• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • امریکی صدر اسلام دشمنی کے بجائے انسان دوستی کے لیے کام کریں

امریکی صدر اسلام دشمنی کے بجائے انسان دوستی کے لیے کام کریں

امریکی صدر اسلام دشمنی کے بجائے انسان دوستی کے لیے کام کریں
طاہر یاسین طاہر
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے ایک جارحیت پسند اور متعصب شخص ہیں۔ایسا شاید امریکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھی امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر اس کے خلاف شدید احتجاج ہوا ہو۔ نو منتخب امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر دنیا بھر میں ان سے بیرازی کے اعلان کے طور پر احتجاج ہوئے۔عموماً انتخابی نعروں کو پالیسی نہیں کہا جاتا،بلکہ ووٹرز کو متحرک کرنے اور ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کا ایک طریقہ کار سمجھا جاتا ہے۔ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں انتہائی متنازع بیانات بھی دیے اور نسل پرستانہ رحجانات کو بھی مہمیز کیا۔عورتوں کے متعلق انھوں نے اپنے نازیبا خیالات بھی بیان کیے۔اس سب کے باوجود وہ امریکہ کے منتخب صدر ہیں،یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔
اس حقیقت کا مگر ایک تلخ ترین پہلو بھی ہے اور وہ ہے ٹرمپ کی شخصیت۔منتخب صدر اپنی جگت بازیوں اور متنازع گفتگو کے حوالے سے منفی شہرت رکھتے ہیں۔کوئی شخص کتنا بھی بڑا کاروباری ہو،یا کسی سپر پاور کا صدر ہی کیوں نہ ہو،اسے یہ زیبا نہیں کہ وہ یوں بازاری انداز میں گفتگو کرے ۔ ٹرمپ چونکہ دنیا کے ایک بڑے اور معاشی و سائنسی ترقی میں بلندیوں کو چھوتے ملک کے صدر ہیں،امریکہ دنیا کی سپر طاقت بھی ہے۔ یوں ان حوالوں سے امریکی صدر سے یہ توقع بڑھ جاتی ہے کہ وہ بیانات جاری کرتے ہوئے،یا پالیسی سازی میں زیادہ محتاط اور سمجھداری کا رویہ اختیار کریں گے،لیکن موجودہ امریکی صدرفری سٹائل ریسلر کا مزاج رکھتے ہیں اور وہ ریسلر بھی رہے،یوں وہ ہر چیز کو تہس نہس کرنے پر ہی تلے نظر آتے ہیں۔حیرت انگیز طور پہ امریکی پالیسی ساز ابھی تک اپنے نئے صدر کو یہ سمجھنانے سے قاصر رہے کہ ان کے بیانات اور پالیسیاں دنیا بھر میں امریکی مفادات کو شدید نقصان پہنچائیں گی۔ٹرمپ نے حلف برداری کی تقریب کے دوران میں کہا تھا کہ وہ اسلامی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کر دیں گے۔اس کے بعد انھوں نے سات مسلم ممالک کےشہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔گذشتہ دنوں مصر سے یمن اور ایک دوسرے مسلم ملک کے باشندے کو نیویارک جانے والی پرواز سے اتار لیا گیا حالانکہ ان کے پاس امریکی گرین کارڈ بھی تھا۔یہ کسی خاص مذہب،یا نسل کے ساتھ امتیازی سلوک کی شرمناک مثال ہے۔
شام،عراق،ایران،یمن،سوڈان سمیت سات مسلم ممالک کے باشندوں پر لگائی جانے والی پابندی کے پیچھے ٹرمپ کی یہ سوچ ہے کہ دہشت گرد مسلمان ہی ہوتے ہیں۔اور مذکورہ ممالک کے شہری بالخصوص،اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ یہ بھی کہتی ہے کہ ممکن ہے آنے والے دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے شہریوں پر بھی پابندیاں عائد کر دی جائیں،سر دست پاکستانی شہریوں کو امریکی سفر کے دوران میں کڑی نگرانی اور سیکیورٹی کے انتظامات سے گذرنا پڑے گا۔ امریکی صدر کے اس نفرت انگیز فیصلے کے خلاف امریکہ کی تین ریاستیں عدالت میں چلی گئی ہیں۔جبکہ اقوام متحدہ نے بھی کہا ہے کہ ٹرمپ مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندیاں عائد نہ کرے۔البتہ سعودی عرب اور متحدہ امارات نے امریکی فیصلے کا دفاع کیا ہے۔گذشتہ روز ٹرمپ کی ،آسٹریلوی وزیر اعظم میلکوم ٹَرنبل سے ٹیلی فونک گفتگو سفارتی تاریخ کی بد ترین کال تصور کی جاتی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما دور میں آسٹریلیا سے مہاجرین سے متعلق کیے گئے معاہدے کو”بیوقوفانہ” قرار دے دیا۔معاہدے کے تحت امریکا کو آسٹریلیا سے اس کی سرزمین کے باہر جزیروں کے حراستی مراکز میں مقیم پناہ گزینوں کو قبول کرنا تھا، جنہیں آسٹریلوی حکومت کی سخت پالیسیوں کے باعث ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ان افراد میں زیادہ تر کا تعلق ان 7 مسلم ممالک سے ہے جن کے شہریوں پر امریکا میں داخل ہونے کی عارضی پابندی لگائی گئی ہے، جبکہ شامی مہاجرین کے داخلے پر تاحکم ثانی پابندی بھی عائد کردی گئی تھی۔
آسٹریلوی وزیر اعظم سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ 2 ہزار مہاجرین کو امریکا میں پناہ دینے کا معاہدہ بہت بُرا تھا، جن میں سے ایک ممکنہ طور پر اگلا بوسٹن بمبار ہوسکتا تھا۔یوں ٹرمپ اپنی ہر گفتگو میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کی صرف ایک ہی قسم ہے اور وہ اسلامی دہشت گردی ہے۔یہ امر بھی حیرت ناک ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ شدت پسندی اور پر تشدد نظریات کی روک تھام کے لیے شروع کیے جانے والے پروگرام کو تبدیل کرنے کرکے اسے صرف اسلامی شدت پسندی پر مرکوز کرنے پر غور کررہی ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی حکومت کے پروگرام “کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایسکٹریمزم سی وی ای کو تبدیل کرکے “کائونٹرنگ اسلامک ایکسٹریمزم کردیا جائے گا۔اس پروگرام کے تحت سفید فام گروہوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا جو خود بھی امریکا میں دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔یہ ایک نہایت خطرناک بات ہے جس کے عالم انسانیت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔امریکی صدر انے ایران کے میزائل تجربے پر بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا جسے ایران نے اپنے روایتی انداز میں یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پاگل شخص ہمیں دھمکیاں نہ دے۔
ٹرمپ کا اگرچہ کہنا ہے کہ اس کی انتظامیہ کے سارے اقدامات امریکہ کو محفوظ اور خوشحال کرنے کے لیے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے، ان کے بیانات اور نسلی و مذہبی تعصب کی بنا پر امریکہ محفوظ ترین ہونے کے بجائے دنیا کی ایک خطرناک ترین جگہ بن جائے گی۔امیگریشن پالیسی ہر ملک کا حق ہے ،مگر اس پالیسی کی آڑ میں ہر مسلمان اور مسلم ملک کو دہشت گرد سمجھنا نہایت برا فعل ہے۔امریکی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اسلام دشمنی کے بجائے دنیا میں انسان دوستی کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ عالم اسلام کے قابل ذکر ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ یکجا ہو کر اسلام کی اصل تعلیمات کے فروغ کے لیے کردار ادا کریں۔یہ امر افسوسناک ہے کہ قابل ذکر مسلم ممالک عالم اسلام میں اتحاد کے بجائے نفاق کے لیے زیادہ سر گرم کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ دنیا ایک نئی طرز کی طرف گامزن ہے۔”ٹرمپ ڈاکٹرائن” دنیا کے لیے خطرناک ترین شے ہے۔ امریکہ کے دانشوروں اور انسان دوستوں کو اپنے صدر کو درست اور امن پسندی کے راستے کی طرف ترغیب دینا چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply