• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرکوک میں کیا ہوا؟ آگے کیا ہوگا؟۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

کرکوک میں کیا ہوا؟ آگے کیا ہوگا؟۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

کرکوک شمالی عراق کا ایک انتہائی اہم شہر ہے۔ اس میں عرب، کرد، ترکمان اور ایزدی نسل کے لوگ آباد ہیں، اسی طرح مسیحی، یہودی، ایزدی مذہب اور مسلمانوں میں شیعہ و سنی دونوں اس شہر کے باشندے ہیں۔ عراق کے جغرافیہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ یہاں مختلف اقوام اور مذاہب کے علاقے الگ الگ ہیں۔ شیعہ، سنی، کرد، ایزدی اور عرب سب کے الگ الگ علاقے ہیں۔ اس شہر کی اہمیت کی دوسری وجہ یہاں پر 1927ء میں دریافت ہونے والا تیل ہے، جس نے اس علاقے کو اقتصادی طور پر اہم بنا دیا ہے، تیل صاف کرنے کا ایک بڑا کارخانہ بھی لگایا گیا ہے۔ 2014ء میں داعش کا فتنہ ظہور پذیر ہوا تو اس بات کا خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہاں پر داعش قابض نہ ہو جائے، عراقی فورسز افراتفری کے عالم میں نکل گئیں اور کردستان کی پیشمرگہ فورسز نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یہ صورتحال اسی طرح جاری تھی کہ عراقی کردستان کے علیحدگی پسند رہنما مسعود بارزانی نے عراقی فورسز کو داعش سے مصروف دیکھ کر عراق سے علیحدگی کے لئے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ ریفرنڈم نے پورے خطے کو ایک بحران سے دوچار کر دیا۔ ایران، ترکی، شام اور عراق کی حکومتوں نے اسے ملتوی کرنے کا کہا، مگر بارزانی کو اپنے مغربی اتحادیوں سے کچھ زیادہ امیدیں تھیں، اس لئے اس نے ریفرنڈم ملتوی کرنے سے انکار کر دیا۔

اس ریفرنڈم میں اسرائیل کے جھنڈے سر عام لہرائے گئے، جسے مغربی اور اسرائیلی میڈیا نے خاص کوریج دی۔ یروشلم پوسٹ نے اس پر پوری رپورٹ تصاویر کے ساتھ شائع کی۔ اسرائیلی جھنڈوں نے ترکی، عراق اور ایران کی حکومتوں کو فوری طور پر متحد کر دیا۔ ایران اور ترکی نے بارڈرز بند کر دیئے، عراقی حکومت نے فوری طور پر تمام سرحدی چیک پوسٹس اور ائرپورٹس حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس سب کے باوجود یہ ریفرنڈم ہوا، جس کے نتائج کے بارے میں کہ گیا کہ 92 فیصد لوگوں نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ جیسے ہی نتائج کا اعلان ہوا، بہت سی جگہوں سے عراقی پرچوں کو اتار کر اس کی جگہ پر کردستان کے جھنڈے لہرا دیئے گئے۔ عراقی قوم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا، عراقی وزیراعظم حید العبادی نے قوم سے خطاب کیا۔ پہلے مرحلے میں افواج اور حشد الشعبی کو احکام جاری کئے گئے کہ وہ کرکوک کو آزاد کرائیں۔ کرکوک پیشمرگہ کے قبضہ میں تھا، جس کی بہادری اور تربیت کی داستانیں بیان کی جاتی تھیں۔ عراقی فوج کی پیش قدمی کے ساتھ ہی کرد میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھرپور دفاع کی مہم کا آغاز کیا گیا، کچھ ایسا دکھانے کی کوشش کی گئی جیسے ہزاروں نئے پیشمرگہ فورس کے جوان کرکوک میں تعینات کئے جا رہے ہیں۔ جیسے ہی عراقی فوج کرکوک کے قریب پہنچی تو اس نے چند ابتدائی جھڑپوں کے ساتھ ہی آئل ریفائری اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ پیشمرگہ فوج پیچھے ہٹ گئی اور جس طرح داعش نے بغیر لڑے ہی موصل پر قبضہ کر لیا تھا، اسی طرح عراقی فوج نے تقریباً بغیر لڑے کرکوک پر قبضہ کر لیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ جس شہر کے لوگوں کی اکثریت کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ انہوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ہے، جیسے ہی عراقی فورسز کرکوک میں داخل ہوئیں، انہوں نے فورسز کا والہانہ استقبال کیا۔

ایسا کیا ہوا کہ ایک شام پہلے تک الجزیرہ اور انٹرنیشنل میڈیا پر لڑنے کی تیاری میں مصروف پیشمرگہ فوج بغیر لڑے چلی گئی۔؟ اس حوالے سے مختلف آراء موجود ہیں، ماہرین یہ کہتے ہیں کہ پیشمرگہ فوج عراقی فوج سے لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تھی، ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ پیشمرگہ کے دو گروپ ہیں، ایک پی کے یو اور دوسرا آئی ڈی پی۔ ان دونوں کے درمیان اختلافات موجود تھے، جن پر قابو نہ پایا گیا اور عین جنگ کے دن یہ اختلافات اس باعث بنے کہ کرکوک عراقی فورسز کے کنٹرول میں چلا گیا، کچھ سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ پیشمرگہ کا ایک بڑا حصہ یہ سمجھتا ہے کہ عراق کے ساتھ رہنے میں ہی بھلائی ہے، ان کے مسعود بارزانی کے ساتھ اختلافات تھے، جس کی وجہ سے کوئی مزاحمت نہ ہوئی اور انہوں نے خود شہر کو اپنی ہی فورسز کے حوالے کر دیا۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرد جماعتوں میں جو اختلافات موجود ہیں، ان کا اثر پیشمرگہ پر بھی پڑا۔ مسعود بارزانی مخالف گروپ کے جنگجوں نے عین وقت پر عراقی فورسز کے لئے پوزیشنز چھوڑ دیں۔ ان میں سے کوئی ایک یا دو وجوہات ہوسکتی ہیں کہ کرکوک آسانی سے عراقی فورسز کے پاس آگیا۔ کرکوک کا عراق کے پاس آنا اس کی قومی سلامتی کے لئے انتہائی ضروری ہوگیا تھا۔ عراقی ریاست اگر اپنی طاقت نہ دکھاتی تو اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی مکمل تیاری ہوچکی تھی۔ کرکوک کی عوام نے عراقی فورسز کا اتنا شاندار استقبال کیوں کیا؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے، اگر کرکوک کردستان کا حصہ بنتا تو اس سے عرب، ترکمان اور ایزدی شناخت کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا یا کم از کم وہ اقلیت میں خوف کی زندگی گزارتے، کیونکہ کردستان کے قیام کا مطالبہ نسل کی بنیاد پر ہے۔ اس کے مقابل عراق ایک کثیر القومی و مذہبی ریاست ہے، جس میں تمام لوگ برابر کے شریک ہیں، اسی لئے جب کرکوک عراقی فوج کے ہاتھ میں آیا تو ان تمام گروہوں نے جشن منایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عراق نے اس پوری صورت حال سے کیا حاصل کیا؟ کرکوک پر قبضے نے عراقی حکومت کو خطے اور پوری دنیا میں ایک نئی شناخت دی ہے، اب لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ عراق کی فوج اور وہاں کے ادارے مضبوط ہو رہے ہیں، وہاں فیصلہ کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی صلاحیتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس واقعہ نے عراق، ایران اور ترکی کو ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا ہے، کیونکہ کردوں کا خطرہ صرف عراق کیلئے خطرہ نہیں بلکہ یہ خطے کے تمام ممالک کے لئے خطرہ ہے۔ داعش کے بچے کھچے عناصر پھر سے جمع ہونے کی کوشش میں تھے، مگر اب ان کے حوصلے پست ہوگئے ہیں، عراقی آرمی کو اپنی قوت و طاقت کا اندازہ ہوا ہے، خود پر اعتماد بڑھا ہے۔ اسی طرح عوام کا اعتماد بھی بڑھا ہے۔ عراقی فورسز نے تقریباً ان تمام علاقوں کو دوبارہ فتح لیا ہے، جن پر 2014ء میں ان کا قبضہ تھا۔ اس واقعہ نے مسعود بارزانی اور ان کی جماعت کے حوصلوں کو توڑ دیا ہے۔ اب عراقی حکومت مکمل اعتماد کے ساتھ ان سے مذاکرات کرے گی، اسی لئے عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے درست کہا کہ ریفرنڈم ماضی کا حصہ بن گیا، اس پر مزید بات نہ کی جائے۔ اب عراقی آئین کے مطابق مذاکرات کئے جائیں گے۔ اب حکومت سیاسی و فوجی برتری کے ساتھ بہتر انداز میں اپنا موقف منوا سکے گی۔ یہ ایک موقع ہے کہ حیدر العبادی پیشمرگہ کے مسئلے کو حل کر لیں، اسے ایک فیڈرل فورس کا درجہ دیکر باقاعدہ عراقی فوج کا حصہ بنا لیں، اس سے کردوں میں موجود غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی اور ریاست کے مدمقابل آنے والا گروہ اس کی طاقت بن جائے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply