عورت ہونا جرم ہے

نرملا کا تعلق اندرون سندھ کے ایک ایسے دورافتادہ گاوں سے ہے جہاں وقت کو بیسویں صدی میں ایسی زنجیروں سے باندھ دیا گیا تھا جسے توڑتے ہوئے بڑے بڑوں کا خون پانی ہوتا ہے۔مدتیں بیتیں مگر زنجیر روز بروز مضبوط ہورہی ہے۔کل نرملا کی ماں کا اسی زنجیر سے گلا گھونٹا گیا تھا،اور آج یہ زنجیر خود نرملا کی گردن میں ہے۔نسلیں بیت گئیں مگر زنجیر وہی ہے۔گلا دبانے والے وہی ہیں۔جہالت کے بردہ فروش وہی ہیں۔روایت کی پاسداری میں بنت حوا کی زندگیاں اجاڑنے والے وہی ہیں۔چہرے بدلے ہیں،سزا وہی ہے۔نرملا کی ماں جبر کے عذاب سے زندگی کی بازی ہار گئی،پھندہ اب نرملا کے گلے میں ہے۔دم گھٹنا شروع ہوگیا ہے۔مدقوق سانسیں کب تک جسم وجاں کا تعلق جوڑے رکھیں گی۔خونِ خاک نشیناں خاک ہونے کو ہے۔
نرملا کی ماں کی بھی روایت کی قربان گاہ پر قربانی دی گئی تھی۔اس سے پوچھے بغیر،اس کی رضا جانے بغیر اس کی زندگی کی باگ اک ایسے بے رحم شخص کے ہاتھ میں دے دی گئی جسے کتوں کی طرح بھنبھوڑنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں آتا۔ جبر کی بھٹی میں اسے دن رات پیسا گیا،اس کی زندگی جہنم بنا دی گئی۔اسے جانوروں کے ساتھ باندھا گیا۔ جسمانی تشدد کی انتہا کر دی گئی۔جذباتی کچوکے تو خیر ہمارے ہاں کسی شمار میں ہی نہیں آتے۔طعن وتشنیع تو کسی حد تک قابل برداشت ہے۔بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا،منہ پر جوتیوں کی بارش کرنا،جوان بچوں کے سامنے چارپائی سے گھسیٹ کر پرے پھینکنا،کئی کئی دن بھوکا رکھنا،سالوں بس ایک ہی کپڑوں کے جوڑے میں رہنے پر مجبور کرنا،مدتوں کسی سے ملنے نہ دینا اور جب بیمار ہو تو ایک پینا ڈول تک نہ دینا،یہ سب ہنر اس پر آزمائے گئے۔اکیلی جان کب تک دکھ سہتی۔روگ تو پہلے ہی در سے اٹھا کر دیوار کے ساتھ لگانے والے تھے ہی،اوپر سے بیماریوں نے آسان ہدف تاک لیا۔نہ خوراک نہ علاج،نہ مسیحا نہ تیماردار۔نرملا کی ماں نے صد حسرتوں کے ساتھ جان جان آفریں کے سپردکی۔جبر کی رخصتی سے شروع ہونے والی زیادتی کی کہانی موت پر ختم ہوئی۔ایسی کتنی ہی بنات حوا ہیں جو قبروں میں جا سوئیں اور بے شمار جیتے جی درگور ہیں۔
نرملا انہی زیادتیوں کے بیچ جوان ہوئی۔خوف کے سایوں میں پل کر جوان ہوتے ہوئے ماں کو ماریں کھاتے دیکھ کر خوف نے زندگی کی بنیادیں اول دن سے ہی کھوکھلی کردیں۔بولنے کی قوت جاتی رہی۔سہم کر جینے کی عادت نے اپنے حقوق تو بھلائے ہی جیون کی خوشیاں بھی چھین لیں۔اس کا باپ ایک زندگی اجاڑ کے نہ کسی افسوس میں مبتلا ہوا نہ پشیمانی نے اس کے دامن کو کھینچا۔اب اس نے اپنی انا کے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے روایت کی قربان گاہ پہ نرملا کی سوختنی قربانی کا ارادہ کرلیا۔دیوتاؤں کو اور کیا چاہئے۔باپ نے اپنی مرضی کے نام سامنے رکھے،ان میں سے کس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔نرملا نے آخری کوشش کرنے کی ٹھانی کہ شاید باپ کا دل پسیجے۔انکار کا بول بولا ہی تھا کہ باپ کے ہاتھ نرملا کی بالوں میں تھے۔گھسیٹنے کی وہی روایت اک بار پھر دہرائی گئی جو نرملا کی ماں کا مقدر ٹھہری تھی۔گھسیٹنے کے بعد منہ پر جوتیوں کی بارش کرنے کے بعد کمرے میں بند کرکے ایک دن کا وقت دیا گیا ۔زندہ رہنے کے لئے کسی مجوزہ لونڈے کے ساتھ ’’رخصتی‘‘ کی حامی بھرنی تھی بصورت دیگر اسی کمرے میں دفن کرنے کی سہولت بھی بہم پہنچانے کا اعلان کیا گیا۔زندگی کانٹوں کی صلیب پر بھی ہو زندگی بہرحال پیاری ہے۔نرملا کو اپنی ماں کی طرح یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔اسے باپ کی مرضی کے دیوتاؤں کے سامنے اپنے رضا کی قربانی دینی پڑے ۔یوں نرملا بے آبرو ہوکر ایک ایسے شخص کے ساتھ بیاہی گئی جسے عام حالات میں نرملا شاید دیکھنا بھی پسند نہ کرے،مگر اب اسے تادم واپسی اسی کے ساتھ رہنا ہے۔ماں کی روایت کو بھی تو قائم رکھنا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔گو یہ عذاب بھی جان لیوا تھا مگر تکلیف کا دورانیہ کم ہوتا تھا اور اس کے بعد مصائب سے جان چھوٹ جاتی تھی۔اس زمانے میں زندہ قبر میں دبانے کے بجائے اسے آہستہ آہستہ مارا جاتا ہے۔اس کی سانس پھول جاتی ہے تو دم بھر کو مظالم رک جاتے ہیں،جیسے ہی سانس بحال ہوتی ہے اس کے منہ پر جوتیاں مارنے کا عمل دوبارہ سے شروع ہوجاتا ہے۔تھر کی نرملا ہو یا پشاور کی حنا شاہنواز ہو دونوں کا مقدر موت ہے۔ خطرہ بھانپتے ہوئے ایک کو فوری اگلے جان پہنچایا جاتا ہے اور جس سے کم خطرہ ہے اسے قسطوں میں مارا جاتا ہے۔مقدر بہرحال موت ہے۔دیکھئے فیض صاحب کس موقع پہ یاد آئے
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانۂ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی عَلم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
جب تک آدمیت انسانیت کا جون پہنتی ہے تب تک چوراہوں پہ اعلان لگا دینا چاہئے۔عورت ہونا جرم ہے اور اس جرم کی سزا موت ہے۔
اعلان ختم ہوا۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply