تعلیم و تربیت

آج کے معاشرے کا اگر سن ۲۰۰۰ سے پہلے والے معاشرے کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو مالی اعتبار سے یہ بہت ہی خوشحال معاشرہ ہے۔ موجودہ دور میں شاید ہی آپ کو کسی مکان کی چھت کچی نظر آئے، کوئی دکاندار سے ایک پاؤ گھی یا چینی کا مطالبہ کرے اور وہ بھی ادھار، نئے جوتے اور کپڑے صرف عید پر خریدے جائیں ۔ لوگ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم دلواتے تھے کیونکہ وہ پرائیویٹ سکول کی ۱۰۰ سے ۲۰۰ روپے ماہانہ فیس ادا کرنے سے قاصر تھے۔ سرکاری سکول کی ماہانہ فیس برائے نام تھی لیکن پھر بھی ٹیچر کو اکٹھا کرتے ہوئے آدھا ماہ گزر جاتا تھا۔ صرف امراء کے بچے نئی کتابیں اور گائیڈ خریدتے تھے۔ رکشہ اور سکول وین کا کوئی تصور نہیں تھا۔ سکول کے بعد ٹیوشن پڑھنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ سکول جانے والے بچے سے اچھے اخلاق و عادات کی توقع کی جاتی تھی اور اگر کوئی بچہ گالیاں دے یا بد تمیزی سے پیش آئے تو بزرگ یہی کہتے تھے کہ تمہارا سکول جانے کا کیا فائدہ، کیا یہی سب کچھ پڑھ کر آتے ہو حتیٰ کہ ٹیچر سے بچے کی شکایت لگائی جاتی تھی۔
آج کے دور میں والدین سب سے زیادہ پیسہ اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ نت نئے اور مہنگے سکولوں کی بہتات ہے اور تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بچوں کو مہنگے ترین سکول میں داخل کروایا جاتا ہے جہاں ماہانہ فیس کا سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیفارم ،بکس اور دیگر اخراجات کی کوئی انتہا نہیں، سکول وین کا الگ خرچہ، سکول کے بعد گھنٹوں کے حساب سے مہنگی ترین ہوم ٹیوشن اور اکیڈمی۔ تعلیم کا مقصد صرف اعلیٰ نمبروں اور CGPAکے ساتھ ڈگری کا حصول رہ گیا ہے۔ اس کے باوجود کسی بھی ٹیسٹ اور سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے تناسب نے اعلیٰ حکام کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ تعلیمی معیار دن بدن انحطاط کا شکار ہے۔ تیز رفتار، مشینی اور نفسا نفسی کے موجودہ دور میں تعلیم پر ہزاروں خرچ کرنے والے والدین جو نقطہ فراموش کر رہے ہیں وہ بچے کی تربیت یا شخصیت سازی ہے۔ کسی دور میں تعلیمی ادارے تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی شخصیت سازی پر بھی توجہ دیتے تھے لیکن آجکل صرف رٹاّ لگوا کر زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ کالجوں،یونیورسٹیوں میں آسانی سے دستیاب منشیات اور اور نئی نسل میں اس کے استعمال کا تیزی سے بڑھتا رجحان کسی طوفان سے کم نہیں۔ دوسری منشیات کو چھوڑیں آپ سکول، کالج کے قریب واقع دکان پر سگریٹ پیتے طالبعلموں کی تعداد کو ہی دیکھ لیں۔ والدین کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ بچے کی تربیت پر توجہ دیں جس کی بدولت ایک بدتمیز، اخلاقیات سے عاری، برداشت سے ناواقف، میٹھے بولوں سے عاجز، مادرپدر آزاد، بے راہ روی کا شکار اور پڑھی لکھی جاہل نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق بہترین تحفہ جو والدین اپنی اولاد کو دے سکتے ہیں وہ اچھی تربیت ہے۔اگر بچے کو ماں کی گود اور وقت ہی نہیں ملے گا تو پھر اس کی کیا تربیت ہو گی۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے حاصل ہو نے والی تعلیم سے اگر آپ میں تبدیلیاں رونما نہیں ہو تیں تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
؂علم کز تو ترا نہ بستاند (جو علم تجھے تجھ سے نہ لے لے)
جہل زاں بہ بود بسیار (اس علم سے جہل بہتر ہے)۔
جتنی بھی قومیں دنیا میں بلند ہو ئیں کردار ہی کی بدولت ہوئیں نہ کہ صرف ڈگریوں کی بدولت۔ اس لیے انسان کا کردار ایسا ہونا چاہیے جس کی رفعت کو کوئی مات نہ دے سکے۔ جتنے بھی پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے انہوں نے لوگوں کو اللہ کی واحدانیت کی طرف بلانے کے ساتھ ساتھ جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ اخلاقیات کا درس تھا۔ مسیحت اخلاقیات سے بھری پڑی ہے۔ عرب جیسا جاہل معاشرہ جس کا بے راہ روی میں کوئی ثانی نہیں تھا، جہاں بچیوں کو زندہ گاڑ دیا جاتا تھا، مردار کھایا جاتا تھا، زنا اور شراب عام تھی، پانی پینے پلانے اور گھوڑا آگے بڑھانے پہ قتل و غارت شروع ہو جاتی تھی۔لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ ایکدوسرے کے خون کے پیاسے بھائی بھائی بن گئے، دنیا ہی میں جنت کی بشارتیں حاصل کرنے لگے، ستاروں سے تشبیہہ دیئے جانے لگے، روم و ایران ان کے قدموں میں آگئے، اللہ تبارک فرمانے لگتا ہے کہ یہ گناہ بعد میں کریں گے میں معاف پہلے کر دوں گا۔ یہ سب آپﷺ کی اخلاقی تربیت کا نتیجہ تھا۔ وقت گزرتا گیا اور آپﷺ کے تربیت یافتہ عروج حاصل کرتے رہے لیکن جب بعد والوں نے تعلیم و اخلاق محمدیؐ کو فراموش کرنا شروع کر دیا تو پھر قتل و غارت اور زوال سے بھری تاریخ ہے۔ ایک باپ اپنے نومولود بیٹے اور بیوی کو بے آب و گیاہ خطہ میں چھوڑ آتا ہے اور کچھ عرصہ بعد آکے کہتا ہے کہ بیٹا میں نے تمہیں اللہ کے حکم کے مطابق قربان کرنا ہے تو بیٹا یہ نہیں کہتا کہ جس بیٹے کو ٹافیاں کھلاتے رہے ہو، جسے جھولے جھلاتے رہے ہو اسے جا کر ذبح کروبلکہ کہتا ہے کہ ابا جی جلدی کریں۔ اقبالؒ کو اس منظر کشی پہ یہ کہنا پڑتا ہے،
؂یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔
یہ آدابِ فرزندی ماں کے دودھ ، ماں کی گود اور تربیت نے سکھائے تھے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply