ہندوتوا سیاست کی ایک اور جیت! ۔۔عابد عبدالرحمٰن

 سال قبل پونہ کے قریب بھیما ندی کے کنارے واقع کورے گاؤں میں پیشوا باجی راؤ دوم اور انگریزوں کے درمیان ایک مختصر جنگ ہوئی تھی۔ جس میں اول تو پیشوا کی افواج نے پیش قدمی کرتے ہوئے انگریز افواج کی پوزیشنز پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کے کئی فوجیوں اور ایک انگریز افسر کوقتل کردیا تھا۔ لیکن بعد میں انگریزی فوج نے پیشوا کی افواج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا دونوں طرف ہلاکتیں ہوئی تھیں لیکن انگریز فوج کو ایک بڑی کمک ملنے کی خبر سن پیشوا نے اپنی افواج واپس بلالی تھیں اور کوچ کرگیا تھا۔ اس جنگ میں انگریزوں کی فوج میں مہار مسلم مراٹھا اور راجپوت وغیرہ سپاہی شامل تھے اسی طرح پیشوا کی فوج میں مسلم مراٹھا اور گوساوی سپاہی شامل تھے(وکی پیڈیا)یہ جنگ دراصل مذہب کی یا ذات پات کی بنیاد پر کئے جانے والے مظالم کے خلاف جنگ نہیں تھی بلکہ انگریز بنام ایسٹ انڈیا کمپنی کے نوآبادیاتی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف پیشوا کی دفاعی جنگ تھی اور وہ بھی بے نتیجہ رہی بلکہ اس میں پیشوا کا پلڑا بھاری رہا لیکن اس جنگ نے انگریزوں کی جیت کی راہیں کھول دیں اور آخر کار پیشوانے پینشن اور رہائش کے بدلے انگریزوں کی غلامی قبول کر لی۔

یعنی یہ جنگ پیشوائی کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، کہا جاتا ہے کہ پیشوا برہمن تھے اور ان کے راج میں شودروں اور دلتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا، ان کو گلے میں ہانڈی لٹکانی ہوتی تھی تاکہ وہ اسی میں تھوکیں ان کا تھوک زمین پر نہ گرے، اسی طرح انہیں اپنی کمر میں جھاڑو باندھنی پڑتی تھی تاکہ ان کے قدموں کے نشان بھی باقی نہ رہیں وغیرہ وغیرہ۔ انگریزوں نے انہیں فوج میں بھرتی کیااور پیشوا کے برخلاف اگر برابری کا حق نہیں بھی دیا تو کم ازکم مذکورہ غیر انسانی سلوک ان کے ساتھ نہیں ہونے دیا شاید اسی لئے دلت اس جنگ میں پیشوا کی ہار کا جشن مناتے ہیں ۔کورے گاؤں میں انگریزوں کے ذریعہ تعمیر کردہ اس جنگ کی یادگار پر جاکر پھول چڑھانے کا رواج ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈ کر کے ذریعہ ۱۹۲۷ سے شروع ہوا جو آج تک ہوتا رہا ہے۔ابھی تک اس پر کوئی واویلا نہیں مچااور نہ ہی کوئی فساد ہوا۔ ہمیں تو پتہ بھی نہیں تھا کہ ایسا ہوتا ہے لیکن اس سال اس موقع پر ہوئے فساد کی وجہ سے یہ معلوم ہوا۔ جو کچھ کورے گاؤں میں ہوا وہ دراصل ہندوتوا سیاست یا مجوزہ ہندوراشٹر کے منصوبہ بندوں کا کھیل ہے۔

ہندوتوا سیاست کی بنیاد دراصل منافرت پر ہے جس کے لئے کوئی حقیقی یا پھر خیالی دشمن لازم ہے جس سے ڈرا کراور اس کے خلاف منافرت پھیلا کر عوام کو اکسا یا جائے اور اپنا الو سیدھا کیا جائے۔ اورآزادی کے پہلے ہی سے اس خیالی دشمن کے لئے مسلمان منتخب کئے گئے تھے جن کے خلاف خوب خوب نفرت پھیلائی گئی ملک کے چپے چپے میں اسے پہنچا یا گیا اور ہر ہر ہندو کو مسلم منافرت کی گھٹی پلا پلا کر ان کا دشمن بنا دیا گیا اور اس طرح مسلمانوں کو سماجی طور پر شودر بنا کر رکھ دئے گئے اور ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کے خلاف بولنے والے غیر مسلموں کو بھی ہندو دشمن ملک دشمن اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر ہندو سوسائٹی سے الگ کر دیاجا رہا ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ ہندو راشٹر یا ہندوتوا کی اس سیاست میں ابتک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہوا وہ دلتوں اور ہندوؤں کی دوسری نچلی ذاتیوں کو ساتھ ملا کر کیا گیا گویا ایک تیر سے دوشکار کئے گئے ایک تویہ کہ مسلمانوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ان کے خلاف پورا ملک اور ہندوؤں کی ہر جاتی ایک ہے اور دوسرے یہ کہ دلتوں اور نچلی جاتیوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ بھی اسی ’یونائیٹڈہندو قوم ‘ کا اٹوٹ انگ ہیں مسلمان جس کے دشمن ہیں ۔اور اس طرح مسلمانوں کو سماجی طور پر شودر اور سیاسی طور پر اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا۔

حالیہ گجرات انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی کا مسلمانوں کی بات نہ کرنا اسکی واضح مثال ہے اب شاید ہندوتوا سیاست کے اعلیٰ دماغوں کو فکر لاحق ہو گئی ہے کہ جب مسلمان بے تعلق بے اثر اور اچھوت کردیے گئے تو پھر ان سے ہندوؤں کے دشمن کا رول کیسے ادا کروایا جاسکے گا ؟ اک بے اثر دشمن کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت ہندوؤں کو مکمل طور پرمتحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی یعنی اب مسلمانوں کے علاوہ کسی نئے دشمن کی اشد ضرورت ہے۔ سو اسی دشمن کی تیاری میں ان لوگوں کو ٹارگیٹ کر نے کی کوشش کی جارہی ہے جو پہلے ہی سے ہندو مذہب میں ناپاک تصور کئے جاتے ہیں اور جن کے ساتھ تاریخی اعتبار سے بھی بھید بھاؤ ہوتا رہا ہے اور اب بھی ان لوگوں کو مسلمانوں کی طرح مختلف تعصب اور سماجی مظالم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن ریزرویشن اور ایٹروسٹی ایکٹ نے انہیں قانونی طور پر سماجی معاشی اور سیاسی تحفظ فراہم کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کو مسلمانوں کی طرح بے اثر کردینا تقریباً تقریباً ناممکن ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انہیں یہ ریزرویشن بھی دراصل اس لئے دیا گیا تھاتاکہ وہ اپنی نچلی جاتی کوقبول کر کے ہندو ورن ویوستھا میں بنے رہیں اس سے بھاگنے نہ پائیں ، پھر بھی انہیں ان کی اوقات بتانے کے لئے وقفہ وقفہ سے ریزرویشن کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے شاید اس لئے کہ اعلیٰ جاتیوں اور کم مراعات یافتہ طبقوں یا او بی سی کو ان کے خلاف اکسا کر متحرک کیا جاسکے جس کے خلاف یہ لوگ بھی اٹھیں اور نفرت کا نیا چکر شروع ہو جائے۔ بھیما کورے گاؤں میں اسی لئے فساد برپا کیا گیا اور پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہندوتوا سیاست کے علمبرداروں کی منشا کے عین مطابق ہوا۔ اور مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی طور پر بے اثر کر دینے کے بعد یہ ہندوتوا سیاست کی دوسرے پڑاؤ کی طرف کامیاب پیش قدمی ہے۔ دلتوں نے اس کے خلاف کوئی موثر حکمت عملی بنا کر جدوجہدکر نی چاہئے تاکہ ہندوتوا سیاست کے علمبردار انہیں اپنے لئے نہ استعمال کر سکیں ۔ ہم مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں دلتوں کی حمایت کریں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ یہ حمایت اتنی پرشور بھی نہ ہو کہ سازشی اس معاملہ کو تیسرا رخ دے کر مزید فائدہ اٹھا لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply