تعمیر کیلئے عملی جدوجہد کا نمونہ بن رہی ہیں۔ان کے کام کے دوران پیش آنے والی مشکلات کیا ہیں یہ پوچھنے پر انکا کہنا تھا ،
” مسائل تو دونوں طرح کی صنف کو درپیش آتے ہیں۔ لیکن آزاد کشمیر میں کام کے دورون بحثیت عورت جو مسئلے مجھے پیش آتے ہیں میں ان پر بات کروں گی۔ عورت کا کام کرنا ابھی تک ایک بری بات سمجھی جاتی ہے اوریہ مسئلہ تو کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ہر عورت کو درپیش ہے سومجھے بھی تھا اور ہے۔یہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ گھر میں نہیں تو محلے میں ، وہاں نہیں تو سماج میں یہ مسئلہ نہ صرف موجود ہے بلکہ کہیں کہیں یہ متشددانہ شکل اختیار کر لیتا ہے۔اس کے علاوہ عورتوں کیلئے مردوں میں کام کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ بعض اوقات آپ کے ساتھ کام میں شریک مرد بھی آپ کے خلاف گفتگو ، سازشوں اور کردار کشی میں مصروف ہوتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا اور لوگوں نے آپ کے متعلق کافی کچھ جمع کیا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں منافقانہ طریقے سے بھی آپ کے کام میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔اور سب سے پہلے یہی گھسی پٹی دلیل دہرائی جاتی ہے کہ عورت کے کام کی کیا ضرورت ہے۔ اگر دوسرا بولے کے ضرورت ہے تو پھر آپ کی ذات پر اٹیک ہوتے ہیں۔
جو مرد آپ کے ساتھ کسی کام میں شریک نہیں ہوتے یعنی معاشرے میں موجود مرد انکی اکثریت آپ کیلئے رائے باندھنے میں آزاد ہوتی ہے۔ کام سے روکنے کے اس عمل میں کہیں کہیں فتوے بھی آنا شروع ہو جاتے ہیں سو یہ سب کچھ میرے ساتھ بھی نہ صرف ہوا بلکہ جب تک کام ہے ہوتا رہیگا۔ لیکن میں نے اس سب سے بہت سیکھاہیں۔ بہادری، خوداعتمادی، دیانت داری ، سچائی اور محنت مقاصد کے حصول کے جدوجہد میں سب سے اہم ہتھیار ہیں۔

3۔نتاشا راتھر

نتاشا راتھر کا تعلق سرینگر جموں کشمیر سے ہے، وہ ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئیں جب ریاست توپوں کی گھن گرج اور مزاحمتی تحریک کے نعروں سے گونج رہی تھی اور تحریک کی سرگرمیوں کا محور و مرکز سرینگر تھا۔ کشمیر میں عسکری سرگرمیاں عروج پر ہونے کے ساتھ ساتھ ان عسکریوں کاروائیوں کو روکنے کے لئے بھارتی فوج اور کشمیر پولیس عسکریت پسندوں سے باہم دست و گریبان تھی، ہر روز کرفیو، آپریشن اور تلاشی کے نام پر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنا عام سی بات تھی۔ ان حالات میں نتاشا راتھر نے سرینگر سے ہی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ، سرینگر یونیورسٹی سے ماسٹر کیا، وہ آجکل صنفی مساوات میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔
ماسٹر تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد نتاشا راتھر نے ترقیاتی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا ، انہوں نے پائیدار ذریعہ معاش برائے دیہی ترقی، دیہاتی لوگوں کے رہن سہن کے طریقے میں بہتری، دیہاتی لوگوں کے لئے روزگار میں اضافے پر کام کیا، ان کے کام کا طریقہ بنیادی انسانی حقوق کی بنیاد پر تھا۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر کے گھٹن زدہ ماحول میں ایک خاتون کا مردوں کے شانہ بشانہ دیہی علاقوں کا سفر اور دیہاتی لوگوں کی بہتری کے لئے کام ایک چیلنج تھا مگر نتاشا نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے دیہی خواتین و حضرات کو یہ باور کروایا کہ وہ اپنی حالت کو خود درست کر سکتے ہیں ۔ نتاشا کا ماننا ہے کہ اچھی نیت اور لگن سے کام کرنے سے آپ لوگوں کی زندگی میں بہتر تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
نتاشا راتھر نے چار دوسری خواتین کے ساتھ ملکر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا.’’کیا آپ کنان پاسفورا کو جانتے ہیں؟‘‘ اس کتاب میں نتاشا نے اداروں میں جنسی تشدد اور استثنٰی کے عنوان سے ایک باب لکھا ، جس میں اداروں کے جنسی تشدد اور حکومت کی طرف سے استثنٰی پر بحث و تنقید کی گئی۔ کنان پاسفورا میں بھارتی فوج کے جنسی تشدد اور استثنٰی کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ مذکورہ کتاب کو ہندوستان سمیت پوری دنیا کے متنوع دانشوروں نے سراہا اور اس پر اپنے آراء دیں۔
نتاشاراتھر آجکل جموں کشمیر کوئلیشن آف سول سوسائٹی کے ساتھ ایک محقق کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ بھارتی زیرانتظام کشمیر میں نتاشا راتھر جیسی خواتین باقی کشمیری خواتین کے لئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ جو جدوجہد کے نئے زاویے متعارف کروا رہی ہیں۔ نتاشا راتھر جیسی خواتین کے کام کو معزز دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔

4۔راحت فاروق ایڈوکیٹ

راحت فاروق ایڈوکیٹ کا تعلق ضلع باغ کے ایک چھوٹے سے قصبے ارجہ سے ہے لیکن وہ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے گزشتہ ۱۶ سال سے مظفر آباد میں مقیم ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ مڈل سکول ارجہ سے مڈل تک تعلیم حاصل کی ، ارجہ میں سائنس کی تعلیم کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج دھیر کوٹ سے پاس کیا، ایف ایس سی کا امتحان کراچی سے پاس کرنے کے بعد پوسٹ گریجویٹ کالج باغ سے گریجویشن کی ۔ معاشیات میں ایم ایس سی ، ایل ایل بی اور ایل ایل ایم (مقالہ زیر تحقیق) آزادجموں کشمیر یونیورسٹی مظفرآباد سے کیا۔
راحت فاروق ۱۹۹۹ء میں گریجویشن کے فوراً بعد رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئیں اور شادی کے ایک سال بعد ایک بیٹی کی ماں بنیں مگر گھریلو مصروفیات اور اولا د کی پرورش انہیں تعلیم جاری رکھنے سے نہ روک سکی، اسکے ساتھ ساتھ وہ اپنے خاندانی معاملات کو بطریق احسن انجام دیتی رہیں۔ انہوں نے ۲۰۰۵ء میں وکالت کا آغاز کیا ، ۲۰۰۸ء میں ہائی کورٹ اور ۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ آزاد کشمیر کا لائسنس حاصل کیا۔ راحت فاروق سنٹرل بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر، لیگل ایڈ کمیٹی کی چئیر پرسن رہی ہیں ، وہ حال ہی میں ممبر ایگزیکٹو کمیٹی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بنی ہیں۔
راحت فاروق سماجی میدان میں ایک متحرک کارکن کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ اگرچہ پسماندہ سماج میں عورت کا سماجی ترقی کے عمل میں متحرک ہونا اتنا مناسب نہیں سمجھا جاتا اور اسے سماجی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، مگر راحت فاروق نے ناقدین کی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سماجی ترقی ، عورتوں کے حقوق کے لئے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے بطور خاتون نائب صدر ججوں کی بحالی اوربحالی ءِ جمہوریت کی تحریک میں متحرک کردار اد کیا۔ راحت فاروق مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی کشمیر کانفرنس ، جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان اور دونوں طرف کی کشمیر ی قیادت شامل تھی، میں مندوب کی حیثیت سے شامل ہوئیں اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، اسکے علاوہ بین الاقومی وکلاء کانفرنس منعقدہ لاہور میں شرکت کرتے ہوئے کشمیر کی نمائندگی کی۔ راحت فاروق اس وقت آزاد جموں کشمیر کمیشن فار دی سٹیٹس آف ویمن ، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے تحت بنائی جانے والی Bioethics کمیٹی اور فرسٹ ویمن چیمبر آف کامرس کی ممبر اور لیگل ایڈوائزر ہیں۔
انہوں نے خواتین کے حقوق اور انصاف کی فراہمی کے لئے ایک منصوبہ پر بطور سینئر لیگل ایڈوائزر کام کیا۔اس منصوبہ کے تحت ۲۵۰۰ خواتین کو مفت قانونی مشاورت دی گئی ، منصوبے کے دوسرے مرحلے میں ۱۰۰ خواتین کو مفت قانونی رہنمائی فراہم کی گئی۔
پاکستان میں سال ۲۰۱۴ء میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی کی گئی اور آزادکشمیر میں عورتوں پر تشد د اور جنسی ہراساں کرنے کے واقعات کے سامنے آنے کے بعد ۲۰۱۴ء میں ہی تشدد سے روک تھام کا ایکٹ، کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے کا ایکٹ اور کمیشن آف دی سٹیٹس آف ویمن بنایا گیا۔ مذکورہ تمام ایکٹ کی آگاہی اور خواتین میں شعوری بیداری کے لئے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے ایک تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا تو راحت فاروق نے بطور ریسورس پرسن لیکچرز دئیے۔ مذکورہ ورکشاپ میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ افراد کو خواتین کے لئے بننے والے قوانین کے بارے میں آگاہی دی گئی۔
راحت فاروق نے خواتین پولیس افسران نے خواتین پولیس افسران کے حقوق ، ان کی ترقیابی اور ہر تھانے میں خواتین کے لئے الگ ڈیسک بنانے کیلئے آواز بلند کی ۔ آج خواتین ترقیاب ہو کر ہر تھانے میں الگ ڈیسک پر اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین کے لئے الگ ڈیسک قائم کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تھانے میں شکایات لیکر آنے والی خواتین اپنے مسائل کھل کر خواتین پولیس افسران کو بتا سکتی ہیں ۔
راحت فاروق کا ماننا ہے کہ آزادکشمیر میں ٓبادی کے تناسب کے لحاظ سے آزاد جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی میں خواتین کے لئے بہت کم نشستیں مختص ہیں، ان میں اضافہ وقت کا تقاضا ہے، اسکے علاوہ ٓزادجموں کشمیر کونسل میں خواتین کی نشستوں کا نہ ہونا اور عدلیہ میں خواتین کی عدم موجودگی ایک المیہ ہے، راحت فاروق اپنے ساتھیوں کے ساتھ مندرجہ بالا شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کے لئے آواز اٹھا رہی ہیں۔
یہ ایک عام تاثر ہے کہ پیشہ وارنہ اور سماجی معاملات میں سر گرم خواتین کی نجی اور خاندانی زندگی مسائل کا شکار رہتی ہے مگر راحت فاروق ایڈوکیٹ اس دقیانوسی تصور کوغلط ثابت کیا ، کیونکہ وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ ایک کامیاب ازدواجی زندگی بھی گزار رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر آپ وقت کا درست استعمال کرتے ہیں اور اپنے خاندان کو مناسب بھی مناسب وقت دیتے ہیں تو خاندانی مسائل آپ کے پیشہ وارنہ زندگی کے راستے کے پتھر نہیں بن سکتے۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ اس کی ترجیحات میں کیا زیادہ اہم ہے؟

5۔ شہنیلہ نذیر

Advertisements
julia rana solicitors london

شہنیلہ نذیر کا تعلق خطہ اندرہل ڈڈیال ضلع میرپور سے ہے۔ شہنیلہ پاکستان کی تعلیمی تحریک الف اعلان پاکستان کی ضلع میرپور میں نیٹ ورک کوارڈینیٹر رہ چکی ہیں، اور اس وقت ڈڈیال کی خواتین پر مشتمل ایک گروپ گرلز ایجوکیشنل کمیٹی کی ہیڈ ہیں۔ شہنیلہ نے ابتدائی تعلیم اور پھر اس کے بعد گریجویشن گرلز ڈگری کالج ڈڈیال ہی سے مکمل کی۔ انھیں شروع سے ہی تعلیمی حوالے سے جڑے مسائل سے دلچسپی تھی اور ان کے خیال میں ان میں سے بہت سے ایشوز کو مقامی کمیونٹی کے درمیان کوارڈینشن اور باہمی تعاون سے حل کیا جاسکتا ہے۔ شہنیلہ کی بنیادی سکولنگ نے انھیں اُن تمام سماجی جہتوں سے آگاہ کیا جو ایک عام فرد محسوس کرسکتا ہے اس سوال کو لے کر شہنیلہ جب کالج کے دور میں داخل ہوئیں تو اپنے اسی کالج سے ان مسائل کے حل کے لئے کام کا آغاز کیا۔ شہنیلہ نے اپنی دوستوں کے ساتھ مشورہ کر کے گرلز ایجوکیشنل کمیٹی ڈڈیال کی بنیاد رکھی اور اسی گراونڈ کو ٹھیک کروانے کا مشن اٹھایا جہاں گھاس کے بجائے صرف پتھر ہی پڑے ہوا کرتے تھے، گراونڈ کا حلیہ درست ہوا تو پینے کے پانی کے اُس ٹینک پر نظر پڑی جہاں سے پانی بیت الخلا کو بھی جاتا اور لڑکیاں پیتیں بھی وہیں سے تھیں، پھر اسی جذبے نے پانی کے نئے صاف ستھرے ٹینک بھی نصب کروائے۔ اس کام میں کامیابی نے شہنیلہ کو نئے جذبے سے نوازا جو بالاخر جا کر گرلز ایجوکیشنل کی تنظیم نو اور اس کے پروگرام کے پھیلاو کا ذریعہ بنا۔ گریجویشن کے بعد شہنیلہ کے پاس دو ہی راستے باقی بچے تھے، سماج کی باقی خواتین کی طرح اُمور خانہ داری یا پھر تبدیلی کے اس سفر کو جاری رکھنا جس کا آغاز شہینلہ نے گرلز ایجوکیشنل کمیٹی کی صورت میں کیا تھا۔ شہنیلہ نے جان بوجھ کر اسی رستے کو اپنایا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ ان کے نزدیک آج کی اس اکیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں عورت کے کردارکو ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پیداہوتے ہی اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ اس کی زندگی کا واحد مقصد نسل انسانی کی افزائش کے مقصد کے حصول میں مرد کی باندی بن کر جینا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ شہنیلہ کے بقول ؛
’’جب جہالت کے نعرے در و دیوار سے ہمارے منہ چڑاتے تو وہیں پہ ہم نے گرلز ایجوکیشنل کمیٹی ڈڈیال کے ذریعے سوئے ہوئے نیم مردہ ضمیروں کو جگانے کا آغاز کیا۔ہمارا انتظار کہتا ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب ہم فرسودہ روایات کے بندھنوں سے آزاد ہو کر اپنے معاشرے کے کریہہ چہرے پہ نظر ڈالیں گے کیونکہ ہمارے معاشرے کا اکثر ہم سے گلہ رہتا ہے کہ ہم تعلیمی حوالوں سے بہت پیچھے ہیں،یہاں پہ ابھی بھی فرسودہ روایات کا چلن ہے، عورتیں تعلیمی حوالے سے بہت پیچھے ہیں‘‘۔
شہنیلہ کے نزدیک ان تیز و تلخ سوالوں کا جواب شاید یہ نہیں کہ کیا واقعی ہم اتنے پسماندہ ہیں؟ وہ کہتی ہیں؛
’’ ایسا ہر گز نہیں،ہمیں اس سوچ کو مات دینی ہے کہ ہم سارے ہی اس جُرم میں شریک ہیں بلکہ ہم میں سے کچھ تو ہیں جو اس سوچ کو شکست دینا چاہتے ہیں اور یہ شکست صرف اور صرف قلم کے ہتھیار سے ہی ممکن ہے‘‘۔ یہی وہ فکر و فلسفہ ہے جو شہنیلہ کی قائم کردہ گرلز ایجوکیشنل کمیٹی کو فکری بنیادوں کے لئے ایندھن فراہم کرتا آیا ہے کہ ہم خود ہی چراغ راہ بنیں، خود ہی اپنے حصے کا دیا جلائیں اور خود ہی روشنی بنیں۔ شہنیلہ کہتی ہیں کہ؛
’’ ہمارے معاشرے میں زندگی کے مختلف شعبوں بشمول تعلیم میں صنفی تفاوت اور مسائل نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں۔ مثلاً اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری سے لے کر اعلیٰ سطح تک کی تعلیم میں ایک وسیع صنفی فرق موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں خواتین کی کم شرح خواندگی اور انرولمنٹ کو ایک اہم مسئلہ ہے۔ایک کمزور نظام تعلیم میں یہ صلاحیت کم ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں خواتین سے متعلق تعصب اورفرسودہ خیالات کو چیلنج کرے اور خواتین کو اس قابل بنا سکے کہ وہ امتیازی سلوک، جنسی ہراسانی اور تعصب جیسی دشواریوں سے بخوبی نمٹ سکے۔ لہٰذا تعلیمی اداروں میں ایسا تعلیمی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت جو صنفی تفاوت اور صنفی تعصب جیسے مسائل کو کم کرنے میں مدد دے سکے۔ اس سلسلے میں ہمارے نظام تعلیم کے مختلف پہلوؤں۔ جیسے پالیسی، نصاب اور درسی کتابیں، سکول کے ماحول، اساتذہ کی تربیت۔ پر صنفی نقطہ نظر سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔مزید برآں، یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ لڑکوں کے سکولوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو کھیلوں، معاون نصابی سرگرمیاں، پانی، بجلی، صفائی اور دیگر سہولیات کے لئے کم بجٹ ملتا ہے۔ لہٰذا، تعلیم میں صنفی فرق کو کم کرنے کے لیے ہماری تعلیمی پالیسیوں کو صنفی لحاظ سے مزید حساس اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔تعلیم میں پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کا عمل خواتین کی تعلیم تک رسائی اور شمولیت کے لئے بہت اہم مانا جاتا ہے۔ لیکن ایک ایسی تعلیمی پالیسی جو صنفی حساسیت سے محروم ہو، جنسی مساوات اور برابری کو یقینی نہیں بنا سکتی‘‘۔
شہنیلہ کہتی ہیں کہ؛’’ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں معیشت کا پہیہ بھی خواتین کی شرکت کے بنا نہیں چل سکتا۔ اس لیئے سیاسی ایجنڈہ اور سماجی سوچ کو بھی اب خواتین کے حوالے سے تبدیل کرنا ہو گا۔ بلکہ اب ضرورت یہ بھی ہے کہ ہم اپنا سماجی بیانیہ بھی تبدیل کریں اور خواتین کے وجود سے انکار کے بجائے ان کے وجود کو تسلیم کریں ویسے بھی ہمارے انکارسے خواتین کا وجود ختم نہیں ہو سکتا‘‘۔
گرلز ایجوکیشنل کمیٹی کا خیال شہنیلہ کے ذہن میں انھی تلخ حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر آیا تھا کہ مقامی عورت موجودہ زمانے سے بہت پیچھے ہے اور اس سفر کو شاید بہت لمبا عرصہ لگے گا اس لئے اس رفتار پر دھیان دینے کی ضرورت ہے، ان کے مطابق عورت کی تعلیم کو وہ اہمیت ابھی تک حاصل نہیں ہوسکی جو کہ ایک مرد کو حاصل ہے اس کی وجوہات بھی سماجی پسماندگی ہے۔ اسی خیال کو لے کر گرلز ایجوکیشنل کمیٹی کو بنایا گیا تھا تاکہ خواتین کی تعلیمی ضرورتوں اور آوازوں کو نئی سمت دی جاسکے اور انھیں ان کانوں تک پہنچایا جاسکے جو شاید ابھی تک تسلیم سے عاری رہے ہیں۔ شہنیلہ کو احساس تھا کہ یہ راستہ طویل اور کٹھن ہے مگر اُن کے بقول میں نے عہد کیا تھا کہ اسے ترک نہیں کرنا کیونکہ جو حالات کے جبر سے ڈرتے ہیں وہ تبدیلی نہیں لاسکتے۔ شہنیلہ نے گرلز ایجوکیشنل کمیٹی کے ذریعے ہی بُک بنک کے نام سے ایک نئے خیال پہ کام کا آغاز کیا، یہ خیال بھی سماجی پسماندگی کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا کہ ہمارے ہاں بے شمار ایسی بچیاں ہیں جو کہ دور افتادہ علاقوں میں معاشی حالات کے باعث تعلیمی بوجھ نہیں اٹھاسکتیں ،وہ اس بک بنک کے ذریعے اُن تک رسائی حاصل کریں اور انھیں کتابیں، قلم اور بستہ مہیا کریں، اسی خیال کی عملی تعبیر آج بھی جاری ہے وہ اپنے علاقے کے مخیر لوگوں سے ان بچیوں کو سپانسر کرنے کا کہتی ہیں اور ہر سال پانچ سو کے قریب ایسے بچے جو تعلیمی اخراجات نہیں برداشت کرپاتے اب بک بنک کے ذریعے اپنی کتابیں حاصل کررہے ہیں۔ یہ اس تعلیمی پسماندگی کے خلاف عملی قدم ہے۔اس کے علاوہ کلاس روم کے نام سے انھوں نے ایک ایسے علاقے میں تعلیمی سلسلہ شروع کیا تھا جہاں کی بچیاں سکول کی عمارت سے محروم تھیں اس خیال کے ذریعے ہم انہوں نے معاشرے کو پیغام دینے کی کوشش کی کہ ہر چیز ممکن ہے بشرطیکہ اسے کرنے کی جستجو ہو۔ خواتین کا عالمی دن آج کی عورت کو یہی پیغام دیتا ہے کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا، ہمت کرنی ہو گی۔ کشمیر کی عورت اپنی فکری صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی سے بھی کم نہیں ہم اپنی صلاحیتوں کے ذریعے ایک نئے معاشرے کی بنیادوں کو تعمیر کرسکتے ہیں ایک ایسا معاشرہ جہاں صنفی مساوات، سماجی برابری ہو گی۔

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply