گریٹ گیم اور پشتونوں کی سیاسی بدقسمتی/عارف خٹک

آپ نے تواتر کیساتھ گریٹ گیم کا نام سنا ہوگا،گریٹ گیم ایک سیاسی اور سفارتی جنگ تھی جو اٹھارویں صدی سے لیکر انیس اور بیس ویں  صدی تک جاری رہی اور ایک شکل میں اب بھی ہے۔ یہ جنگ سلطنت روس اور سلطنت برطانیہ کے بیچ عروج پر تھی۔ یہ ان ایمپائر کی ہندوستان، افغانستان، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں پر اپنا اثر و رسوخ  بڑھانے کی بدترین کوشش تھی۔ اسی تناظر میں بالآخر آٹھارہ سو تہتر میں افغانستان کو بفر اسٹیٹ کی حیثیت حاصل ہوئی اور برطانیہ نے بظاہر یہ کھیل جیت لیا۔

ماڈرن ایج کا سورج طلوع ہُوا تو لوگوں کی قسمتوں کا فیصلہ ہونے لگا۔ ایک طرف سے بیرسٹر گاندھی اور بیرسٹر جناح اپنے فیصلے خود کرنے لگے اور روسی خطے کے لوگ زبان و ثقافت کیوجہ سے اپنے فیصلوں میں بااختیار تھے۔ افغانستان کا  بادشاہ اپنے فیصلوں میں آزاد تھا۔ سب آزادی یا خودمختاری کی تحاریک چلانے لگے۔ اس حوالے سے باقی اقوام کی مشکل حل ہوئی، مگر پشتون یہاں بے یار و مددگار رہے کیونکہ اس وقت پشتونوں کا مقدمہ لڑنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔
بدقسمتی یہاں بھی پشتونوں کا مقدر ٹھہری کہ پشتونوں کے پاس ایسی کوئی پڑھی لکھی سیاسی قدآور شخصیت نہیں تھی جو   افغانستان و موجودہ پاکستان کے پشتونوں کیلئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کرتی اور   جو کم از کم ان کیساتھ بیٹھ کر پشتونوں کے مقدر کا فیصلہ کرتی۔

تین شخصیات جو اس وقت منظر عام پر تھیں۔ فقیر ایپی جس کے پاس صرف انگریز کے خلاف لڑنے کا تجربہ تھا۔ خوشحال کاکاجی، جو کٹر کمیونسٹ تھے مگر ان کا جھکاؤ ہمشہ روس اور سلطنت برطانیہ سے آزادی کی تحاریک چلانے والے مجاہدین تک محدود تھا جو کرک سے باہر ہندوستان کا سفر بھی نہ کر پائے تھے اور تیسری شخصیت جناب خان عبدالغفار خان عرف باچا خان بابا تھے جو مڈل پاس تھے اور ایک بہترین خدائی خدمتگار تھے۔ باچا خان بابا نے پشتونوں کیلئے تعلیمی میدان میں جگہ بنانے پر بہت زور دیا۔ پشتون ولی کے نام پر کالے قوانین کی شدید مخالفت کی اور پشتونوں کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کی  سفارشات میں وہ پیش پیش رہے مگر وہ سیاسی طور پر بالکل نابلد رہے اور گاندھی آخری وقت تک ان کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتا رہا اور معصومیت اور نیک نیتی کیساتھ وہ استعمال ہوتے رہے۔

بیرسٹر جناح اور بیرسٹر گاندھی جیسی  دو مضبوط شخصیات کے ہوتے ہوئے پشتون قوم کی نمائندگی بہت مشکل تھی کیونکہ ان دونوں کے سامنے “آزاد پختونستان” کے مقدمے کیلئے مکمل سیاسی فہم، ادراک اور تاریخ سے مکمل آگاہی کی بہت ضرورت تھی جو بدقسمتی سے کسی پشتون رہنماء بشمول باچا خان بابا کے پاس بھی نہیں تھی۔

باچا خان بابا کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں تھا ورنہ کسی بھی تاریخی دستاویز  کے ذریعے یہ ثابت کرکے دکھایا جائے کہ باچاخان نے کہیں کوئی اسٹیٹمنٹ دی ہو یا کوئی ایسی تاریخی دستاویز  ریکارڈ پر موجود ہو جس میں انھوں نے صاف طور پر لکھا ہو کہ انگریز کے جانے کے بعد پشتونوں کو افغانستان کیساتھ الحاق کرنا چاہیے یا پاکستان کیساتھ رہنا ہے یا پشتونوں کیلئے ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ تاریخ اس بارے میں مکمل خاموش ہے۔ مگر موجودہ کچھ عوامل روایتی جھوٹ و پروپیگنڈے کی آڑ میں یہ بات مسلسل باور کروار ہے ہیں  کہ باچا خان نے پشتونوں کیلئے ایک الگ وطن “آزاد پختونستان” کا مطالبہ کیا تھا۔

اس وقت باچا خان بابا کے پیروکار بھی شدید جذباتی قسم کے کارکن تھے جو زیادہ تر باچا خان بابا کی  جیل یاترا کو سیاسی طور پر  کیش کرنے کی  تگ ودود میں مزید وقت ضائع کرتے تھے۔ “زندہ باد و مردہ باد” کے ان نعروں اور سیاسی عدم بصیرت اور تحریک کی  صحیح سمت نہ ہونے کیوجہ سے بیرسٹر جناح اور بیرسٹر گاندھی یہ مقدمہ جیت گئے بالآخر سلطنت برطانیہ کو یہ ماننا پڑا کہ پاکستان اور ہندوستان دو الگ الگ  تسلیم شدہ  ممالک ہیں۔ سیاسی غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ جب دونوں ممالک کا فیصلہ ہوچکا تب انھوں نے بنوں جرگہ بلا کر  مظلوم بننے کی ایک آخری کوشش کی۔ مگر آزاد پختونستان یا پشتونوں کے مستقبل کے تعین پر کوئی ختمی بات نہیں ہوئی بلکہ اس جرگے میں یہ سوال فقیر ایپی نے باچا خان بابا سے پوچھا تھا کہ انگریز نے پاکستان کو پشتونوں پر مسلط کردیا جبکہ پشتونوں کو ایک الگ وطن کی ضرورت ہے اس حوالے سے آپ کے پاس اور کوئی منصوبہ ہے؟ مگر باچا خان بابا اس بات پر بھی خاموش رہے۔
میں یہ تشنہ طلب سوالات تاریخ کے طالب علموں کیلئے چھوڑ کر جارہا ہوں کہ وہ ان سوالات کا کھوج لگائیں۔
گریٹ گیم کے  عروج پر باچا خان کا واضح موقف کیا تھا؟۔ کیا وہ افغانستان میں شامل ہونا چاہتے تھے؟
کیا وہ گریٹر افغانستان کے حامی تھے؟
“آزاد پختونستان” کیلئے کس کی کیا کوششیں تھیں اور اس میں باچا خان بابا کا کتنا کردار تھا؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے امید ہے کوئی باہمت اور سنجیدہ پشتون طالب علم ان سوالات کے جوابات ڈھونڈ لے گا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply