صدر کے پاس معافی کا اختیار: مسئلہ کیا ہے؟۔۔محمد مشتاق

”حاکم خان کیس“ (1992ء) میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ دستور کی دفعہ 45 ، جس میں صدر کو ہر سزا کی معافی کا اختیار دیا گیا ہے، دستور ہی کی دفعہ 2۔ الف کے ساتھ متصادم ہے کیونکہ دفعہ 2۔ الف کے تحت اللہ تعالیٰ کا قانون بالادست ہے جس کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ قصاص میں مقتول کے ورثا کا اختیار رکھتے ہیں اور ان کی مرضی کے خلاف قاتل کو معاف نہیں کیا جاسکتا ۔ نہایت افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ طے کرنے کے بعد کہ دستور کی دودفعات کے درمیان تصادم پایا جاتا ہے قرار دیا کہ ان میں سے ایک دفعہ کو دوسری دفعہ پر فوقیت نہیں دی جاسکتی کیونکہ دستور ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اس تصادم کو دور کرنے کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ یہ فیصلہ کئی لحاظ سے انتہائی غلط ہے۔

اولاً: جب عدالت نے طے کیا کہ ان دفعات کے درمیان تصادم موجود ہے تو اس کی ذمہ داری ہوگئی کہ دستور کی اس طرح تعبیر کرے کہ ان دفعات کے درمیان تصادم دور ہوجائے۔ عدالت نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کرکے درحقیقت اپنی دستوری ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کیا ہے۔
ثانیاً: عدالت نے کئی مواقع پر دستور کی دو دفعات کے درمیان پایا جانے والا ظاہری تعارض رفع کیا ہے۔ چنانچہ کبھی عدالت ایک دفعہ کو عام اور دوسری کو خاص قرار دے کر عام کی تخصیص کردیتی ہے، اور کبھی ایک کو مطلق اور دوسری کو مقید قرار دے کر مطلق کو مقید پر محمول کردیتی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر عدالت نے دستور کی ایک دفعہ کو اس بنیاد پر معطل بھی کیا ہے کہ یہ دستور کی ایک دوسری دفعہ سے متصادم ہے۔ مثال کے طور پر دستور کی دفعہ 209 کی ذیلی دفعہ 7 کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ اعلی عدالتوں سے ججوں کو صرف سپریم جیوڈیشل کونسل کے فیصلے ہی کے ذریعے برطرف کیا جاسکتا ہے۔

جنرل محمد ضیاء الحق نے جب وفاقی شرعی عدالت بنائی تو دستور میں آٹھویں ترمیم کرکے دفعہ 203۔ سی کی ذیلی دفعہ 5 میں قرار دیا کہ اگر ہائی کورٹ کے کسی جج کو شریعت کورٹ ٹرانسفر کیا جائے اور وہ وہاں چارج لینے سے انکار کرے تو اسے اپنے عہدے سے برطرف سمجھا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے ججز کیس (1996ء) میں طے کیا کہ اس مؤخر الذکر دفعہ پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ دستور کی اصل دفعہ 209 سے متصادم ہے اور موجودہ پارلیمنٹ دستور میں ایسی ترمیم نہیں کرسکتی جو دستور کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لائے کیونکہ اس پارلیمنٹ کے پاس قانون ساز ی کا اختیار تو ہے لیکن نئی دستور سازی کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے ۔ اس فیصلے کے بعد دفعہ 203۔ سی کی ذیلی دفعہ 5دستور میں موجود رہی لیکن عملاً غیر مؤثر رہی تاآنکہ 2010ء میں اٹھارویں دستوری ترمیم کے ذریعے اسے دستور سے نکال دیا گیا۔

ثالثاً: قرارداد مقاصد کو دفعہ 2۔الف کے ذریعے دستور کا باقاعدہ حصہ بنانے کے پیچھے واحد سبب یہی تھا کہ سپریم کورٹ نے ضیاء الرحمان کیس (1973ء) میں طے کیا تھا کہ دستور کا دیباچہ ہونے کی وجہ سے اسے دستور کے متن پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ چاہیے یہ تھا کہ عدالت mischief rule کے تحت قرار دیتی کہ پارلیمنٹ نے قرارداد مقاصد کو اس لئے دستور کا باقاعدہ حصہ بنایا ہے کہ وہ اسے دستور کی دیگر دفعات پر فوقیت دینا چاہتی ہے۔ اگر باقاعدہ حصہ بنادینے کے بعد بھی اس کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آیا تو پھر اس ترمیم کی ضرورت کیا تھی؟ یہ تعبیر قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ مجلس قانون ساز کی طرف بے فائدہ اور لغو کام کی نسبت نہیں کی جائے گی۔
رابعاً: اگرچہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ دستور کی ایک دفعہ کو دوسری دفعہ پر فوقیت نہیں دی جاسکتی لیکن عملاً ہوا یہ ہے کہ دفعہ 45 کو دفعہ 2۔ الف پر فوقیت دے دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عدالت نے ان دفعات کے درمیان تصادم کے اعتراف کے باوجود اس تصادم کو دور نہیں کیا تو گویا اب ایک ہی کام ایک دفعہ کے تحت جائز اور دوسری دفعہ کے تحت ناجائز ہے۔ اگر صدر نے قصاص کے مقدمے میں اولیاء الدم کی مرضی کے بغیر قاتل کو معاف کیا تو کیا یہ فعل اس کے لئے جائز ہوگا؟ دفعہ 2۔ الف کے تحت وہ اس کام کا اختیار نہیں رکھتا جبکہ دفعہ 45 کے تحت اس کا یہ اقدام دستور کے عین مطابق ہوگا!

در اصل عدالت اس مسئلے کو اس وجہ سے حل نہیں کرسکی کہ یہ تصادم صرف دو دفعات کے درمیان نہیں ہے بلکہ درحقیقت تصادم دو مختلف نظام ہائے قانون کے اصولوں کے درمیان ہے جن کو مصنوعی طریقے سے ایک جگہ سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر، اصل مسئلہ دو مختلف نظام ہائے قانون کے اصولوں کے درمیان تلفیق کا ہے۔ دفعہ 45 میں مذکور اصول دراصل انگریزی دستوری قانون کے ایک قاعدے کا لازمی نتیجہ ہے۔ وہ قاعدہ یہ ہے کہ ریاست حاکمیت اعلی کی حامل ہے۔ ظاہر ہے کہ حاکمیت اعلی پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ نیز چونکہ حاکمیت اعلی ہی عدل اور قانون کا سرچشمہ ہے اس لئے حاکمیت اعلی کے حامل کی جانب سے کیا گیا ہر کام جائز ہوتا ہے (The king can do no wrong!)۔ ریاست کا سربراہ ریاست کی حاکمیت اعلی کا مظہر ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے پاس عفو کا یہ مطلق اختیار ہوتا ہے۔ برطانیہ اور پاکستان میں وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے جبکہ ریاست کی سربراہی برطانیہ میں ملکہ کے پاس اور پاکستان میں صدر کے پاس ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

چنانچہ برطانیہ میں عفو کا یہ اختیار ملکہ کے پاس اور پاکستان میں صدر کے پاس ہوتا ہے۔ امریکہ میں صدر بیک وقت ریاست کا بھی سربراہ ہوتا ہے اور حکومت کا بھی، اس کے باوجود وہاں یہ اختیار صدر ہی کے پاس ہوتا ہے۔ دوسری طرف قرار داد مقاصد کے پہلے پیرا میں قرار دیا گیا ہے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ چنانچہ اصل میں تصادم دو جزئیات کے درمیان نہیں بلکہ دو بنیادی قواعد کے درمیان ہے۔ شاید عدالت اس تصادم کو اس وجہ سے دور نہیں کرسکی کہ وہ خود اس معاملے میں تذبذب یا الجھن کا شکار تھی۔ خود قرارداد مقاصد کے متن سے ظاہر ہے کہ اس کا مسودہ لکھنے والے بھی اسی الجھن میں مبتلا تھے کیونکہ اس میں ایک طرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلی کا اعلان کیا جاتا ہے اور دوسری طرف ریاست پاکستان کے لئے sovereign rights جیسی تراکیب بھی استعمال ہوئی ہیں۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے!

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply