کینیڈا میں بڑھتا ہوا اسلام فوبیا،اور مسجد پر حملہ

کینیڈا میں بڑھتا ہوا اسلام فوبیا،اور مسجد پر حملہ
طاہر یاسین طاہر
یہ امر واقعی ہے کہ اس وقت عالمی میڈیا دہشت گردی کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر عالم انسانیت کے لیے خطرات تراش رہا ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں بھی عار نہیں کہ دنیا کے بعض ممالک میں اسلم کے نا پر بننے والی عسکری تنظیموں نے جارحیت کا راستہ اختیار مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی عسکری تنظیموں سے مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ القاعدہ،طالبان ارو داعش وغیرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
نائن الیون کے بعد عالمی حالات نے نیا رخ اختیار کیا ہوا ہے۔امریکہ سمیت یورپ و کینیڈا او ر آسٹریلیا میں مقیم مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں جن میں مسلم کمیونٹی کو دانستہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔گذشتہ سے پیوستہ روزکینیڈا کے شہر کیوبیک کی ایک مسجد میں فائرنگ کے نتیجے میں 6 نمازی شہید جبکہ 8نمازی شدید زخمی ہوئے ہیں۔
اگرچہ کینیڈین وزیراعظم جسٹس ٹروڈو نے کیوبک شہر میں مسجد ہونے والے حملے کو مسلمانوں کے خلاف دہشت گرد حملہ قرار دے دیا۔پولیس کے مطابق دو مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا جب کہ حملے کی وجوہات سے متعلق کوئی معلومات سامنے نہیں آسکیں۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وہ عبادت اور پناہ کے مرکز میں مسلمانوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہیں۔جسٹس ٹروڈو کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ,کینیڈین مسلمان ہماری قوم کا اہم حصہ ہیں اور اس طرح کے بزدلانہ حملوں کی ہماری برادریوں، شہروں اور ملک میں کوئی گنجائش نہیں۔ابتدائی طور پر مسجد انتظامیہ کے صدر محمد ینگوئی کا بتانا تھا کہ کیوبک اسلامک کلچرل سینٹر میں 40 کے قریب نمازی موجود تھے جب 3 حملہ آوروں نے یہاں فائرکھول دیا تاہم بعد ازاں پولیس کا کہنا تھا کہ حملے میں 2 افراد ملوث تھے۔
واضح رہے کہ فائرنگ کا یہ واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مہاجرین کا پروگرام ختم کیے جانے کے اعلان کے بعد کینیڈین وزیراعظم کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ وہ کینیڈا میں مہاجرین کا خیرمقدم کریں گے۔صوبہ کیوبک کے پرائم منسٹر فلپ کوئیلارڈ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ,حکومت کیوبک کے لوگوں کی سیکیورٹی کے لیے متحرک ہے۔انھوں نے اپنے ایک پیغام میں لکھا، ,کیوبک اس انسانیت سوز تشدد کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے، ساتھ ہی انھوں نے کیوبک کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا۔ یادرہے کہ حالیہ برسوں میں کیوبیک میں اسلامو فوبیا کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔کیوبیک کا اسلامک کلچرل سینٹر، شہر کی جامع مسجد بھی کہلاتی ہے، یہاں اس سے قبل بھی کچھ نفرت انگیزی کے واقعات پیش آچکے ہیں، جب گذشتہ برس جون میں ماہ رمضان میں مسجد کے دروازے پر ایک حرام جانور کا سر کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ 2015 میں ہونے والے پیرس حملوں کے اگلے ہی روز کیوبیک کے پڑوس میں واقع صوبہ انٹاریو میں ایک مسجد کو بھی نذر آتش کردیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعہ اور اس سے جڑے ماضی میں پیش آنے والے واقعات اس امر کی شہادت ہیں کہ انتہا پسندی یا دہشت گردی کو کسی ایک مذہب،قوم،علاقےیا ملک سے جوڑنا زیادتی ہو گی۔جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی کہا تھا کہ وہ اسلامی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کر دیں گے۔ ان کے اس بیان سے بھی امریکہ،کینیڈا و یورپ میں بسنے والے غیر مسلم انتہا پسندوں کو تحریک ملی اور مسلمانوں پر حملوں کے خدشات بڑھے ہیں۔اگرچہ کینیڈا کے شہر کیوبیک کی مسجد پر ہونے والے حملوں کی ریاستی سطح پر مذمت کی گئی ہے ،مگر ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف کینیڈا و امریکہ،بلکہ یورپ و آسٹریلیا میں بھی مسلم کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ریاستی اقدامات اٹھائے جائیں۔ نیز مسلمانوں کو بھی مقامی آبادی کو یہ باور کرانا چاہیے کہ بحثیت مسلمان اور اسلامی تعلیمات کا دہشت گردی اور انسان کشی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ایسا کھیل ہے جو انسانوں کو نسل اور مذہب کی بنا پر تقسیم کرتے ہوئے جنونی افراد کو قتل و غارت گری پر ابھار رہا ہے۔
مسلم و غیر مسلم دانشوروں کو بھی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی مذمت کریں اور ،باہمی رواداری ،اخوت اور انسان دوستی پر مبنی سیمینارز اور کانفرنسز کرا کے یورپین و امریکی سماج کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام کی تعلیمات روادای،اخوت اور بھائی چارے کی ہیں۔ القاعدہ،النصرہ،داعش و طالبان اسلام کے نمائندہ نہیں،بلکہ اسلام کی نمائندگی حضرت لعل شہباز قلندر،بو علی قلندر،حضرت معین الدین چشتی،اور قائد اعظم و علامہ اقبال جیسی شخصیات ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply