یونیورسٹی میں جمعیت کا دائرہ توڑنا ہوگا۔۔ابو بکر

پنجاب یونیورسٹی لاہور ان دنوں دوبارہ سے لڑائی جھگڑوں کی زد میں ہے۔ گذشتہ چندسالوں کی طرح اس دفعہ بھی یہ لڑائی جمیعت اور بلوچ و پشتون کونسلز کے درمیان ہے۔ڈیڑھ دو سال قبل جب میں بھی پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں رہتا تھا بالکل اسی طرح کے ہنگامے شروع ہوئے تھے ۔ اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر میں وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ایسی لڑائیاں جلد ختم نہیں ہو سکتیں اوریہی وجہ ہے کہ ہر چند ماہ بعد انہی گروپس کے درمیان یونیورسٹی میں دوبارہ سے تشدد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔اس کے نتیجہ میں پولیس کو بھی ایکشن لینا پڑتا ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں اوران ہنگاموں کا اثر ملکی سطح پرمحسوس کیا جاتا ہے۔ میرے ہاسٹل میں قیام کے دوران جب یہ ہنگامے شروع ہوئے تو میں نے ‘ہم سب’ پر ایک مضمون لکھ کراس طرف توجہ دلائی تھی۔ بدقسمتی سے اس مضمون کا دوسرا حصہ تحریر نہ ہو سکا اور گفتگو ادھوری رہ گئی۔ آج ایک دوست کی وال پرتصویر دیکھی جس میں چند پشتون لڑکے لاہور کے کسی تھانے میں سلاخوں کے اندر قید ہیں۔ ان میں میرا دوست رضا وزیر بھی شامل ہے جسے میں کئی سال سے جانتا ہوں اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کسی صورت تشدد میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ وہ تصویر دیکھ کر دلی افسوس ہوا۔

اس مسئلہ میں پولیس کو کسی صورت بھی دبنگ انداز کی داروغہ گیری کی اجازت نہیں ہے۔طلبا کا مسئلہ اصولی طور پر جامعہ کا اندرونی مسئلہ ہے اور اگرحل نہیں ہو رہا تو اس کی وجوہات پر غور کرنا چاہیے کجا کہ ہر چار ماہ بعد بلا امتیاز سو ڈیڑھ سو طلبا کو مجرموں کی طرح تھانے میں بند کر دیا جائے۔ ان لڑائیوں کی بابت نہایت اختصار کے ساتھ یہاں چند نکات پیش کرتا ہوں جو پنجاب یونیورسٹی میں رہتے ہوئے میں نے ذاتی مشاہدے اور متحارب گروپس کے ساتھ قریبی واقفیت کی بنا پر محسوس کیے۔

1۔ یہ کہنا غلط ہے کہ کیمپس میں علاقائیت یا لسانی قومیت کا کوئی وجود نہیں۔ یونیورسٹی میں ہزاروں طلبا موجودہوتے ہیں جن میں ایک کثیر تعداد دور درواز علاقوں اور صوبوں سے تعلق رکھتی ہے ۔ ہاسٹلز میں بھی ہزاروں طلبا کا قیام ہوتا ہے۔ ہرانسانی مجمع کی طرح یہاں بھی فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ایک زبان بولنے والے اور ایک ہی علاقے سے آنے والے آپس میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اردو اور انگریزی رابطہ کاری کی زبانیں ہیں ۔چنانچہ پشتون، بلوچ، سندھی اورسرائیکی طلبا کے اپنے اپنے گروہ بن جاتے ہیں جو کسی ایک طالب علم کو اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں اور ایک تنظیم کی صورت میں باہمی معاونت کرتے رہتے ہیں۔ طلبا تنظیمیں صرف لسانی یا علاقائی بنیادوں پر ہی نہیں بنتیں لیکن یہ بنیاد سب سے اولین اور فطری ہے۔اس کے علاوہ سیاسی و مذہبی بنیادوں پربھی طلبا تنظیمیں بنائی جاتی ہیں۔ پی ایس ایف، ایم ایس ایف اور آئی ایس او وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔

2۔ جمعیت ایک وسیع سطح کی تنظیم ہے جو دراصل جماعت اسلامی کا طلبا فرنٹ ہے۔جس طرح سیاسی میدان میں جماعت اسلامی ایک وسیع سطح کے عمل کا نام ہے اسی طرح کیمپس میں جمعیت ایک وسیع طرز کی سرگرمی کا مجموعی نام ہے۔اس کے مفادات سیاسی و مذہبی سے لیکر سماجی و تہذیبی سطح کے ہیں۔ جمعیت جہاں طلبا کے روزمرہ مسائل کے علاوہ انہیں اچھا مسلمان بنانے کے لیے فکرمند رہتی ہے وہیں عالمی سطح پر اسلام کے غلبے کے لیے بھی فکرمند ہے۔اس طرح جمعیت میں بالعموم ہر رنگ ونسل کا کارکن مل جاتا ہے۔لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں پنجاب یونیورسٹی کی موجودہ جمعیت میں شوریٰ کی سطح پر چند پشتونوں کے علاوہ تنظیم کی سطح پر اس میں زیادہ تر پنجابی طلبا ہی شامل ہیں۔

3۔ ایک زمانے میں پنجاب یونیورسٹی میں طلبا کی ترقی پسندسیاسی تنظیموں کا دوردورہ ہوتا تھا۔ ضیا الحق کے زمانے میں طلبا تنظیموں پر پابندی لگائی گئی تو بطور خاص ان تنظیموں کو کچل دیا گیا۔جمیعت کی سرکاری سرپرستی کی گئی ۔ رفتہ رفتہ یونیورسٹی کےسٹاف اور اساتذہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں جمیعت کے ہمدرد بھرتی کیے گئے۔ ڈیڑھ دو دہائیوں تک جمیعت پنجاب یونیورسٹی پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتی آئی ہے ۔ ان کی مرضی کے بغیر نہ کوئی پتا  ہل سکتا تھا نہ ہی کوئی چڑیا پر مار سکتی تھی۔ چڑیا اور پتے کا قریب ہونا تو اور بھی سختی سے ممنوع تھا جس کی سزا سر عام مرغا بنانے سے لیکر ہاسٹل میں موجود ٹارچر سیل میں ہڈیاں توڑنے تک ہو سکتی تھی۔ جمیعت نے اپنے مذہبی چہرے کے ساتھ کسی بھی دوسری تنظیم کی طرح خود مکمل فائدے اٹھائے اور باقی سب پر غاصبانہ اسلام نافذ کیا۔

4۔ جمیعت کا یہ غلبہ چند سال پہلے ٹوٹنا شروع ہوا۔ اس کی ابتدا وہ واقعہ ہے جب کیمپس آئے عمران خان اور ان کی ہمشیرہ سے شدید بدتمیزی کی گئی۔ ایک عرصہ سے جمیعت سے تنگ آئے اسٹوڈنٹس بالآخر پھٹ پڑے اور یونیورسٹی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ڈھیلے ڈھالے نام سے جمع ہو کر جمیعت کے خلاف نکل آئے اور اس کا خوف توڑا۔ لسانی و علاقائی کونسلز ختم تو کسی دور میں بھی نہ ہوئی تھیں لیکن اس واقعے کے بعد پشتون اور بلوچ کونسلز بھی جمیعت کے اثر سے آزاد ہونا شروع ہوئیں۔ ایک بڑی تعداد میں بلوچ اور پشتون طلبا پنجاب یونیورسٹی میں رہتے ہیں۔ یونیورسٹی سٹوڈنٹس فیڈریشن ڈیڑھ دو سال میں ختم ہو گئی لیکن اب جمیعت اور بلوچ و پشتون کونسلز کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ گذشتہ چند برس میں جمیعت اس مقابلے کے عملی میدان میں مسلسل ہارتی آئی ہے اور اسی وجہ سے آج کیمپس پر اس کا وہ اثر اور دبدبہ باقی نہیں جو کسی دور میں ہوتا تھا۔

5۔ جمیعت کے موجودہ کارکنوں کی بڑی تعداد پنجابی طلبا پر مشتمل ہے۔ لڑائی اور ہنگاموں کے دوران باہر کے کالجز بالخصوص سائنس کالج وحدت روڈ اور اسلامیہ کالج سول لائنز سے بھی جمیعت کو کمک ملتی ہے۔ یہ لڑکے شور شرابہ کر کے غائب ہوجاتے ہیں۔ چونکہ علاقائی اور لسانی کونسلز ایک حقیقت بن گئی ہیں لہذا فطری طور پر تمام بلوچ ، پشتون اور سرائیکی طلبا اپنی اپنی کونسلز کے رکن بنتے ہیں۔ پنجاب کے طلبا کی کوئی کونسل موجود نہیں ہے جبکہ پنجابی طلبا کی  تعداد شاید سب سے زیادہ ہے۔ ان میں سے اکثریت لاہور کے قریبی اضلاع سے آتی ہے ۔ پاور اور گروپ کی نفسیات ان میں بھی موجود ہوتی ہے لیکن بطور پنجابی ان کی کوئی شناخت نہیں۔ لہذا ان میں سے سیاسی اور گروہی ذہن رکھنے والے زیادہ تر طلبا جمیعت میں چلے جاتے ہیں۔

6۔ جمیعت کا منشور وہی ہے جو ایک عام پنجابی مسلمان پاکستانی کے شعور کو سب سے زیادہ پرکشش لگتا ہے۔ اس منشور کے مطابق ہم سب پاکستانی ہیں اور ہمیں باعمل مسلمان بننا چاہیے تاکہ وطن ترقی کرے اور امت کو قوت نصیب ہو۔تنظیم میں آنے کے کئی ضمنی فوائد الگ ہیں جن میں سرفہرست یہ ہے کہ جمیعت کا رکن بننے کے بعد آپ کو جمیعت سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پنجابی طالب علم چونکہ بلوچ اور پشتون کونسلز کا رکن بن ہی نہیں سکتا اور سیاسی تنظیمیں موجود نہیں ہیں تو مجبوراً جمیعت واحد آپشن بچتی ہے۔ جو طلبا گروہی اور تنظیمی شوق نہیں رکھتے اور صرف پڑھائی اور گپ بازی کرتے ہیں وہ عام دنوں میں تو محفوظ رہتے ہیں لیکن لڑائی شروع ہوتے ہی ان کی گروہی شناخت بنیادی ہوجاتی ہے۔ مثلاً آج کل پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامے چل رہے ہیں اور آپ ایک امن پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والے پشتون ، بلوچ یا پنجابی ہوں جو کسی تنظیم سے سروکار نہ رکھتا ہو تب بھی آپ کو روکا جا سکتا ہے اور پیٹا بھی جا سکتا ہے۔

7۔ ان ہنگاموں کا واحد حل یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی طلبا کی الگ کونسل قائم کی جائے تاکہ جمیعت میں جانے والے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو روکا جا سکے ۔ یونیورسٹی کی موجودہ گراؤنڈ صورتحال میں اس کے علاوہ کوئی عملی حل نہیں ہے۔ بعض احباب کے خیال میں اس سے ایک نئے متشدد دھڑے کا اضافہ ہو جائے گا لہذا اس کو پنجابی شناخت کی بجائے ترقی پسند سیاسی منشور کا حامل ہونا چاہیے اور این ایس ایف جیسی کسی طلبا تنظیم کو متحرک بنانا چاہیے۔ میں اس کا مخالف نہیں لیکن میرے خیال میں یہ یوٹوپیائی ہے اور کیمپس کی موجودہ صورتحال میں اس تجویز کا موثر ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ البتہ پنجاب کونسل بننے سے تشدد کم ہوگا کیونکہ موجودہ لڑائیوں کی نوعیت یہ ہے کہ جمیعت اپنا دبدبہ بحال رکھنے کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے کارکن کو شمولیت کے وقت ہی تنظیمی ورثے کے طور پر جاری جنگ کا حصہ بننا پڑتا ہے۔جب یہ کارکن جمیعت کا حصہ ہی نہیں بنے گا تو ابتدائی طور پر یہ لڑائیاں نہایت کم ہو جائیں گی کیونکہ جمیعت کی نفری میں واضح  کمی آ جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

8۔ پنجاب یونیورسٹی کی کلچرل زندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔کیمپس اور ہاسٹل میں مثبت سرگرمیوں کا شدید فقدان ہے۔ جمیعت کی تبلیغ اور لسانی گروہوں کے اکٹھ کے علاوہ کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اس طرف خاص محنت کی ضرورت ہے۔ اسپورٹس ، سیمینارز ، علمی وتحقیقی سرگرمیوں سمیت کئی ایسے آپشن کھلے ہیں جن پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ایف سی کالج میں کئی سال گزارنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ وہاں کی پائیدار کلچرل زندگی کی وجہ سے یہ جھگڑے کتنے کم رہ جاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں آزاد فضا قائم کی جائے۔ یونیورسٹی خود اپنا ضابطہ اخلاق طے کرے اور کسی گروہ کو اپنی اخلاقیات تھونپنے کا حق نہ ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply