مبارک ہو بابا جی ایک اور چھوٹ گیا۔۔سلیم فاروقی

 یہ گتھی آپ خود ہی سلجھا لیں۔۔ بابا جی چینی کی قیمت طے کرنے جیسے عوامی مقبولیت والے فیصلے کرتے رہیں، آپ کے حصے کے کام خود بخود سر انجام پا رہے ہیں۔ چینی کی قیمتوں میں کمی میں اعلیٰ “ترین” کامیابی کے بعد اب تعلیمی اداروں کی فیسیں کم کروا کر جس “غریب طبقے” کی داد رسی ہوگی اس سے کون واقف نہیں۔ ہاں اگر اس چکر میں ایک ٹریفک کانسٹیبل کا قاتل ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی رہا ہو جائے تو یہ معمولی قیمت ہے۔ ممکن ہے بہانہ وہی گھسا پٹا شرعی قوانین کا ہو، لیکن یہ تو آپ ہی کا بیان کردہ معیار ہے کہ عوامی اور سرکاری عہدہ رکھنے والے کو پرکھنے کی کسوٹی بھی زیادہ سخت ہونی چاہیے۔ لیکن چلیں یہ بات تو طے ہوئی  کہ اس ملک  میں عدالتیں موجود ہیں جہاں سے غریب آدمی کو کچھ رقم ملنے کا آسرا ہے، بشرطیکہ اس کے گنوانے کے لیے سگا باپ، سگا بھائی، سگا بیٹا، سگا بھانجا یا کوئی بھی پیارا موجود ہو۔ . بابا جی اگر آپ اس واقعے کو بھول چکے ہیں تو ہمارا کالم “یہ گتھی آپ خود ہی سلجھا لیں….” پڑھ لیں جو آج سے تقریباً چھ ماہ قبل ہم نے لکھا تھا، آج بھی اس میں بہت معمولی سی ترمیم کرنی پڑی لیکن حقائق ابھی بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ 

یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب میں بچپن سے لڑکپن میں داخل ہو رہا تھے، عید کے موقع پر خاندان کے اکثر افراد تایا برکت کے گھر آئے ہوئے تھے اور تایا کو بچوں کو عید کی خوشیاں مناتے دیکھ کر اپنا بچپن اور لڑکپن بھی یاد آگیا تھا اور وہ خاندان کے جوانوں اور نوجوانوں کو اپنے پرانے قصے سنا کر محظوظ کررہے تھے، “ہاں تو میں کہہ رہا تھا یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب میں بچپن سے لڑکپن میں داخل ہورہا تھا”، تایا اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے، بس یوں سمجھ لو میری عمر ایسی ہی رہی ہوگی جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔ ارے بھئی فرحان کیا نام ہے تمھارے منجھلے بیٹے کا؟ تایا اپنے بھتیجے سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے۔ “کمال کرتے ہیں تایا جی آپ ہی نے تو اس کا نام ریحان رکھا تھا اور آپ ہی بھول گئے”، فرحان حیرت سے بولا۔ ارے نہیں بیٹا بس آج کل عجیب سی حالت ہوگئی ہے سامنے کی بات بھول جاتی ہے، اور برسوں پرانی بات ایسے یاد آتی ہے جیسے سامنے فلم چل رہی ہو۔ شاید اب میں واقعی بوڑھا ہوگیا ہوں”، تایا اعتراف کرتے ہوئے بولے۔ 

قارئین کرام! یہ کوئی تایا برکت کا انوکھا کیس نہیں ہے بلکہ اب تو میڈیکل سائنس بھی اس بات کو مانتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان میں جو تبدیلیاں آتی ہیں اس میں حافظہ بھی اہم متاثرہ حصہ ہے۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ سامنے کی بات انسان بھول سکتا ہے اور پرانی باتیں ایسے یاد رکھتا ہے جیسے سامنے فلم چل رہی ہو۔ یہ ایک مرض ہے جس کو احتیاط اور دواؤں کے ذریعے قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ عموماً یہ مرض ساٹھ سال کی عمر سے سر اٹھانا شروع کرتا ہے اور احتیاط نہ کی جائے تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ، یہ دراصل نسیان کی ہی ایک قسم ہے، اور بعض کیسز میں ستر سے لے کر اسی سال کی عمر میں یہ مرض اتنا واضح ہوچکا ہوتا ہے کہ مریض کے تمام ہی جاننے والے اس کی اس کمزوری سے آگاہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ 

قارئین کرام! پاکستان بھی خیر سے ستر سال کا ہوچکا ہے، اگرچہ ملکوں اور قوموں کی زندگی میں ستر سال کی کوئی خاص عمر نہیں ہوتی ہے لیکن شاید بطور قوم ہم بھی نسیان کے اسی مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ آج ملک میں کسی مسئلے کا تذکرہ ہو کوئی اس کے ڈانڈے ایوب دور سے جوڑنا شروع کرتا ہے تو کوئی ضیاءالحق کو تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دے رہا ہوتا ہے۔ کوئی مشرف کو سان پر چڑھا لیتا ہے تو ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو 1947ء سے ہی برائیوں کی جڑیں ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن عمومی طور پر ماضی قریب کی باتیں بھول کر ماضی بعید میں کھوئے رہنا پسند کرتے ہیں۔

آئیے ذرا ماضی قریب کو یاد کریں، زیادہ نہیں 2015ء اور 2016ء کو تھوڑا سا ذہن میں تازہ کریں اور اس زمانے کے اخبارات کو انٹرنیٹ پر ہی پڑھیں تو بہت ساری گتھیاں ایسے کھلنا شروع ہوجائیں گی جیسے یہ تو سامنے کی بات تھی کوئی گنجلک مسئلہ ہی نہیں تھا۔ چلیے ذرا سا اور پیچھے چلتے ہیں۔ اس واقعہ سے زیادہ نہیں اکتوبر 2015ء کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، اس وقت کا منظر نامہ یہ ہے کہ میں پختونخوا  ملی عوامی پارٹی ایک بھرپور احتجاجی تحریک چلا رہی ہے، جس میں وفاقی حکومت پر یہ الزام ہے کہ اس نے افغانیوں کی آڑ میں پختونوں کے شناختی کارڈ بھی معطل کر دیے ہیں جو پختونوں کے ساتھ ظلم ہے۔ اس موقع پر کے پی کے میں پختون حقوق کی علمبردار اے این پی بھی پختونخوا  ملی عوامی پارٹی کے کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑی ہے اور وہ اسی سلسلے میں پشاور میں مظاہرے کر رہی ہے۔

چلیں زیادہ نہیں اس کے صرف سات آٹھ ماہ بعد یعنی مئی 2016ء کی طرف چلتے ہیں۔ اس وقت جب وفاقی وزیرِ داخلہ کی خصوصی ہدایت پر ایف آئی اے کی ایک خصوصی ٹیم پشاور گئی اور وہاں اس نے کارروائی کرتے ہوئے غالباً 24 مئی کو ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرریوینیو (کوئٹہ) کو حراست میں لیا، ان اے ڈی سی پر الزام تھا کہ انہوں نے 2005ء میں اپنی تحصیلدار قلعہ عبداللہ کی حیثیت سے تعیناتی کے دوران ولی محمد نامی ایک افغان شہری کے لیے پاکستانی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے فارم کی تصدیق کی تھی۔ گرفتاری کے بعد اے ڈی سی صاحب کو مزید تفتیش کے لیے فوری طور پر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔

یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ وہی اے ڈی سی صاحب ہیں جو اسسٹنٹ کمشنر زیارت مقرر ہوئے۔ اس کے تقریباً ایک ہی ہفتے بعد ایف آئی اے نے ایک دوسری کارروائی میں بلوچستان لیویزکے ایک رسالدار میجر کو بھی چمن سے گرفتار کر لیا۔ ان رسالدار میجر صاحب پر الزام تھا کہ انہوں نے 2001ء میں اُسی ولی محمد نامی افغان شہری کے غیر کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے فارم کی تصدیق کی تھی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس شک کا اظہار بھی کیا کہ نادرا کا عملہ اس علاقے میں ملی بھگت کے ساتھ بڑی تعداد میں افغانیوں کو پاکستانی شہریت ”فروخت“ کرتا رہا ہے۔ 

اب آئیے ان منظر ناموں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کوآپس میں ملا کر ایک مکمل تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، شاید کوئی واضح تصویر سامنے آسکے۔ وہ اے ڈی سی صاحب جو ناجائز شناختی کارڈ بنوانے میں مدد دینے کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے اور جو اسسٹنٹ کمشنر زیارت بھی رہ چکے تھے ان کا نام رفیق ترین تھا، وہ رسالدار میجر جو اسی جرم میں گرفتار ہوئے ان کا نام عزیز احمد اچکزئی تھا، اور جس علاقے سے ان کا تعلق تھا وہ تھا قلعہ عبداللہ، وہی قلعہ عبداللہ جس کے رکن صوبائی اسمبلی مجید اچکزئی صاحب ہیں، اور جو ٹریفک پولیس سارجنٹ عطاءاللہ دشتی کو کچل کر ہلاک کردینے کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے چلے گئے ۔

یہ رفیق ترین وہی صاحب ہیں جو بطور ڈپٹی کمشنر زیارت عید والے دن سارجنٹ عطاءاللہ کے گھر تعزیت کے لیے گئے اور اس کے بعد الزامات یہ ہیں کہ انہوں نے مقتول سارجنٹ کے گھر والوں کو دو لاکھ روپے عیدی کے نام پر دیے اور بقول مقتول کے ورثاء کے ان سے عیدی کی رقم کی رسید کے نام پر ایک سادے کاغذ پر دستخط کروائے جو بعد میں ورثاء اور مجید اچکزئی کی جانب سے ایک معاہدہ نامہ کے طور پر پیش کردیا گیا۔ گویا اچکزئی اور ترین تعلقات کوئی نئے نہیں ہیں، کم از کم 2005ء سے ترین صاحب اسی علاقے میں کسی نہ کسی حیثیت سے تعینات ہیں جو مجید اچکزئی صاحب کا سیاسی حلقہ ہے۔ مجید اچکزئی بھی کوئی معمولی فرد تو نہیں ہیں۔ یہ محمود اچکزئی کے بھتیجے ہیں۔

یہ وہی محمود اچکزئی ہیں جو افغانیوں کے خلاف کارروائی کو پختونوں کے خلاف کارروائی کا رنگ دیتے رہے۔ اور جولائی 2016ء میں افغانستان کے ایک انگریزی روزنامے ”افغانستان ٹائمز“ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ قابلِ اعتراض بیان دیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا دراصل افغانستان کا وہ حصہ ہے جس پر پاکستان نے کنٹرول کیا ہوا ہے۔ اور پاکستان کو کوئی حق نہیں کہ وہ افغانیوں کو پاکستان داخل ہونے سے روکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان اور افغانستان افغانیوں پر ان پابندیوں سے باز نہیں آتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ اور چین کے حوالے کردیں جو دو ہفتے میں اس مسئلے کو حل کردیں گے۔ 

آئیے جناب اب آتے ہیں تصویر کے اس رخ کی جانب جو اس پورے منظر نامے میں ایک بالکل نیا رنگ بھر رہا ہے۔ وہ افغانی شہری ولی محمد جس کے جعلی شناختی کارڈ کے اجراء پر یہ سارا ہنگامہ اٹھا، وہ کون تھا؟ وہ تھا دراصل ملا اختر منصور جو افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے دالبندین، بلوچستان، کے قریب ایک امریکی ڈرون طیارے کے حملے میں پاکستانی سر زمین کے اندر مارا گیا۔ یہ وہی ملا اختر منصور تھا جس کو ملا عمر کی وفات کے بعد افغان طالبان نے اپنا رہنما منتخب کیا تھا اور جو پہلی بار طالبان کو افغانستان مسئلے کو جنگ کی بجائے مذاکرات پر راضی کر رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس پورے منظرنامے کی بُنت کاری میں اگر ترین اور اچکزئی تعلقات کو دیکھیں اور پھر افغانستان کے ساتھ ان کی ہمدردیاں دیکھیں جس میں اے این پی بھی شامل باجہ ہے تو بہت ساری چیزیں اتنی واضح ہوکر سامنے آجاتی ہیں کہ مزید کسی وضاحت کی ضرورت رہ نہیں جاتی ہے۔ اور  رہ گئے اس مقتول کانسٹیل کے اہلَ خانہ تو ان کے پاس تو رقم کے بدلے میں دینے کے لیے اپنے باپ کا خون تھا سو انہوں نے وصولی کرلی ہوگی۔ گویا قصہ المختصر  “قاتل و مقتول راضی ، کیا کرے قاضی” ۔

Facebook Comments

سلیم فاروقی
کالم نگار، کہانی نگار، بچوں کی کہانی نگار، صد لفظی کہانی نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply