قوموں کی امامت

برسوں مطالعہ پاکستان میں پڑھتے رہے کہ ملک ہمارا خدا کا انعام ہے۔ وسائل سے مالامال ہے۔معدنیات ہیں، قدرتی گیس ہے، طویل ساحل، محل وقوع وغیرہ وغیرہ ۔ دل خوش تو بہت ہوتا پر خیال یہ بھی آتا کہ جب سب ہے تو ملک ایسا کیوں ۔ ذرا غور کیا تو راز کھلا کہ صرف قدرتی وسائل سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ زور بازو بھی استعمال کرنا ہوتا ہے اورعالم میں انتخاب اقوام وہی ہوتی ہیں جو انتھک محنت اور لگن کو شعار کرتی ہیں۔
نشانیاں بکھری ہوئی ہیں سوچنے اور دیکھنے والوں کے لئے۔ سوئٹزرلینڈ ۔ چھوٹا سا ملک۔آبادی قریب ۸۰لاکھ ۔ چاروں طرف خشکی۔ ساحل کوئی نہیں۔ مگر گھڑیاں ہی ۲۵ ارب ڈالر کی ہر سال برآمد کردیتا ہے۔ سنگاپور کو دیکھیں، ایک صدی قبل مچھیروں کی بستی ہی تو تھا۔ رقبہ کراچی کا ایک تہائی۔ قدرتی وسائل نام کو نہیں۔ پانی تک پڑوسی ملائیشیا سے درآمد کرتا ہے۔ مگر برآمدات ۵۰۰ ارب ڈالر سے اوپر۔ اِدھر یہ حال کہ برآمدات سال بسال گھٹ کر ۲۱ ارب سی بھی نیچے آ گری ہیں۔
افراد ہوں یا اقوام ، آزمائش اور محنت کےجلو میں ہی ترقی کرتے ہیں۔آنے والی نسلوں کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ دل پہ پتھر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ تاج محل نہیں یونیورسٹی تعمیر ہو گی۔ قوموں کی امامت مغرب کو تھال پر رکھ نہیں ملی۔ چار سو سال تک علم وفن کے شمشیروسناں اول رکھے تھے انہوں نے۔ ادھر ایک سایہ ہے جو نیل کے ساحل سے لیکر کاشغرکی خاک تک چھایا ہے۔ علم دشمنی۔ بددیانتی ۔ خود فریبی ۔ ابھی تو وہ اجزا ہی میسر نہیں جن سے اعلیٰ اقوام کا خمیر اٹھتا ہے۔ بس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔
قدرت بھی تب ہی انعامات کرتی ہے جب اس سے تعاون کیا جائے۔ امتحانات کی بھٹی میں کندن ہوکر جو خوشحالی ملے وہی دائمی ہوتی ہے ۔ جو آسائش ہاتھ دھرے مل جائے تو وہی حال ہوتا ہے جو ہمارے عرب بھائیوں کا ہے۔ دور کی عظیم دولت ان کے قدموں تلے ڈھیر ہے لیکن آج بھی ٹوپی بنانے سے صنعت لگانے تک غیروں کے محتاج۔باقی رہے نام اللہ کا۔

Facebook Comments

عبید شیخ
تعلیم انجنئیرنگ، پیشہ درزی ۔ باقی پھر سہی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply