سوشل میڈیا اور سماج

حاضرین گرامی، صاحب صدر، ناظرین اور قارئین سب کو میرا سلام پہنچے۔

میں ممنون ہوں ثاقب بھائی کا کہ بالآخر انھوں نے مجھے بولنے کا موقع دیا ہے اور پچھلی سیک کانفرنس کی طرح مجھے معلق نہی رکھا۔ بھائیو، اور خواتین؛ محترم عمران خان اور الطاف بھائی کی طرح مجھے بھی بچپن ہی سے قوم سے خطاب کا بہت شوق تھا۔ اگرچہ میرا رزق ہی وکالت، یعنی بولنے سے وابستہ ہے، لیکن یوں براہ راست قوم سے خطاب کا یہ موقع پہلی بار ملا ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ میری تمام زبانی اور دماغی لغزشوں سے درگزر فرمائیے گا۔

صاحبو، میرے لیے ٹک کر بیٹھنا اور ٹک کر بولنا زرا مشکل ہوتا ہے، اسی لیے میرے قوم سے اس خطاب کا عنوان بھی مکالمہ ہے۔ ایک تو اس عنوان کی وجہ سے کسی ایک ہی موضوع پر بولنے کی پابندی نہیں رہتی، اور پھر دوسرا میری ویب سائیٹ کی مشہوری بھی ہو گی۔ آپ اب تک عاصم بھائی اور عظیم عثمانی جیسے دانشوروں کی تقاریر سن چکے ہیں اور ابھی کچھ دیر میں فرنود عالم ، عامر خاکوانی اور استاذی رعایت اللہ فاروقی کو سنیں گے، روٹی شوٹی کھا کے۔ آپ ایسے میں شاید سوچ رہے ہوں گے کہ پندرہ سو میں روٹی مہنگی پڑی یا تقریریں۔ تو میری یہ تقریر آپ “پھکی” کے طور پر قبول کیجیے کہ اتنی دانشوری اور روٹی ہضم ہونے میں مدد دے گی۔

دوستو، ایک شاگرد کیلیے بہت ہی فخر کا مقام ہوتا ہے، جب اسے اس کے استاد کے برابر جگہ دی جائے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ آج میں اپنے ایک سے زیادہ اساتذہ کے برابر بٹھایا گیا ہوں۔ پروفیسر ہمایوں احسان میرے قانون کے استاد ہیں جن سے پاکستان کالج آف لا میں میں نے ایسی تربیت پائی کہ آج ایک برٹش لا فرم کا پرنسپل ہوں۔ اور میرے دوسرے استاد محترم وجاھت مسعود تشریف فرما ہیں، جو مجھے باقاعدہ لکھنے کی طرف لائے اور مجھے بطور ایک لکھاری شناخت دی۔ اگر میں ان دونوں حیثیتوں میں کچھ کامیابی سمیٹ سکا ہوں تو اللہ کے شکر کہ بعد میں ان دو اور ان جیسے دیگر اساتذہ کا ممنون ہوں۔

بی اے کرنے کے بعد جب میں اپنے عزیز دوست عاصم بٹ کے ساتھ پاکستان لا کالج میں ہمایوں صاحب کے سامنے بیٹھا تو اپنے تئیں یوں ہی بیٹھا کہ ان پہ احسان کر رھا ہوں ان کے کالج میں داخلہ لے کر۔ اپنے بے بہا مطالعے، اپنے فنون اور بی اے کی ڈگری پر مجھے اتنا ناز تھا کہ

کودا یوں تیرے کالج میں کوئی دھم سے نا ہو گا

مگر اگلے آدھے گھنٹے میں وہ تمام غرور وہیں بہ گیا جہاں بہنا چاہیے تھا۔ ایک مفکرانہ چہرے اور تیز نظر سے گھورتے اور اپنی، اللہ قائم رکھے، سدا بہار زلفوں کو سلجھاتے ہمایوں صاحب بولے، نمبر تمھارے کم کیوں ہیں؟ عرض کی، جی بس زرا ایکسٹرا کیریکولر میں زیادہ تھا۔ اچھا، مثلا؟ جی شاعری کرتا ہوں۔ بولے وہ تو سولہ کروڑ میں سے اٹھارہ کروڑ پاکستانی کرتے ہیں۔ میں جو کلام کی فرمائش کا منتظر تھا کچھ سٹپٹایا۔ جی بس کتابیں بہت پڑھتا ہوں۔ اس پر پندرہ ایسی کتابوں کے بارے میں پوچھا جنکا نام بھی کبھی نا سنا تھا۔ بس پھر اس کے بعد میں اپنے ایک ایک فن کو انکی خدمت میں پیش کرتا رھا اور یہ اسکے ساتھ وہی کرتے رہے تو قلفی کھا کر تیلے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے عاصم بٹ کے مشورے کے برعکس، ان ہی کے زیر سایہ پڑھا اور سیکھا۔

قریب سال بعد ایک دن کسی ترنگ میں ہمایوں صاحب نے فرمایا کہ جب سٹوڈنٹ میرے پاس آتے ہیں تو ایک توپ بن کر آتے ہیں، خود کو عقل کل سمجھتے ہوے، اپنے علم پر مغرور اور لاء کو ایک وقت گزاری کی ڈگری سمجھ کر۔ مگر میں انکا ہیم برگر بناتا ہوں۔ ہیم برگر کھانے میں بہت مزیدار ہوتا ہے(بھئی لفظ ہیم سے بدکیے گا مت، ہیم حلال گوشت کا بھی بن جاتا ہے)۔ تو کہنے لگے کہ اس برگر کے بنانے سے قبل اس کے گوشت کو اچھی طرح کوٹا جاتا ہے، ریشے الگ الگ ہو جاتے ہیں اور پھر اس کی وہ ٹکیا بنتی ہے جو ذائقے میں لاجواب ہوتی ہے۔ اسی طرح، اپنے کنویں کے مینڈک، سٹوڈنٹ کا علمی غرور جب تک ریشہ ریشہ نا ہو جائے، اس کا مزیدار پراڈکٹ نہیں بن سکتا۔ میں اب بھی اگر خود پہ ناز کروں یا غرور محسوس ہو تو ہمایوں صاحب کو یاد کر لیتا ہوں، اللہ شفا دیتا ہے۔

حاضرین گرامی، پچھلی دہائی اور خصوصا پچھلے چار پانچ سال میں سوشل میڈیا فقط وقت گزاری یا فیملی کلب نہیں رہ گیا۔ تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی نے اسے اس رفتار سے ہماری زندگیوں کا حصہ بنایا ہے کہ بعض اوقات زندگی بھی پیچھے رہ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا نے بونیر یا چمن یا راجن پور میں بیٹھے ہوے ایک شخص کو بھی اسی طرح متاثر کیا ہے جیسے لندن ، یا لاہور میں بیٹھے ہوے ایک شخص کو۔ اب ایک مناسب قیمت کا سمارٹ فون پکڑے ہوے ہر شخص ، بیک وقت لوکل بھی ہے اور گلوبل بھی۔ مقامی بھی اور عالمی بھی۔ امیر ہو یا غریب، طالب علم لمز کا ہو یا مدرسہ حقانیہ کا، کوئی سات پردوں میں چھپی خاتون ہو یا بیکن ہاوس کی ماڈرن طالبہ، اب ہم سب کے پاس ایک یکساں فورم ہے، ایک یکساں میڈیم ہے جس کی بنا پر ہم اپنی سوچ بناتے ہیں، اپنے خیالات کا ابلاغ کرتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اہم میڈیم بیک وقت فائدہ مند بھی ہے اور خطرناک بھی۔ آپ اسے مثبت سوچ سازی کیلیے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور منفی کیلیے بھی۔ وہ باتیں جو بیویاں شوہروں سے سرگوشی میں کرتی تھیں، اب والز پر غیر مردوں سے بھی ہو جاتی ہیں۔ وہ مولوی حضرات جو کبھی تصویر حرام سمجھتے تھے، اب ہر لڑکی کو کہتے ہیں، تصویر دکھائیں ورنہ ضرور آپ مولوی عبدلغفور ہوں گے۔ وہ طبقہ جو پاکستان میں اپنے خیالات کا پرچار فقط شراب کی محفل میں کرتا تھا، اب شراب پی کر سٹیٹس لکھ کر کرتا ہے۔ وہ تفرقہ جو مسلکی مدارس میں سنایا جاتا تھا، وہ اب ایک دوسرے کی وال پر انڈیلا جاتا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے ایسے اقدام ضرور اٹھائے جائیں جو اس میڈیم کو بندر کے ہاتھ آئے استرا بننے سے بچائیں۔

مگر اسی سوشل میڈیا کی بدولت ہے کہ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ لوگ نفرت سے، دھڑے بازیوں سے، تعصبات سے تنگ آ کر مکالمہ کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اب سندھ میں بیٹھا میرا بھائی پنجاب کے بھائی سے، اور پشتون بہن، بلوچ بہن سے جڑتی ہے، یہ قریب آتے ہیں، نفرت دور کر کے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو، پنجابی اور بلوچ، مولوی اور مسٹر کی تقسیم سے تنگ آئے ہوے لوگ محبت اور امن کی بات پہ مائل ہوتے ہیں، مسلئہ اقلیت کا ہو یا صنفی تفاوت کا، دہشت گردی کا ہو یا سیاست گردی کا، لوگ ایک دوسرے کا موقف سمجھ کر اچھے موقف کو اپناتے بھی ہیں۔ ہمارا مین سٹریم میڈیا جس ریاستی بیانیے کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتا ہے، سوشل میڈیا اسے مسترد کر دیتا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں موجود ان ریسٹ ایک اہم مسلئہ ہے۔ عامر خاکوانی بھائی اور وجاھت ساب شاید تائید کریں کہ پورے پاکستان میں ہمارے بلوچ بھائی ہیں جو اس میڈیم پر بھی ساتھ نہیں جڑتے۔ اس لیے کہ ہم انکو سنے بغیر ان پر ریاستی بیانیہ تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وقت کے ساتھ مکالمہ کی روایت مظبوط ہو گی اور وہ بھی جڑیں گے، کچھ اپنی سمجھائیں گے اور کچھ ہم کو سمجھیں گے۔

دوستو یہ سوشل میڈیا اس وقت دو بڑے خطرات کا سامنا کر رھا ہے۔ ایک تو اس کا عوامی پن خطرے میں ہے۔ سوشل میڈیا ایک عوامی فورم ہے، جو کارپوریٹ ورڈ کی ایک متوازی دنیا بنی۔ جہاں ہم نے علم، خبر اور تعلقات پر کارپوریٹ ورڈ کی اجارہ داری کو چیلنج کیا۔ جہاں ہم نے وہ دیکھنے اور پڑھنے سے انکار کیا جو کارپوریٹ ورلڈ اور ریاست ہمکو پڑھانا دکھانا چاہتی تھی، یہ عوام کا اپنا بنایا ہوا سماج تھا۔ مگر اب وہ لوگ اس پر بھی نظر ڈال رہے ہیں۔ اس میڈیم پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر انویسٹمنٹ ہو رہی ہے، بیانئیے پروان چڑھانے کی، سوچ سکھانے کی، کنٹرول بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس وقت ہم کو ضرورت ہے کہ ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنائیں۔ آپ لبرل ہیں یا سوشلسٹ، آپ مذہبی ہیں یا غیر مذہبی، اپنے اس عوامی پن کو کھونے سے بچائیے۔

دوسرا اس میڈیا نے مجھ جیسے بہت سے دانشور بنا دیے ہیں۔ ہر شخص جو اردو میں لکھ سکتا ہے، مقبول نظریات اور موقف کے برعکس بات کرتا ہے، وہ دانشور ہے۔ یہاں مدرسہ کے درجہ ثالث کا طالب علم ڈاکٹر طفیل ہاشمی کے علم پر تنقید لکھتا ہے، زنانہ لوچ کے ساتھ پروگرام کرتے کرتے کوئی امام حسین (ر) کو عدالت لے جانا چاہتا ہے، کسی کو ہوا میں پھیلی آلودگی میں بھی امریکی سازش نظر آتی ہے، کوئی ہر تیسری تحریر میں بلوچستان کا ذکر اس معروف پھپھو کی طرح کرتا ہے جو ہر شادی پہ روٹھ جاتی ہے۔ یہ دانشور سستی شہرت کے عیوض مایوسیاں پھیلاتے ہیں، جہل کے زور پر علم کو تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں، کسی کا انڈیا بہت اچھا ہے تو کسی کی پاکستانی فوج فرشتوں کی ہے۔ یہ چن چن کر آپ کے سامنے وہ مسائل لاتے ہیں جو حقیقی سے زیادہ فقط خیالی اور عملی سے زیادہ باتونی ہیں۔ ایسے میں ان دانشوروں سے اپنی چوپال اور ذہن کو بچاتے ہوے ہمیں اس مثبت کی طرف بھی نظر رکھنی ہے جو ہمارے اردگرد ہے۔ میری خواہش ہے کہ عارف خٹک، عامر خاکوانی، وجاھت مسعود جیسے کچھ اور پروفیسر ہمایوں احسان اس میڈیم پر موجود ہوں، جو ان تازہ تازہ گرجوئٹس کے علم، غرور اور شوبازیوں کا ہیم برگر بنا دیں۔

میں ثاقب کو مبارک دیتا ہوں کہ وہ اس میڈیم کو عوامی بنائے رکھنے کی کوشش کر رھا ہے، لوگوں کو جوڑ رھا ہے اور اپنے حصے کا چراغ جلا رھا ہے۔ دوستو، ہمارے گرد بلاشبہ تاریکیاں ہیں، اور گہری ہیں۔ مگر ان ہی تاریکیوں میں ٹمٹماتے چراغ بھی ہیں۔ بجائے مایوسیوں کا حصہ بننے کے آئیے دیپ بن جائیں، جو کسی نا کسی حد تک روشنی کرتا چلا جائے۔ اس لیے کہ جو زندگی دیپ نا بن سکے، وہ فقط تاریکی میں اضافہ ہوتی ہے۔

میں آپ سب کا بہت ممنون ہوں کہ اتنے علما و ذہین لوگوں میں آپ نے مجھے بھی سنا۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے آپکی بھوک چمک گئی ہو گی اور پندرہ سو کم دکھ رھا ہو گا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مجھ سے سوال بھی ہوں گے۔ میری عرض ہے کہ مجھ سے ایسا کوئی سوال نا کیجیے گا جو میری دانش کا پول کھول دے، ہو سکتا ہے کہ تقریر میں نے فرنود عالم سے لکھوائی ہو۔ شکریہ

Advertisements
julia rana solicitors

(سیک سیمینار 2016 کے موقع پر آن لائن پڑھی گئی تقریر کا متن)

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply