یہ تیرے پُر اسرار بندے۔

یہ تیرے پُر اسرار بندے۔

یہ غازی ، یہ تیرے پر اسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

اللہ نے جب یہ دُنیا بنائی تو اس میں باقی مخلُوقات کے ساتھ اس مخلُوق کو بھی بنایا جسے اشرفُ المخلُوقات کہتے ہیں یا آسان زبان میں انسان۔۔ایک وقت تھا جب یہ انسان اس زمین پر نیا تھا اور کسی اچھے بُرے کی تمیز نہیں رکھتا تھا۔ ایک دم وحشی۔ نہ لباس کی فکر۔نہ آس پاس کی۔ ہر قسم کی شرم سے آزاد۔ پھر وقت کے ساتھ اپنی شرم گاہوں کو پتوں سے اور بعد میں باقی چیزوں سے ڈھانپنا شُروع کیا۔۔
وقت گُزرتا گیا اور یہ سیکھتا گیا۔طرح طرح کے ادوار اس پر آئے اور یہ سیکھتا رہا۔ آخر ایک وقت ایسا آیا جب یہ ایسے دور میں داخل ہوا جو مُہزب تھا جس میں اسےاچھے بُرے کی تمیز آگئی۔
اُس میں اس نے یہ طے کیا کہ کیا چیز اچھی ہے اور کیا چیز بُری۔ شرم ۔لباس۔زبان۔تہزیب۔ہنر۔علم نہ جانے کیا کیا اس نے سیکھا۔۔
اور پھر اکیسویں صدی آئی جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔جانے کب تک۔
اگرچہ اس سے پچھلی صدی ہی میں انسان نے وہ وہ کام کیئے جو اس سے قبل خواب و خیال ہی سمجھے جاتےتھے۔مگر جو اس صدی میں ہوا اور جو ہونے جارہا ہے۔وہ پہلے کھبی نہیں ہوا تھا۔ہم نے صدیوں کا سفر دھائیوں میں طے کرنا شُروع کردیا اور دھائیوں کا سالوں یا پھر مہینوں میں۔مگر۔۔
انسان جس طرف اور جس تیزی سے بھاگ رہا ہے اس کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ صحیح سمت بھی ہے۔ کہیں ہم اپنی تباہی کے قریب سے قریب تر تو نہیں ہوتے جارہے۔ کہیں ہم اس قدر تیزی سے اپنے ہی خاتمے کا سامان تو نہیں بنتے جارہے۔اور کیا ہم واپس اُسی دور کی طرف تو نہیں جارہے جہاں سے ہمارا سفر شُروع ہوا تھا۔ بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ دُنیا کی سُپر طاقتیں ہی اس دُنیا کی طاقت ختم کرنے کا باعث بنیں گیں۔اور وہ طاقت ہے انسان۔ اور انسان کی انسانیت۔
یہ جو لالچ۔ وحشی پن۔ بےشرمی ۔بے رحمی اور بد لحاظی انسان میں آگئی ہے۔ اور دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ اس سے کہیں ہم اُس دور میں تو نہیں پہنچ جائیں گے جب اپنی شرم گاہوں کو ڈھانپنے کی بھی فکر نہ تھی۔ کہیں ہم وہی وحشی تو نہیں بن جائیں گے۔جب ہمارے لیئے انسان اور جانور کا خون اور گوشت ایک ہی جیسا ہوتا تھا۔

کہانی کو سمیٹتے ہوئے یہ کہونگا کہ چلو باقی دُنیا تو بے شرم تھی اور ہم شرم والے حیا والے ۔ باقی تو لادین اور ہم دین والے۔ پھر کیا ہوا جو اتنی شرم بھی باقی نہ رہی کہ بے شرموں کے بے شرم سے تہوار یا رسُومات کو اپناتے ہوئے زبردستی خواتین کو پھول دیتے پھریں ۔ مگرباقی بے شرموں بلکہ بے غیرتوں کی طرح تماشہ دیکھتے رہیں۔

خود کو آزاد خیال گردانیں ۔عورتوں کو برابر کے حقوق کی بات کریں مگر ویلوں کے ویلن ٹائن والے دن اُس برابری کو تیل لینے بھیج کر خُود اکیلے ہی نکل پڑیں۔ برابری تو پھر برابری ہے نا۔ اپنی عورتوں کو بھی جانے دیا کرو۔۔آخر اُن کا بھی دل ہوتا ہے۔

اور تو اور لڑکی ہو کر سوشل میڈیا پر کسی لڑکے کی پٹائی کے جھوٹے سچے قصوں کے کلپ چلائیں اور اُس میں وہ زبان استعمال کریں جو کھبی بازاری عورت بھی استعمال کرتے شرماتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ سب قابل فخر ماں باپ بھی دیکھیں گے۔

وحشی اس قدر ہوگئے کہ جب درندے معصُوموں کا نہ حق قتل عام کرتے ہیں ۔تو اُن کی تصاویر اور ویڈیو کلپس اُسی حالت میں فورا سے پہلے نیٹ۔ فیس بُک وغیرہ پر چڑھائیں ۔کہ کہیں کوئی اور پہل نہ کر جائے۔کھبی لائک اور کھبی پیسے کی خاطر۔یہ سوچھے بغیر کہ باقی دُنیا کو جو ہوگا وہ ہوگا۔اُن کے عزیز و اقارب پر کیا بیتے گی اگر کوئی اپنے پیارے کی تصویر اُس حالت میں دیکھے جو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔٫

مُضحکہ خیز بات یہ کہ اپنی زمے داری اس بات پر ختم کریں کہ ۔کمزور دل اسے نہ دیکھیں۔ارے میں کوئی بے ہُودہ سی چیز عین تمہارے دروازے پر رکھ دوں اور جب تم دروازے سے نکلو تو یہ تحریر پڑھو کہ ۔اسے نہ دیکھو۔ وہ تو پھر دروازہ ہوتا ہے شاید کھٹکھٹا کر خبر دار کردیا جائے۔ مگر اس ظالم سمارٹ فون کا کیا کیجئے کہ اُنگلی کی حرکت سے فیس بُک وغیرہ کے کتنے صفحات پلٹ ڈالے۔اور اُس میں سیکنڈ یا اُس سے بھی کم وقت لگتا ہے۔تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سب سامنے آہی جاتا ہے جو ہم نہ بھی دیکھنا چاہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ ہمیں وہ عقل و فہم عطا فرما۔جس سے ہم تیرے وہ بندے بن پائیں جس کے لیئے تُو نے ہمیں اس زمین پر اُتارا۔۔۔آمین۔۔

Facebook Comments

جانی خان
تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply