طفلِ مکتب کی دہائی

مکالمہ۔۔۔۔ صرف ایک فورم کے بجائے حقیقی مکالمے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اور شنید یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کی افادیت کا اندازہ شاید ان دوستوں کو بھی ہو جائے گا جو اس لمحے اس کے انداز، اطوار، حرکات، سنجیدہ شرارتوں کو دیوانے کی بڑھک سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اور آنے والے دنوں میں مکالمہ یقیناًہم عصر فورمز میں ابھر کر سامنے آئے گا۔ اب منحصر اس فورم کی انتظامیہ پہ ہو گا کہ وہ اس ابھر کر اوپر آنے کو پھوڑا بناتے ہیں یا کھلا ہوا پھول۔ ایک مشہور و معروف بلاگ کے لیے بطور پیڈ رائٹر کے طور پہ خدمات انجام دینے کے باوجود میرا ذاتی خیال ہے کہ مکالمہ کا سفر جتنا جلدی اوپر جا رہا ہے اس کو متوازن حدود و قیود میں قائم رکھا جائے۔
سیکس، لذتِ لمس، مرد و عورت کے ہیجانات، ہم جنس پرستی۔۔۔ یہ چند موضوعات کچھ دنوں سے مکالمہ کی زینت بن رہے ہیں اور بظاہر یہ موضوعات ایک علمی بحث کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر ان موضوعات پہ سب سے پہلے جس لکھاری نے قلم اُٹھانے کی جرات کی وہ ایک پروفیسر ہونے کے باوجود اس موضوع کے حوالے سے نہ تو علمی حوالہ دے پائیں۔ نہ ہی کسی بھی قسم کا کوئی تاریخی واقعہ، سانحہ، حادثہ ان کی تحریر کی زینت بن پایا۔ ان کی اس تحریر پہ یقیناًمیری طرح کئی پڑھنے والوں کو ان کے بطور پروفیسرپاکستان کے مستقبل کی راہنمائی سے بھی اختلاف ہو رہا ہو گا۔ جب کے اس تحریر کے جواب میں ثمینہ رشید صاحبہ کی تحریر بہت حد تاریخی، مذہبی، اور معاشرتی حوالوں سے بھری ہوئی تھی۔ یعنی ان کی تحریر میں جا بجا دلیل کا عنصر واضح نظر آیا۔ جب کہ جس لکھاری نے ابتدائی بحث کا آغاز کیا ان کی تحریر ہیجانیت سے بھرپور اور تنہائی میں پڑھے جانے والے جرائد و رسالوں کے مطابق نظر آئی۔
بصد معذرت ،،،، صرف اتنی سی گذارش ہے کہ کتاب الہٰی، احادیث، فقہہ سمیت شریعت کے تمام ستونوں میں بھی ہیجانیت، رشتے استوار کرنے، اور اس جیسے دیگر عوامل کے بارے میں نہ صرف مکمل معلومات موجود ہیں بلکہ ان کو نہایت خوبصورت پیرائے میں تفصیلاً بیان بھی کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس خوبصورتی سے ثمینہ رشید صاحب نے ان کو بیان کیا ہے دیگر لکھاری بھی اس موضوع کر بطور موضوع بحث کے دائرے میں لائیں۔ مگر جس طرح کی پروفیسر صاحبہ کی ابتدائی تحریر ہے اس سے اصلاح، راہنمائی کے بجائے نوجوان نسل صرف لذت کا عنصر ہی پائے گی ۔ اور معاملات درستگی کے بجائے بگاڑ کی جانب کا سفر طے کریں گے۔ پروفیسر صاحب سے بناء کسی اختلاف کے، ان کا مقصد یقیناًمعاشرے کی اصلاح ہو گا مگر انہوں نے اس موضوع پر جس طرح ایک کہانی کے انداز میں قلم ترازی کی ہے اس سے اصلاح ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ پروفیسر صاحبہ کی نیت پہ شبہ نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے لفظوں سے کھیلنے کی مہارت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو بیان کرنے میں مشکلات پیش آئی ہوں۔ مگر کہنا پھر بھی یہی ہے کہ ہم بطور قوم دلیل ، حوالے، وجہ، مقصدیت کو اپنانے والی قوم ہیں کہانی کے روپ میں ہمارے پاس جتنی مرضی سنجیدہ بات کر لی جائے ہم اس میں سے کہانی کی لذت ہی تلاش کریں گے۔ مقصدیت نہیں۔ اور معاشروں میں ان کے رجحانات دیکھتے ہوئے ہی قلم کو حرکت دی جاتی ہے۔ اگر معاشرہ کہانی کا اسلوب ہضم نہ کر پائے تو بطور لکھاری تمام لکھنے والوں کے فرائض میں یہ تاثر شامل ہونا چاہیے کہ وہ تاریخی حوالوں سے اپنے مقصد کو واضح کریں۔ ہم اگر مغلوں کی تعمیرات پہ کھلے عام بحث کر سکتے ہیں تو مغلیہ درباروں میں ہم جسنیت کے موجود ہونے پہ بحث کرنا کیوں گوارا نہیں کرتے۔
لکھیے، ہر موضوع کو قلم کے دائرے میں لائیے۔ مگر اس لکھنے میں یہ تاثر ذہن سے محو نہ کیجیے گا کہ اس معاشرے میں ابھی بھی بہت سا طبقہ ان پڑھ ہے۔ اور سوشل میڈیا کی اکثریت اس کی افادیت سے ناواقف ہے۔ لہذا آپ تحاریر میں جنسی رجحانات کو سیکس کہہ کر مخاطب کرنے کے بجائے اس کو کوئی علمی نام بھی دے سکتی ہیں جیسے کہ آپ اس کو نفسانی خواہشات کہہ کر ہی مخاطب کر لیں۔ فرق آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ سیکس کہنے اور نفسانی خواہشات پکارنے میں انسان کے اندر موجود شرارتی اکائیاں کیا ردعمل دکھاتی ہیں۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply