طلباء یونین کی بحالی: قرارداد نہیں قانون چاہیے۔شاداب مرتضیٰ

آج سے تین ماہ قبل، اگست میں وفاقی اسمبلی نے بھی ایک “قرارداد” پاس کی تھی جس میں اسلام آباد اور ملک کے تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹ یونین کے قیام پر زور دیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی اس قرار داد میں یونین سازی کے حق کے قانون میں پرتشدد سرگرمیوں کے حوالے سے صفربرداشت کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔ وفاقی اسمبلی کے نزدیک یہ صوبائی معاملہ تھا اس لیے صوبائی حکومتوں کو تجویز دی گئی کہ وہ اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے صوبوں کے تعلیمی اداروں کی “یونینوں” کا جائزہ لیں۔ شاید وفاقی اسمبلی کے قانون سازوں کو یہ نکتہ سمجھنے میں عمرِ خضر درکار ہے کہ یونین سازی کا حق، چاہے یہ سیاسی ہو معاشی ہو یا تعلیمی، ملک کے تمام شہریوں کا حق ہے اور اسی لیے وفاقی اسمبلی نے اپنی قرارداد میں اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی کو اجتماع کی آزادی کے بنیادی آئینی حق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے!
اب سندھ کی صوبائی اسمبلی نے بھی طلباء یونین کی بحالی کی ایک “قرارداد” متفقہ رائے سے منظور کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی سعید غنی نے سندھ میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو “مشورہ” دیا ہے کہ وہ اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کے لیے وفاق کا انتظار نہ کرے بلکہ پہل کرتے ہوئے “اگر ضرورت پڑے تو” اس بارے میں قانون سازی کرتے ہوئے قانون لائے۔
سندھ اسمبلی کی متفقہ طور پر منظور قرارداد کے  ذ ریعے سندھ کی حکومت کو اسٹوڈنٹ یونین بحال کرنے کی سفارش کی ہے! ایک عجیب طرفہ تماشا ہے! قراردادیں، سفارشات اور تجاویز جبکہ  اسمبلیاں قانون ساز ادارے ہوتے ہیں جن کا کام ریاست کے قوانین بنانا ہے۔ اگر اسٹوڈنت یونین بنانے کا قانون ہی موجود نہ ہو تو حکومت اس پر عملدرآمد کیسے کرائے گی؟ اسٹوڈنٹ یونین بنانے کا قانون موجود نہیں البتہ اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی کا قانون موجود ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ قانون کے مطابق عمل کرے گی یا قرارداد کے مطابق؟ طلباء کو یونین بنانے کے لیے یونین سازی پر پابندی کے قانون کے خلاف قانون کی ضرورت ہے قراردادوں کی نہیں۔
مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ وغیرہ سب ایک طویل عرصے سے بظاہر متفق ہیں کہ طلباء کو یونین بنانے کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن اسٹوڈنٹ یونینوں پر پابندی کا کالا قانون ختم کرنے کے لیے قانون سازی کسی کی طرف سے سامنے نہیں آرہی۔ قراردادوں کے  ذریعے طلباء کو محض تھپکیاں اور  تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ اصل کام یعنی قانون بنانا اور نافذ کرنا نہیں کیا جا رہا۔ ایک طرف تو اسٹوڈنٹ یونین بنانے پر قانونی پابندی ہے لیکن دوسری طرف دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے اپنی طلباء تنظیمیں بنا رکھی ہیں! اس منافقت کا سبب کیا ہے؟ اگر اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کی اسٹوڈنٹ یونین موجود ہیں تو پھر اسٹوڈنٹ یونین بنانے پر  پابندی عائد کیوں ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ پابندی ان طلباء کے لیے ہے جو ملک کی اشرافیہ کے  استحصالی تعلیمی نظام کی زنجیروں سے اپنے حقوق کو آزاد کرانے کی تمنا رکھتے ہیں۔
یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے طلباء کو یونین بنانے کا پورا حق ہے اور اسی طرح ہے جس طرح دنیا کی کسی بھی جمہوری ریاست کے طلباء کو حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے طلباء کو ماضی میں یہ حق حاصل تھا جسے ایک فوجی آمر (نام: جنرل ضیاء الحق) نے پاکستان کے طلباء سے چھینا تھا۔ پاکستان کے طلباء کو ان کا یہ جمہوری حق چاہیے جھوٹے وعدے نہیں۔ طلباء کو یونین سازی کے حق کا قانون چاہیے وفاقی اور صوبائی دونوں سطح پر۔ وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں صرف قراردادیں منظور نہ کریں بلکہ یہ قانون بنائیں۔ کیا پاکستان حقیقی معنی میں ایک جمہوری ریاست ہو سکتا ہے اگر اس کے شہریوں کو ایک بنیادی جمہوری حق یعنی اس کے طالبِ علم شہریوں کو یونین سازی کا حق حاصل نہ ہو؟
حکمران سرمایہ دار اشرافیہ کی سیاسی پارٹیوں کی طلباء تنظیمیں طلباء کے تعلیمی مسائل کو  حل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے طلباء کو اپنی سیاسی پارٹیوں کی طبقاتی پالیسیوں کے تحت مذہبی، فرقہ ورانہ، قومیتی، صنفی، لسانی اور علاقائی اکائیوں میں تقسیم کیے رکھتی ہیں۔ یہ طلباء تنظیمیں غریب اور نچلے متوسط طبقے کے طلباء کے مسائل کی نمائندگی نہیں کرتیں جن میں فیسوں میں مسلسل اضافہ، تعلیمی سہولیات کی ابتری، حکومت کی جانب سے تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں وغیرہ شامل ہیں جن سے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے طلباء اور ان کے خاندان بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
مردان یونیورسٹی کے طالبِ علم مشعال خان شہید نے جو خود ایک نچلے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا غریب اور نچلے متوسط طبقے کے طلباء کے حق کے لیے آواز اٹھائی اور انہیں منظم کرنا چاہا تو بلاسفیمی کی منافقانہ آڑ لے کر اسے سفاکیت سے قتل کردیا گیا۔ وفاقی اسمبلی کی منظور کردہ قرار میں کہا گیا ہے کہ اگر اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی نہ ہوتی تو مشعل خان کا قتل نہ ہوتا۔ اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی لگا کر طلباء کو حکمران طبقے کی طالبِ علم اور علم دشمن سیاسی پارٹیوں کی سیاسی طلبہ تنظیموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے تعلیمی حقوق کے لیے متحد ہو کر جدوجہد نہ کر سکیں۔
تعلیم کو حکمران اشرافیہ اور درمیانے طبقے تک محدود رکھنے کے لیے، غریب اور متوسط طبقے کے طلباء کو نیم تعلیم یافتہ اور بے شعور رکھنے کے لیے، انہیں تعلیم کا جمہوری حق نہ دینے کے لیے اور تعلیم سے دولت کمانے کے لیے یونین سازی پر قانونی پابندی قائم رکھی گئی ہے تاکہ اول تو غریب اور متوسط طبقے کے طلباء اپنے تعلیمی حقوق اور طبقاتی استحصال کے لیے مشترکہ جدوجہد کا قدم ہی نہ اٹھا سکیں اور اگر قدم اٹھا لیں تو انہیں اسٹوڈنیٹ یونین پر پابندی کے کالے قانون کی آڑ لے کر کچلا جا سکے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں شہریوں کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ان کے سیاسی نمائندے جن کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کے جمہوری حقوق اور مطالبات کے مطابق قانون سازی کریں تاکہ ملک عوامی امنگوں کا آئینہ دار ہو وہ اپنے طلباء کو یونین سازی کا قانونی حق دینے پر منافقانہ  رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کے لیے قراردادیں کافی نہیں۔ اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کا قانون نافذ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے طلباء ایک نیا قانون چاہتے ہیں جو پاکستان کے تمام طلباء کو اسٹوڈنٹ یونین بنانے کا ناقابلِ تنسیخ جمہوری حق دے اور اس حق کی کسی بھی صورت اور حالت میں پامالی کو غیر قانونی اور قابلِ سزا جرم قرار دیے۔ پاکستان کے طلباء کو اپنے حق کے لیے قرار داد نہیں بلکہ موثر قانون چاہیے!

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply