کشمیرمیں سارتر اورسعیدکی تلاش

مطالعات و مشاہدات: کشمیر میں سارتر اورسعید کی تلاش
محمد ہاشم خان
فردوس گمشدہ یعنی جموں و کشمیر کے موجودہ اور ’غیر مرئی‘ حالات پر خامہ فرسائی کرنے سے قبل اسد ریختہ جاں مرحوم غالب ؔ کو دو منٹ کے لئے یاد کر لیتے ہیں۔غالب ؔنے کہا تھا
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزء میں کل۔۔۔۔۔۔۔۔کھیل بچوں کا ہوا دیدہء بینا نہ ہوا
یوں تو غالب نے یہ شعر وحدت الشہود کے سلسلے میں نظم کیا تھا لیکن جیسا کہ اہل زبان جانتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں امکانات و ایہام کے دروازے وا ہیں اور یہ انکی شاعری کا ممتاز خاصہ بھی ہے اس لئے اگر ہم اس کا مفہوم مطلق چشم عارف سے لیں،یعنی خواہ وہ چشم عارف کسی قائد اور دانشور کی ہو،حکیم یافلسفی کی ہو یا رہینِ ستم ہائے روزگار ادیب و شاعر کی تو بھی یہ مبنی بر غلط نہ ہوگا۔غالب ادب میں کسی پروپیگنڈے کے قائل نہیں ہیں وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قطرہ میں قطرہ اور جزء میں جزء دیکھنے والی آنکھ کو دیدہء بینا نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ یہ تو بچوں کا کھیل ہے اور ایک طرح سے دیدہء بینا کے ساتھ ظلم ہے۔چشم عارف یہ ہے کہ اسے قطرہ میں دجلہ دکھائی دے اور لوگوں کو دکھائے۔ غالب کے دجلہ سے ہم یہاں زندگی اور نظام موجودات مراد لیتے ہیں لہٰذا چشم عارف یہ ہے کہ وہ بقول فیضؔ عوام کو نہ صرف ’ گردو پیش کے مضطرب قطروں میں زندگی کے دجلہ کا مشاہدہ کرائے ‘ بلکہ انسانی اور معاشرتی زندگی کے خدو خال کی تزئین و تشکیل میں اہم کردار ادا کرے نیزحال ومستقبل کے رموز و نکات سے واقف کرائے۔مندرجہ بالا سطور کے ذریعہ جو کہ کچھ طویل ہو گئیں ہیں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہندستانی دانشوروں کا دجلہ اور فرات سب کچھ جموں وکشمیر ہے اور دس بائی دس کے اے سی روم میں بیٹھ کر ہندستانی عوام کو قطرہ میں دجلہ دکھا رہے ہیں اور کشمیریوں کو دجلہ کی موجیں اور طغیانیاں۔
یہ ہمارا عجیب المیہ ہے کہ جب بھی ہم مسئلہ کشمیر کے تعلق سے سوچتے ہیں بالکل دانشوروں کی طرح سوچتے ہیں،بیشتر اوقات ان دانشوروں کی طرح جو،بقول ملان کندر،ا زندگی اور اسکے مقام کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں اور جنہیں اب عرف عام میں بڑ ے پیار سے ’ڈائنا سور‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔جموں و کشمیر کے مقامی دانشوروں میں سے بیشتر غیر محفوظ حالات کی وجہ سے بیرون ممالک میں مقیم ہیں اور جو کچھ بچ گئے ہیں انہوں نے ایک قابل فہم اور مراجعت کی حد تک سرکاری اداروں سے سمجھوتہ کر لیا ہے ۔قابل فہم اس لئے کہ انکے پاس بھی اپنے ’تضادات‘ کو درست ثابت کرنے کا ایک خوبصورت جواز موجود ہے ۔یہ حکوت ہند کے سامنے وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے کوئی اور نسخہء کیمیا پیش کرتے ہیں اورکشمیری عوام کو فقط آزادیء فردا کا سراب دکھا رہے ہیں اور جنہوں نے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ اپنی ایک الگ روش اختیار کی وہ روپوشی اور گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔وہ کشمیر کی اصل زندگی اور اس میں مضطرب مدو جزرکو دور سے دیکھ رہے ہیں اور اب نئی نسل کے سامنے یہ غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ نئی نسل کے سامنے مسئلہ کشمیر بھی غیر متعلق ہوتا جا رہا ہے،یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا۔نئی نسل کا کشمیر کے تعلق سے تصور بہت واضح ہے۔نوجوان نسل میں بیشترآزادی چاہتے ہیں ۔اب یہ ممکن ہے یا نہیں،اسکے بارے میں رائیں مختلف ہیں لیکن وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ آزادی تشدد کے راستے نہیں آئے گی کیونکہ ایسی صورت میں وہ آزادی دیرپا ثابت نہیں ہوگی۔۔یہ نئی نسل تعلیم یافتہ ہے جو تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے نہ حق میں ہے اور نہ ہی خلاف۔ فی الواقع نئی نسل نے ابھی اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن امر ناتھ شرائن بورڈ قضیہ اراضی کے رد عمل میں کشمیر کے اندراٹھی تحریک کے دوران یہ پیغام انہوں نے دنیا کو دیا کہ وہ صرف آزادی چاہتے ہیں لیکن پر تشدد طریقے سے نہیں۔اب اگر 60سال بعد بھی ہندستان کشمیریوں کو اپنا ہم خیال نہیں بنا سکا اوریہ لوگ ہندستان کی طرف سے انواع و اقسام کی نعمتیں لٹائے جانے کے باوجود آزادی سے کم کسی چیز پر اکتفاء کرنے کے لئے رضامند نہیں ہیں تو اسکا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم سے کیں نہ کہیں کوئی بھاری غلطی ہوئی ہے جسے نہ تو ہم ماننے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی اسکی حقیقی تلافی کے لئے رضامند ہیں۔شیخ محمد عبداللہ جب 9اگست1953کو گرفتار کئے گئے تو اس وقت وہ جموں وکشمیر کے وزیر اعظم تھے لیکن جب1975میں آزاد کئے گئے اور زمام حکومت دوبارہ انکے ہاتھ میں آئی تو وہ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ تھے۔شیخ عبداللہ اپنی اس’ ڈی گر یڈیشن‘ پر خوش تھے لیکن عوامی سوچ بالکل مختلف تھی۔ اس سلسلے میں کشمیر کے چھوٹے بڑے تمام دانشوروں کا متفقہ خیال ہے کہ ہندستان نے شیر کشمیر شیخ محمدعبداللہ کو گرفتار کرکے ایک فاش غلطی کی تھی اور اسکے بعد جمہوریت کے نام پر جو کچھ بھی ’سوغات‘ دیا وہ ناقابل بیان ہے۔کچھ دانشور اس بات کا رونا روتے ہیں کہ انکے یہاں ایڈورڈ سعید اور ژاں پال سارتر جیسے لوگ کیوں نہیں پیدا ہوئے اور اب انہیں اروندھتی رائے میں سعید اور سارتر کی روح نظر آرہی ہے ۔یہ لوگ کبھی اس بارے میں نہیں سوچتے کہ وہ خود ایڈورڈ سعید یا سارتر کیوں نہیں بن سکتے۔درحقیقت انہوں نے کسی زمانے میں 1947سے قبل ڈوگرہ حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ کے ناگفتہ بہ ظلم و عدوان کے خلاف اپنی جنگ خود لڑی تھی اور انہیں فتح حاصل ہوئی تھی لیکن اب یہ اپنی جنگ خود لڑنا بھول چکے ہیں۔یہ کسی اور کے کندھے پر بندوق رکھ کر جنگ جیتنا چاہتے تھے اور ایسی صورت میں جو انجام ہونا تھا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔7لاکھ سے زائد ہندستانی فوج جموں و کشمیر میں خیمہ زن ہے۔Brinkmanshipکا تصور کبھی کبھی ہی کامیاب ہوتا ہے اور جب آپ کسی طاقتور ملک کے خلاف کسی خاص ملک کے اشارے پر لڑ رہے ہوں تو ایسی صورت میں اس تصور کے کامیاب ہونے کی گنجائش عموماً صفر ہوتی ہے۔اور خاص طور سے جب ایک خالص سیاسی مسئلہ کو اسلامی سیاسی مسئلہ قرار دینے لگیں تو گویا کہ آپ اسی وقت اپنی جنگ ۵۰ فیصد ہار چکے ہوتے ہیں،آپ اس وقت خود سے یہ اعتراف کر لیتے ہیں کہ آپ کے اندر اپنی جنگ خود لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔اسکی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ۔یہ بات جموں و کشمیر کے دانشوروں کو معلوم ہونا چاہئے تھا لیکن کون سے دانشور؟وہ جو یہ ماننے کے لئے بالکل تیار نہیں کہ ان سے بھی کبھی کوئی غلطی سرزد ہو سکتی تھی ۔جو اپنی ناکامی کو یہ کہہ کر جواز فراہم کرتے ہیں کہ’کیا جنگجوئیت ان سے پوچھ کر آئی تھی؟‘ حالانکہ یہ جانتے ہوئے کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو صریح دھوکہ دے رہے ہیں ۔اپنی ہر غلطی کے لئے یہ ہندستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن خود کبھی اپنا محاسبہ نہیں کرتے کہ ان سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں۔ درحقیقت انسان کی فطرت میں یہ خمیر شامل ہے کہ جب تک اسے اپنی غلطیوں کا جواز نہیں مل جاتا تب تک وہ بے چین رہتا ہے۔اپنے اندر کی اس بے چینی،اضطراب اور کرب کو ختم کرنے کے لئے ایک ایسی طاقت کو بطور جواز پیش کرنا ضروری ہو جاتا ہے جسکے جبرو تعلی کو وہ اپنی اس غلطی کی بنیادی وجہ قرار دے سکے اورپھرمطمئن ہو جائے۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھرآخر انہیں ایڈورڈ سعید اور سارتر بننے سے کن لوگوں نے روکا ہے۔بات بڑی سیدھی سی ہے کہ جب آپ ہتھیار اٹھا سکتے ہیں تو پھر سارتر اور سعید کیوں نہیں بن سکتے؟۔اس ضمن میں انکا وضاحت نامہ بہت واضح ہے۔بہر حال زندگی سے محبت کمٹمنٹ(Commitment) سے دستبرداری کے جواز فراہم کر دیتی ہے اور انکے پاس بھی ایک نہیں بلکہ بہت سارے جواز موجود ہیں جن میں سے چند بڑی وجوہات یہ ہیں کہ وہ محفوظ نہیں ہیں،ریاست میں سرگرم ہندستانی ایجنسیاں انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتیں ۔وہ انکے درپہء آزار ہو جاتی ہیں۔انکا جینا محال کر دیتی ہیں،ہندستانی اخبارات صرف’سرکاری سچ‘ پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا سچ شائع کرنے کی ان میں جراء ت و ہمت نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود اپنی حکومت کی صراحت کردہ پالیسی سے اوپر اٹھ کر بات کرنے کی قوت نہیں رکھتے وغیرہ وغیرہ ۔ ہر چند کہ انکے کچھ تحفظات مبنی بر تجربہ و حقیقت ہیں لیکن سارتر اور سعید بننے کی کوئی قیمت تو ادا کرنا ہوگی اور جموں و کشمیر کے یہ دانشور یہ قیمت ادا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں سعید اور سارتر کا ذکر خیر کرنے والے کئی دانشور حضرات سے شرف ملاقات ہوئی لیکن مجھے سعید یاسارتر کی ہلکی سی شبیہ بھی انکے اندر نظر نہیں آئی ۔
مجھے یاد ہے جموں و کشمیر کے ایک مقامی انگریزی اخبار گریٹرکشمیر نے ستمبر 2007میں ایک سیمینار منعقد کروایا تھا جس میں شہر کے ممتاز دانشور،قلم کار،مستقبل شناس سیاسی مبصرین، چندحریت پسند قائدین مثلاًشکیل احمد بخشی ،یاسین ملک،سجاد لون،صحافی،مورخ،پروفیسر اور ہونہار ریسرچ اسکالرس اور کالج و یونیورسٹی طلباء شریک ہوئے تھے۔جموں و کشمیر بینک کے چئرمین اور کانگریس پی ڈی پی حکومت کے ریاستی اقتصادی مشیر ڈاکٹر حسیب درابو نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک مقالہ پیش کیا تھا۔انہوں نے مقالہ پیش کرنے سے قبل ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ بہ حیثیت جے کے بنک چئرمین یا سرکاری مشیر برائے اقتصادی امور حاضر نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہ انکی اپنی ذاتی رائے ہے ۔انہوں نے کہا “God send us Edward Said,send him soon”۔ڈاکٹر حسیب کے اس جملے پر سیمینار تالیوں سے گونج اٹھا تھا ۔ سیمنار کے بعد کے سیشن میں اصل موضوع پرگفتگو کم ہوئی اورحسیب اور ایڈورڈ سعید دونوں کے قصیدے زیادہ پڑھے گئے ۔ اور دوسرے دن تمام اخبارات میں داکٹر حسیب کا بیان بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوا۔تاہم شرکاء سیمنار میں کسی نے ڈاکٹر حسیب سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آخر وہ خود ایڈورڈ سعید کیوں نہیں بن سکتے؟۔کس چیز نے انہیں ایڈورڈ سعید بننے سے روکا ہے کیونکہ شرکاء سیمنار اس بات سے واقف تھے کہ انہیں بھی اس سوال کا مکلف بنا یا جا سکتا ہے،یہی سوال ان سے بھی پوچھا جا سکتا ہے اور وہ یہ خوب جانتے ہیں کی سعید یا سارتر بننے کی کیا قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے ۔بیشتر دانشوروں کا یہی حال ہے۔وہ کمٹمنٹ دوسروں میں دیکھتے ہیں اور اسکے لئے انہوں نے ایک بیرومیٹر(پیمانہ) بنا رکھا ہے اور وہ یہ کہ کوئی بیرومیٹر نہیں ہے۔اگر آپ انکی دانشوری کو تسلیم کرتے ہیں تو آپ بھی دانشور نہیں تو اللہ کی زمین کشادہ ہے جسے وہ آپ کے لئے تنگ کر دینگے۔یہ وہ لوگ ہیں جو سچ بولنے سے ڈرتے ہیں،یہ وہ دانشور ہیں جو روشنی سے ڈرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو وکٹم سنڈروم (victim syndrome) سے نہ خود باہر نکل رہے ہیں اور نہ کشمیری عوام کو باہر نکال رہے ہیں۔انہیں لگ رہا ہے کہ وکٹم سنڈروم ایک اچھا بزنس ہے لیکن شائد وہ اس بات کو فراموش کر رہے ہیں کہ وکٹم سنڈروم کسی بھی پختہ سماج میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی اس میں مسئلہ کشمیر کا حل مضمر ہے۔راقم الحروف کے خیال میں ڈاکٹر حسیب سے یہ سوال پوچھا جا سکتا تھا اور میں نہیں سمجھتا کہ اسکے لئے ایجنسی کا کوئی آدمی سوال پوچھنے والے کو تنگ کرتا۔پتہ نہیں یہ دانشور اس بات کو جانتے ہیں کہ نہیں لیکن ہندستانی دانشوروں نے ہیگل کا مطالعہ کر رکھا ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ غیر مطمئن ضمیر اپنے ہی تضادات میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ایسے لوگ کہیں کے نہیں رہتے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ انکی بے اطمینانی کا تسلسل برقرار رکھا جائے پھر وہ باتوں کے سوا اورکچھ نہ کر سکیں گے۔یہی ہم کر رہے ہیں،غیر مطمئن روحوں کو بے اطمینانی کا جام پلا رہے ہیں۔
حالیہ اسمبلی انتخابات میں ریاستی عوام کی بڑھ چڑھ کر شرکت کی تشریح حسب معمول قومی میڈیا نے کشمیری عوام کی متضاد ذہنیت سے کی حالانکہ تجزیہ نگاروں کو یہ خوب معلوم تھا کہ یہ الیکشن تھا کوئی ریفرنڈم نہیں اور عوام نے بنیادی سہولیات کے حصول کے لئے ووٹ ڈالے تھے اس ضمن میں کشمیریوں میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔جو ہندستان کی حمایت کرتے ہیں وہ کھل کر کرتے ہیں اور جو آزادی چاہتے ہیں وہ’ہم کیا چاہتے ہیں:آزادی‘ کا کھلے عام نعرہ لگا رہے ہیں۔اگر ہمارے تجزیہ نگاروں کو کشمیری عوام کی متضاد ذہنیت پر اتنا ہی یقین ہے تو پھر الیکشن کا نام ریفرنڈم تبدیل کرکے چناؤ کیوں نہیں کرواتے؟ چند کشمیری دانشور کہتے ہیں کہ تضاد کشمیری عوام کی سوچ میں نہیں بلکہ حکومت ہند کے طرز عمل میں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہندستان ایک طرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جموں و کشمیر اسکا ایک’ اٹوٹ انگ‘ ہے اور دوسری طرف اسے ایک تنازعہ بھی تسلیم کرتا ہے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرتا ہے۔ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر کشمیر ہندستان کا جزء لا ینفک ہے تو پھر متنازعہ کیوں ہے اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کیوں کر رہا ہے؟ فرانز فینن نے الجزائر کی جنگ آزادی کے دوارن یورپ کے انسان پسند رویے پر طنز کرتے ہوئے لکھا تھا ’ یورپ کو اپنے حال پر چھوڑ دو کہ وہاں لوگ انسان کے موضوع پر بات کرتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن جہاں بھی انہیں انسان نظر آتا ہے اسے قتل کر دیتے ہیں‘ جموں و کشمیرکے حوالے سے ہم پر بھی شائد یہ بات لاگو ہو سکتی ہے کہ دینا کی ہم سب سے بڑی جمہوریت ہیں مگر برسوں سے ہم نے کشمیر میں جمہوریت کا گلا گھونٹ کر رکھا ہوا ہے ۔ جمہوریت ۔سرو دھرم سمبھاؤ،آزادی، مساوات،انسانی برادری،محبت،وقار،حب الوطنی جیسے خوبصورت لفظوں کے علاوہ ہمارے پاس اور کیا ہے؟
بات غالب سے شروع ہوئی تھی اس لئے انہیں پر ختم کرتے ہیں
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply