امریکی سیاسی دھارا کس سمت بہے گا؟۔۔عمیر فاروق

امریکہ میں وفاقی ادارے ایف بی آئی کی رپورٹ ہے کہ صدر جو بائیڈن کے حلف اٹھانے کے موقع پہ واشنگٹن سمیت پچاس امریکی ریاستوں کے دارالحکومت میں مسلح مظاہروں اور خون خرابے کاخدشہ ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ ٹرمپ تو چلا جائے گا لیکن اسکا بھوت امریکی سیاست پہ تادیر منڈلاتا رہے گا ٹرمپ نہ سہی کوئی اور سہی، گراس روٹ لیول پہ موجود اس بے چینی کے نمائندے کی حیثیت سے سامنے آئے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اس بے چینی کی نوعیت کیا ہے جو شاید آئندہ امریکی سیاست کا ایک مستقل ٹرینڈ بھی بن سکتی ہے؟ اسکو سمجھنے کے لیے امریکہ کے مخصوص سیاسی ، معاشی اور سماجی ماحول کو جاننا ضروری ہے جو اسے باقی دنیا سے جدا کرتا ہے۔
امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلم دنیا کے لیے مذہب کی جو اہمیت ہے اور باقی دنیا کے لئے تہذیب کی، امریکہ میں وہی حیثیت اس کے آئین کی ہے۔ یہ ایک ایسی نئی قوم تھی جس نے اپنے سفر کا آغاز براہ راست وقت کے ترقی یافتہ ترین معاشرے اور دنیا کے پہلے تحریری آئین سے کیا، لیکن امریکی جمہوریت کا تصور ٹیوڈورین جمہوریت ہے جو ہابز، لاک اور آدم سمتھ جیسے فلسفیوں کے لبرل جمہوری تصور پہ مشتمل ہے جہاں ریاست کو ایک لازمی برائی کے طور پہ مجبوراً قبول کیا جاتا ہے اور بنیادی تصور یہ ہے کہ ریاستی مداخلت کے بغیر ہی معاشرہ زیادہ معاشی اور دیگر ترقی حاصل کرسکتا ہے۔ اس تحریری آئین میں برطانیہ کے غیر تحریری آئین کی طرح لچک موجود نہ تھی جو وقت کے ساتھ بدلتے تصورات اور ضروریات کو خود میں سمو سکتا، چونکہ دوسرے آئین کی تشکیل کے بعد انکی ترقی بلا کسی رکاوٹ چلی آئی سو انکی نظر میں وہ بالکل درست جگہ کھڑے تھے اور باقی دنیا انکے مقابلے میں بہت پسماندہ لہذا انکے لئے تاریخ کا سفر linear progress یا خطی سفر پہ مشتمل تھا باقی دنیا کی طرح تاریخ کے دائروی سفر سے مکمل طور پہ ناآشنا، یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے ٹیوڈورین جمہوریت کے تصور پہ کبھی نظرثانی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
آزادی کے بعد امریکہ جب ابتدائی تیرہ ریاستوں سے باہر مغرب کی سمت پھیلنا شروع ہوا تو یہ جمہوری آئیڈیل انکے لئے بہت کارآمد ثابت ہوا، کسی ریاست یا ریاستی یا وفاقی حکومت کے بغیر ، وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے بلدیاتی ادارے ، پولیس ججز وغیرہ خود منتخب کرکے اپنا کام چلاتے رہے لہذا ریاست کی عدم مداخلت اور فرد کی آزادی کا یہ تصور ویسٹ اور مڈویسٹ کے زرعی معاشرے کی سائیکی کا حصہ بن گیا۔حتی کہ اسلحہ رکھنا امریکہ میں فرد کے بنیادی انسانی حقوق کا ایک لازمی جزو قرار پایا جسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ دو مختلف امریکہ کی تشکیل ہونا شروع ہوئی۔ پرانی تیرہ ریاستیں جو مشرقی ساحل پہ واقعی تھیں ،میں سرمایہ اور صنعت کا ارتکاز ہوتا گیا بینک یہیں سے تعلق رکھتے تھے اور یہ علاقہ اپنی ہیئت میں یورپ کی طرح ترقی یافتہ اور امیر ہوتا گیا۔ جبکہ مغرب اور جنوب زرعی اور دیہاتی تھا جو معاشی اعتبار سے ترقی پذیر تھا۔
اب یہاں دونوں امریکاؤں میں معاشی تضاد پیدا ہونا شروع ہوگیا مشرقی ریاستیں سخت اور غیر لچکدار کرنسی پسند کرتی تھیں تاکہ قیمتیں مستحکم رہیں، افراط زر اور مہنگائی نہ پھیلے، درآمدات سستی ہوں اور برآمدات کا عوض زیادہ ملے ، جبکہ مغرب کو لچکدار کرنسی میں بہتری لگتی تھی تاکہ اس ہلکے پیمانے کے افراط زر کے باعث انکی زمینوں اور جائیدادوں کی اچھی قیمت لگے انہیں اپنے رقبوں کو ترقی دینے کے لئے آسان شرائط پہ قرضہ مل سکے لیکن وقفے وقفے سے یہ افراط زر ہمیشہ کنٹرول سے باہر ہوجاتا تھا جس کے باعث مارکیٹ کریش کرجایا کرتی تھی نتیجاً زرعی امریکہ میں لوگ دیوالیہ ہوجایا کرتے تھے اور اپنے قرضے ادا نہیں کر پاتے تھے البتہ مشرقی ساحل کے بینکس ہر صورت میں منافع سمیٹ لیا کرتے تھے اس باعث مغرب اور زرعی امریکہ میں بینکنگ کارپوریشنز کے بارے میں ہمیشہ گہری بداعتمادی موجود رہی۔ انیسویں صدی کے ابتدائی وسط کا مشہور صدر اینڈریو جیکسن زرعی بیلٹ سے تعلق رکھتا تھا اور اسی بداعتمادی کے باعث اس نے امریکہ کا پہلا فیڈرل ریزرو بینک توڑ دیا تھا کیونکہ اسکو برائی اور مسائل کی جڑ تصور کرتا تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب صدر وڈرو ولسن نے موجودہ فیڈرل ریزرو بینک کے قیام کی اجازت دی تو اس کے کچھ ہی بعد اپنے اس فیصلہ پہ باقاعدہ طور پہ پچھتایا۔ امریکہ کے اندر مغربی ریاستوں کی اس رُورل ریپبلک اور مشرقی ساحل کی ریاستوں کی اربن ڈیموکریسی کی کشمکش ہمیشہ جاری رہی۔ بہت سے امریکی تاریخ دان امریکی سول وار اور غلامی پہ پابندی کو بھی اربن ڈیموکریسی کے king wheat اور صنعت کے جنوب کی رورل ریپبلکس کے king cotton کے ساتھ کشمکش سے تعبیر کرتے ہیں۔
بہرحال اس صورت حال میں جوہری تبدیلی تیس کی دہائی کے اواخر میں گریٹ ڈپریشن کے بعد آئی جب امریکی صدر روزویلٹ نے “ نیو ڈیل” کی صورت میں اسکا حل نکالا اور پہلی بار امریکی وفاق نے انفراسٹکچر ، ڈیموں اور آبپاشی کے لمبے چوڑے پروگرام کا آغاز کیا ،کہا جاتا ہے کہ نیو ڈیل نے ہی امریکہ کو ایک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک میں بدل دیا، اس کے ساتھ ہی دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا ترقی یافتہ صنعتی دنیا جنگ سے برسرپیکار تھی لہذا اسلحہ سمیت امریکہ کی ہر قسم کی صنعت کو غیر معمولی پھیلاؤ ملا ،یوں نہ صرف امریکہ کا مڈویسٹ زرعی سے صنعتی ہوگیا بلکہ صنعت کی خوشحالی کا اثر سارے امریکہ پہ پھیلا۔ اس کے ساتھ ہی یہ تبدیلی بھی ہوئی کہ دنیا کا تقریباً ستر فیصد سونا امریکہ کے پاس جمع ہوگیا جس سے امریکی ڈالر کو گولڈ سٹینڈر ملا اور لچکدار یا غیر لچکدار کرنسی کے پرانے قضیہ سے بھی نجات مل گئی۔
ادھر جنگ عظیم کے بعد یورپ اپنے پاؤں کی طرف دیکھ رہا تھا اسکا صنعتی ڈھانچہ تباہ ہوچکا تھا بیروزگاری تھی اور مشرق کی جانب سے کیمونزم کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا تھا اسے خطرہ تھا کہ ان حالات میں محروم آبادی کیمونسٹ انقلاب کی طرف نہ بڑھ جائے سو سوشل ڈیموکریسی کا آئیڈیل کامیاب ہوا ،لوگوں کو تعلیم ، صحت ، روزگار اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری تصور کیا جانے لگا۔
لیکن امریکہ نے اس سب کو منفی نظر سے دیکھا، انکی نظر میں یہ پرانی دنیا کے بوسیدہ سسٹم کے مسائل تھے جن سے انکا کوئی تعلق نہ تھا وہ بالکل ٹھیک جارہے تھے اور اپنی تاریخ کے غیر معمولی خوشحالی کے دور سے گزر رہے تھے تو وہ بہترین کام کرتا سسٹم چھوڑ کر بنیادی تبدیلیاں کیوں کریں؟ ریاست کی طرف سے تعلیم ،صحت اور کاروبار میں مداخلت کو سرایت کرتے سوشلزم creeping socialism سے عنوان کیا گیا اور میکارتھی ازم کی شکل میں اسکی باقاعدہ سخت مخالفت ہوئی۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ امریکہ کا ویسٹ اور مڈ ویسٹ اس میکارتھی ازم کا پوری  طرح سے نہ صرف حصہ دار تھا بلکہ وہاں اس آئیڈیل کا اثر بہ نسبت زیادہ گہرا تھا گویا یہ وہ امریکہ تھا جسے ہم ڈیپ امریکہ America profundity کہہ سکتے ہیں اور آج یہی بے چینی کا مرکز بھی ہے۔
دراصل یہ وہ امریکہ ہے جو ہماری پیدائش سے قبل وجود میں آچکا تھا اور جسے ہم پہلے دن سے اسی طرح دیکھنے کے عادی تھے اور اسکی linear progress کے بھی،لیکن نوے کی دہائی کی گلوبلائزیشن اور نیولبرلزم بہت بڑی تبدیلیاں لے کر آیا، امریکہ صنعت سے خالی ہوگیا اور امریکی صنعت مشرقی ایشیا کو منتقل ہوگئی جسکی وجہ سے مڈویسٹ جو تب صنعتی ہوچکا تھا متروک صنعتوں کی وجہ سے زنگ آلود بیلٹ rust belt سے مشہور ہوگیا۔ تب یہ تصور کیا گیا کہ امریکہ صنعتی دور سے نکل کر بعد از صنعتی دور post Industrial age میں داخل ہورہا ہے اور اب ملازمتیں صنعت کی بجائے سروسز میں ملیں گی کام نسبتاً ہلکا لیکن زیادہ معاوضہ والا ہوگا اور اعلی پروفیشنلز کا دور ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ نکلی کہ سروسز اتنی ملازمتیں پیدا ہی نہ کرسکی جو پیدا ہوئیں انکی اجرت واقعی بہت اچھی تھی لیکن محدود ، اعلیٰ سپیشلائزڈ پروفیشنل ہر بندہ نہ بن سکا اور اس میں بھی غیر ملکی تارکین وطن کا کافی حصہ تھا۔ اس ساری صورت حال میں مشرقی ساحل کی ریاستوں کے علاوہ کیلیفورنیا کی سیلیکون ویلی میں تو خوشحالی کے جزیرے پیدا کئے لیکن روُرل امریکہ اور مڈویسٹ اس سے محروم رہا بیروزگاری بھی بڑھی اور لوگوں کی قوت خرید بھی کم ہوئی اسی طرح زیادہ اور کم آمدن کی تفاوت مزید بڑھی۔
یہی وہ سفید فام اینگلو سیکسن اکثریت کا حامل رُورل امریکہ ہے ، یعنی ویسٹ اور مڈویسٹ جسکی عمومی بے چینی کو ٹرمپ نے زبان دی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ، روایتی سیاست اور میڈیا کی مخالفت کے باوجود الیکشن جیت کر آیا اور اسکے چین کے خلاف نعرے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ چین کو امریکی صنعتوں کے اخراج کا ذمہ دار گردانتا تھا اور امریکی صنعت کو واپس لانے کا وعدہ کرتا تھا۔
سو یہ وہ آج کا امریکہ ہے جو ہمارے سامنے ہے اور اسکی یہی بے چینی کی جڑیں ہیں۔ لگتا ہے کہ امریکہ کو اپنی تاریخ میں پہلی بار تاریخ کی خطی حرکت linear progress کی بجائے دائروی حرکت کا سامنا ہے امریکہ پھر انیسیویں صدی کی طرح روُرل ریپبلک اور اربن ڈیماکریسی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو امریکی تاریخ میں انوکھا ہے۔
اگر یہ کچھ پرانی دنیا کے کسی ترقی یافتہ معاشرے میں ہوتا تو دو حل ممکن تھے ، طویل المدتی حل کے طور پہ صنعت کو بحال کرنا ، جس میں دہایاں لگ جانا معمولی بات ہے دریں اثنا قلیل المدتی حل کے طور پہ سوشل ڈیمو کریسی کے سوشل سیکورٹی کے تصور پہ عمل کرنا۔
لیکن کیا امریکہ کے پاس بھی یہ حل میسر ہیں؟
اسکا جواب نفی میں ہے کیونکہ وہ لاشعوری طور پہ مذہب یا تہذیب کی بجائے آئین کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ٹیوڈورین جمہوریت کا تصور نہ صرف آئین میں بلکہ عوام  کی سائیکی میں بھی پوری طرح سے راسخ ہے جس میں ان حل ہائے کی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس تصور کی کہ ریاست یا وفاق معیشت کو براہ راست کنٹرول کرے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ روُرل امریکہ میں یہ آئیڈیل مشرقی ساحل کی خوشحال ریاستوں کی نسبت زیادہ راسخ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے امریکی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے اور امریکی سیاسی شعور کا دھارا کس جانب بہتا ہے؟
کیا وہ رفتہ رفتہ پرانی دنیا کے سیاسی آئیڈیلز ، سوشل ڈیموکریسی وغیرہ ، کی جانب بڑھنے لگتے ہیں یا کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں ؟
کیا امریکہ کا اندرونی سیاسی ماحول واپس انیسویں صدی کے روُرل ریپبلک اور اربن ڈیموکریسی کی کشمکش کی طرف جاتا ہے ؟ تو اسکا جواب ہے کہ فوراً تو ہرگز نہیں اور اس کی وجہ ڈالر ہے ، جو گولڈ سٹینڈرڈ کا حامل تو اگرچہ اب نہیں لیکن پھر بھی عالمی تجارت کی کرنسی ہے سو اگر فیڈرل ریزرو امریکی تجارت اور بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے ڈالر چھاپتا ہے تو اس کے نتیجے میں پھیلنے والے افراط زر کا بوجھ اکیلے امریکی عوام پہ نہیں ہوگا بلکہ ساری دنیا پہ پھیلنے کے باعث امریکی عوام کو اتنا فرق نہیں پڑے گا۔
لیکن اگر دنیا تجارت کے لئے امریکی کرنسی پہ انحصار کم کرتی جاتی ہے تو یہ بوجھ اسی تناسب سے امریکی عوام پہ بڑھتا جائے گا اور یہ پہلے سے موجود مسائل میں نئی مشکل کا اضافہ ہوگا۔ تب صورت حال دھماکہ خیز بھی ہو سکتی ہے۔
کیا آنے والے سالوں اور دہائیوں میں اس کے نتیجے میں رُورل امریکہ میں وائٹ سپرمیسی کا تصور مقبول ہونا شروع ہوجائے گا، جس کے نتیجے میں رنگدار نسلوں، یہودیوں اور تارکین وطن کے خلاف تعصب اور نفرت کی سیاست جنم لے ؟
کیا ریاستوں کی کوئی نئی گروپنگ جنم لے گی جو ملتی جلتی معیشت کی حامل ریاستوں کے نئے گروپ پیدا کرے ؟
یہ آنے والے سال یا دہائیاں ہی بتائیں گی باٹم لائن یہ ہے کہ سفید فام روُرل امریکہ کے موجودہ مسائل کا حل روایتی سیاست میں ممکن نظر نہیں آتا بلکہ یہ صاف نظر آتا ہے کہ بائیڈن کی آمد کے بعد جس realignment کی جانب جھکاؤ نظر آتا ہے اس کے نتیجے میں گلوبلائزیشن میں اضافہ ہی ہوگا اسی تناسب سے چین کے ساتھ تجارتی خسارہ میں بھی ، گویا جس ٹرینڈ کے خلاف روُرل امریکہ بے چینی کا شکار ہورہا تھا اس میں اضافہ ہی ہوگا جسکا اثر اگلے الیکشن میں نظر آئے گا اور انکا سیاسی رجحان مزید واضح ہوجائے گا۔ فی الحال تو یہ دیکھنا ہے کہ جو بائیڈن کا دور کیسا گزرتا ہے جو ان علاقوں اور طبقات کی بے چینی میں اضافہ کرسکتا ہے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply