ایک تکثیری معاشرے میں مسلمان کا کردار۔۔داؤد ظفر ندیم

پوری دنیا میں ایسے مسلمان سکالر اور دانشور ابہام پھیلا رہے ہیں جو ایک اسلامی ریاست اور اس میں مسلم اور غیر مسلم طبقات اور ان کے مختلف کردار کی بات کرتے ہیں یہ لوگ عصر حاضر کے سماج، سیاست اور معیشت کو اس طریقے سے سمجھ نہیں پائے جس طریقے سے سمجھنے کی ضرورت تھی۔ ایسے میں یورپ اور امریکہ سمیت ان مسلمانوں کو ایک مخمصے کا سامنا ہے جو ایک تکثیری معاشرے میں ایک اقلیت کی زندگی گزار رہے ہیں یہ لوگ اپنے معاشروں میں ایک فعال کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں اس سوال پر انھیں کافی مسئلہ ہے۔ خاص طور پر ان مسلمانوں کو، جن کی موجودہ نسل کسی مسلم ملک سے سیاسی، معاشی یا کسی دوسری وجہ سے ترک وطن کرکے آتی ہے اور یورپ۔ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں ان تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے

دنیا میں مختلف دانشور اور سکالر ان سوالوں کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں ان میں ایک نہایت ممتاز دانشور جناب طارق رمضان ہیں جو ایک سوئس شہری ہیں اور جن کی تخلیقی زبان فرانسیسی ہے۔ انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں مگر اس مضمون میں جس کتاب کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کا نام

In The Quest for Meaning: Developing a Philosophy of Pluralism,

ہے جس کا اردو ترجمہ معنی کی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس سے پہلے ضروری ہے کہ جناب طارق رمضان کا تعارف کروایا جائے۔ طارق رمضان مشہور مسلم مفکر جناب حسن البنا کے نواسے ہیں ان کے والد سعید رمضان کو جمال عبدالناصر کے دور میں جلاوطن کیا گیا جہاں سے وہ سوئٹزلینڈ منتقل ہو گئے جہاں ستمبر 1962 میں جناب طارق رمضان کی پیدائش ہوئی۔ طارق رمضان ایک ایک طرف فلسفے اور فراسیسی ادب کی تعلیم حاصل کی تو دوسری طرف جامعہ اازہر سے اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی۔

طارق رمضان مختلف یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سر انجام دے چکے ہیں وہ مذہب اور فلسفے پر لیکچرز دیتے ہیں، وہ یورپ اور ماریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں اسلام کے روشن پہلو پر لیکچر دیتے ہیں

طارق رمضان کا اصل کام ایک تکثیری معاشرے میں مسلمانوں کے کردار کے حوالے سے ہے۔ اس کتاب میں طارق رمضان نے عام فہم انداز سے یورپی سماج میں اسلام کی فتہیم پیش کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے کچھ ایسی سچائیوں کا جائزہ لیا ہے جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں

طارق رمضان نے محبت، احترام، سچاءی، برداشت، عورت مرد تعلقات کے حوالے سے مختلف انسانی مذاہب کی تعلیمات کا جائزہ لیا ہے۔انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ تمام مذاہب بدھسٹ، یہودیت، مسیحیت، اور مسلمان ان ٹصورات کے بارے میں بہت سی مشترک روایات رکھتے ہیں انھوں نے واضح کیا ہے کہ انسانی تہذیب کا سفر ان مذاہب سے جڑا ہوا ہے اور روحانیت کی تعلیم ایک جیسی ہے۔

طارق رمضان نے تکثیری معاشرے میں مختلف مذاہب اور خیالات والے لوگوں میں باہمی احترام اور برداشت کو فروغ دینے کی بات کی ہے ۔ وہ بین المذاہب سیمینار کرواتے رہتے ہیں اور سیکولرازم اور اسلام کے باہمی تعلق پر بھی کافی کام کر چکے ہیں ۔

طارق رمضان کا کام ایک مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے دنیا ایک عالمی گاؤں کی طرح سکڑ رہی ہے یورپ اور امریکہ اب کوئی دوردراز کی دنیا نہیں رہی، اب مسلم دانشوروں کو احساس ہو رہا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مختلف مذاہب، فلسفوں اور نظریہ حیات کو ماننے والے رہ رہے ہیں۔ مسلمان علما اپنے جو اپنے مسالک کی حدود میں قید ہیں وہ ان عوامل کا جائزہ لینے سے قاصر ہیں مگر وہ مذہبی جاعتین جو مذہب کے نام پر اقتدار حاصل کرنے کی خواہشمند ہیں وہ بھی اس دنیا میں اجنبی بنتی جا رہی ہیں، ایسے میں طیب اردگان جیسے سیاسی راہنما ابھر سامنے آئے ہیں جو اس سیکولر سیاست میں راستے تلاش کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیکولرازم کے مخالف کسی باقاعدہ سیاسی نظام کے داعی نہیں وہ مہبم باتیں کرتے ہیں، خلافت یا کنٹرولڈ ڈیموکریسی، حجاب پر پابندی، اسلامی فرائض کا جبر نفاذ اور اسلامی سزاؤں کا نفاذ، جبکہ معیشت میں سود کی ہر شکل کا خاتمہ ان کے خاص ایجنڈے ہیں مگر متبادل فلسفے پر ان کا کام کافی کمزور ہے۔علامہ اسد اور مولنا حمید الدین نے تکثیری معاشرے کے حوالے سے ابتدائی کام کیا تھا مسلم دانشور ان کو بھی بنیاد بنا کر کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں!

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply