طالبان کیا امن کے پیامبر کے ماننے والے ہیں؟ ایک مغالطہ

طالبان کیا امن کے پیامبر کے ماننے والے ہیں؟ ایک مغالطہ
عامر کاکازئی
کربلا کا میدان
ایک طرف ہمارے پیارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا لاڈلا نواسا حضرت امام حسین اپنے بہتر ساتھیوں کے ساتھ، جن میں عورتیں، مریض اور بچے تھے۔ نہ ان کے پاس سامانِ حرب، نہ ارادہ جنگ۔ اور سامنے یزید اور اس کے ساتھیوں کی فوج۔ یزید کی فوج نے پہلے ناکہ بندی کر کے پانی اور خوارک کو بند کیا اور پھر بےدردی کے ساتھ ایک ایک کو شہید کیا، حتیٰ کہ پانی مانگنے پر ننھے سے علی اصغر کو بھی تیر مار کر شہید کر دیا گیا۔ پھر کیسے یزید کی فوج نے حضرت امام حسین کو شہید کیا، قافلہ حسین کو لوٹا، اگ لگائی، کیسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی بیبیوں کو کوفہ کے بازاروں میں ننگے سر گھمایا گیا اور یزید کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کو بتانے کی نہ ہمت ہے نہ حرمتِ رسول اجازت دیتی ہے۔ بس تصور شرط ہے اور آپ کی انکھوں سے آنسوں کی جھڑی کو کوئی روک نا سکے گا۔

پاکستان۔افغانستان۔2016-1980

اس بار کربلا کا میدان پاکستان کا علاقہ پختونخواہ اور افغانستان تھا۔ اس بار بھی شہید ہونے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے تھے اور مارنے والے بھی مسلمان تھے۔ اب بھی ایک یزید تیار تھا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں کے سر کاٹنے کو، اس بار اس زمانے کے یزید نے اپنے ماننے والوں کا ایک پورا لشکر تیار کیا، وہ بھی امن کے مذہب اور امن کے پیامبر کے مقدس نام کو ہتھیار بنا کر اور اس جنگ کو جہاد کا نام دے دیا گیا۔ جہاد کا نام پینٹاگون میں دیا گیا۔ جس میں دنیا بھر کے دہشتگردوں کو منشیات اور بلیو پرنٹس کے پیسوں سے اکٹھا کیا گیا۔ ان کو نام دیا گیا، مجاہد۔ اس جنگ کو کفر کے خلاف قرار دے کر اسے ہر مسلمان پر فرض کر دیا گیا۔ کئی مسلمان ملک، کئی دہشتگرد گروہ، کئی مسلم تنظیمیں اور ہزاروں جنت کے خواست گار اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑے۔ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں نہ صرف افغانستان کے لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گے، بلکہ پاکستان کے بھی ہزاروں شہری اپنی جان سے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ مذہب کے نام پر ان دونوں ملکوں کے اپنوں نے اپنے ملک کے شہریوں پر مسلط کر دی۔
یہ جنگ ختم ہوئی، دشمن کو دریا ئے آمو کے پرے دھکیل دیا گیا، مگر یہ لڑائی پھر بھی ختم نہ ہوئی۔ اب ان گروہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا۔ اب کی بار کافر نہیں، بلکہ مسلمان آپس میں لڑنے کو تیار تھے۔ اس بار بھی ہر گروپ کا ایک ہی نعرہ تھا۔ جہاد، جہاد، ہر کوئی غلبہ اسلام کے لیے لڑ رہا تھا۔ ہر کوئی نعرے اللہ اکبر کے ہی لگا رہا تھا، مگر سر صرف مسلمانوں کے ہی اس نعرے پر کٹ رہے تھے۔ ایک بار پھر پنٹاگون حرکت میں آیا اور ایک نیا گروپ تشکیل دیا گیا۔ اس بار کچھ مدرسوں کے طالبان کو اکھٹا کر کے پڑوسی ملکوں کے ٹینکوں پر سوار کروا کر ایک بار پھر دہشت اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ ایک نظام اسلام کے نام پر تشکیل دیا گیا اور اسے نام دیا گیا۔ طالبانائزیشن۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ جب افغانستان میں طالبان کا گروپ منظرِ عام پر آیا تو اُسی وقت مالاکنڈ میں طالبان کا ہی ایک گروپ نفاذِ شریعت محمدی کے نام سے وجود میں آ چکا تھا۔ یہ ہی وہ گروپ تھا جو طالبان کی مدد کو گیا، جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان پر حملہ کیا۔اس حملے کے بعد شروع ہوا ایک تماشا، دہشت اور بربادی کا۔ ایک یزید کے بوۓ ہوۓ بیچ کی فصل تیار کھڑ‎ی تھی، جسے ہم نے کاٹنا تھا ۔
پھر آغاز ہوتا ہے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف وحشت، اور بربریت کےایک نیا کھیل کا۔ جس میں وقت کے یزیدوں نے ایک بار پھر سے نردوش انسانوں کا شکار کرنا شروع کیا۔ اس بار بھی ایک ہی نعرہ تھا۔ اللہ اکبر،اور مطالبہ تھا۔ شریعت کا نفاذ۔ اس مطالبہ کو حقیقت میں بدلنے کے لیے خودکُش حملہ آوروں کی ایک فوج تیار کر کے، حوروں کا لالچ دے کر انھیں چھوڑ دیا گیا ۔معصوم مسلمان عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر۔ یہ خود کو موت کے حوالے کر کے نہ صرف اپنے بلکہ درجنوں مسلمانوں کے جسموں کے بھی پرخچے اُڑا دیتے اور سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو عمر بھر کے لیے اپاہج بنا دیتے۔ ان شریعت کے متوالوں کا شریعت نافذ کرنے کا کیا طریقہ تھا، عقیل یوسف زئی کی کتاب طالبانائزیشن کے صفحہ 27 میں درج ہے کہ۔”وہ جو مخالفت کرتے ہیں یا ان کے جہاد سے متفق نہیں ہیں، انہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر زمین پر گرا کر جانوروں کی طرح ذبح کر دیا جاتا۔ ان پر تکبیر پڑ‎ھنا بھی ضروری سمجھا جاتا، کیونکہ تکبیر کے بغیر جانور حرام ہو جاتا ہے۔ اس دوران ایک عالم دین بھی موجود ہوتا ہے جو قران پاک کی تلاوت بھی کرتا جاتا ہے”یہ وہ درندے تھے جنہوں نے انسان کا روپ دھار رکھا تھا۔ یہ قران کی تلاوت بھی کرتے تھے اور انسانوں کو جانور کی طرح ذبح بھی۔ بس ایک سوال جو یہ مؤلف بہت عاجزی سے پوچھنا چاہتا ہے اپنے تمام ان عالمِ دین، اسلامسٹ اور دائیں بازو کے مفکرین سے جنہوں نے ان دہشتگردوں کی ہمیشہ حمایت کی ،کہ یہ کون سا مذہب ہے؟ یہ کون سا اسلام ہے؟ اور یہ طالبان کیسے مسلمان ہیں؟ اسلام کو تو امن اور سلامتی کے عالمی مذاہب میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسلام تو ہر انسان کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیتا ہے۔ دنیا کو ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پیار اور محبت کا درس دیا ہے۔ معافی اور رحمت تو ہمیشہ سے ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصّہ رہا ہے۔آپ ﷺکو تو غیر مسلم بھی رحمت للعالمین مانتے ہیں۔ مگر یہ تو انسانی وحشت، بربریت کی ایک ایسی مثال تھی کہ یزید، ہٹلر اور چنگیز خان بھی شرما گئے، ان کے مظالم دیکھ کر۔ مگر یہ اسلام نہیں تھا۔ یہ طالبانائزیشن تھی، جس کو کچھ مذہب، کچھ فقہ، کچھ ناقص روایات اور زیادہ تر پہاڑی کلچر کا لبادہ اوڑھا کر دُنیا کے آگے اسلام کے نام سے پیش کیا گیا۔ کچھ غیر مسلم شعراء کی شاعری پڑھیے کہ ان سب کو ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامِ محبت اور ان کی رحمت والی صفت کا پتہ ہے، مگر افسوس نہیں پتہ تھا تو ہمارے شریعت کے متوالوں کو۔
جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں کہ
سلام اس پر جو آیا رحمت للعالمین بن کر
پیام دوست لے کر صادق و امیں بن کر
سلام اس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
رہا جو بے کسوں کا آسرا مشفق غریبوں کر
پنڈت گیا پرساد خودی کا کہنا ہے کہ
زندگی میں زندگی کا حق ادا ہو جائے گا
تو اگر اے دل غلام مصطفٰے ہو جائے گا
رحمت للعالمین سے مانگ کر دیکھو تو بھیک
ساری دنیا سارے عالم کا بھلا ہو جائے گا
ہے یہی مفہوم تعلیمات قرآن و حدیث
جو محمد کا ہوا اس کا خدا ہو جاۓ گا۔
راجندر بہادر موج لکھتے ہیں کہ
حضرت کی صداقت کی عالم نے گواہی دی
پیغام الہٰی ہے پیغام محمد کا
اوہام کی ظلمت میں اک شمع ہدایت ہے
بھٹکی ہوئی دنیا کو پیغام محمد کا
فراق گورکھپور
انوار ہیں بے شمار معدود نہیں

رحمت کی شاہراہ مسدود نہیں

معلوم ہے کچھ تم کو محمد کا مقام

وہ امت اسلام میں محدود نہیں
ان ہندو شعراء کے خیالات سن کر اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں، آج اپنے مسلمان ہونے پر شرمندگی ہو رہی ہے کہ کس طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں نے دہشت کا بازار گرم کیا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے فرماتے “کسی بوڑھے، بچے، نابالغ لڑکے اور عورت کو قتل نہ کرو، اموال غنیمت میں چوری نہ کرو، جنگ میں جو کچھ ہاتھ آ جائے سب ایک جگہ جمع کر دو، نیکی اور احسان کرو کیونکہ اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد )یہ جنگ جو اسلام کے نام پر لڑی جا رہی ہے، اس میں تکلیف دہ بات یہ ہے کہ طالبان کے نام پر ان ظالم دہشتگردوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بھی اہمیت نہ دی، بوڑھوں بچوں اور خواتین کو بھی نہ بخشا۔ اس جنگ کی ہولناکی اور بربادی کی داستانوں کی تفصیلات ہمیں پشاور کے مشہور صحافی، عقیل یوسف زیہ کی دو کتابوں “طالبانائزیشن”اور “آپریشن ناتمام”سے ملتی ہیں۔عقیل یوسف زئی اپنی کتاب آپریشن ناتمام کے باب “جب زندہ لوگ موت کی دعا مانگنے لگے”صفحہ نمبر 210 میں لکھتے ہیں۔ “چوک یادگار کے علاقے نمک منڈی میں کیے گئے خودکش حملے کے بعد جب لوگ اپنے پیاروں کی تلاش کرنے نکلے تو کسی ایک کو بھی لاش صحیح اور سلامت حالت میں نہ ملی۔ زیادہ تر لاشوں کی شناخت بدن پر بچوں کے کپڑوں یا جوتے سے کی گئی۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ جسم کے مختلف اعضا کو گنتی کے حساب سے پورا کرتے ہوۓ ان اعضا کو ایک تابوت ، چادر، یا بوری میں ڈال کر لاش کا نام دیا گیا۔ ایک عینی شاہد، اکرام اللہ جو زخمی بھی تھا، نے واقعہ سنایا۔ دھماکے کے بعد جتنی بھی لاشیں دیکھی گئیں ان میں اکثر نہ صرف ناقابلِ شناخت تھیں بلکہ ایک افسوسناک چیز یہ سامنے آئی کہ نوے فیصد لاشوں کے جسموں پر کپڑے بھی نہیں بچے تھے۔ ان میں خواتین اور بچوں کی لاشیں بھی شامل تھیں۔ دھماکے کے فوراً بعد میں نے دیکھا کہ ایک سر کٹی لاش نہ صرف حرکت میں تھی، بلکہ نیچے کا دھڑ کافی دور تک جانے کے بعد گر گیا۔ تو اس کا سر کئی فٹ پیچھے رہ گیا تھا۔ میں خود بُری طرح زخمی تھا۔ اس کے باوجود مجھے آٹھ روز تک جب بھی سرکٹی لاش یاد آتی تو میں چلانا شروع کر دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے زنجیروں سے باندھنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ متعدد خواتین برہنہ حالت میں پڑی ہوئی تھیں۔ تاہم ان میں سے کسی کی نعش سلامت نہیں تھی”
“ایک ہی خاندان کے تین لڑکے ایک دکان پر بیٹھے تھے، تینوں پر بجلی کے ننگے تارگر گئے اور وہ راکھ بن گئے۔ ان کے زندہ بچ جانے والے والد نے بتایا کہ ہم ان کی صرف ہڈیاں دیکھ سکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے جسم پر بم میں استعمال ہونے والے لوہے کے چھوٹے ٹکڑے پیوست ہو گئے تھے، اس کے اثر سے پورے جسم سے کئی ہفتوں تک سفید رنگ کی پیپ نکلتی تھی”
عقیل ہوسف زئی اپنی کتاب آپریشن ناتمام کے باب “اے میرے پشاور”صفحہ نمبر 175 میں پشاور کی بربادی کی داستان ہوئے بیان کرتے ہیں۔

“پشاور میں ایک ایسا ہی خود کُش دھماکہ 28 اکتوبر 2009 بروز بدھ کو چوک یاد گار کے ایک علاقے پیپل منڈی میں کیا گیا۔ جو اس شہر پر کیے گئے لاتعداد حملوں میں سے سب سے زیادہ، خطرناک تھا۔ دھماکہ کے ہوتے ہی، چند لمحوں میں 115 سے زیادہ افراد شہید جبکہ 200 سے زیادہ شدید زخمی ہو گئے۔اس علاقے میں چونکہ صبح کے وقت خواتین اور شیر خور بچے زیادہ تعداد میں آتے ہیں ، اس لیے ان میں زیادہ تعداد ان کی تھی۔ 12 معصوم بچوں اور بچیوں کی لاشوں کے ٹکڑے اُٹھانے والے خدا سے فریاد اور گلہ کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے۔ متعدد ایسے تھے جن کے والدین اور رشتہ داروں کو بھی ان کی شہادت کا علم اور پتہ نہیں تھا”

Advertisements
julia rana solicitors london

“ان تمام دھماکوں میں ہسپتالوں میں لاشیں ڈھانپنےاور مریض لٹانے کے لیے چادر اور جگہیں بھی کم پڑ گئی تھیں۔ ہر انکھ اشکبار تھی، اور آسمان ہی سے رجوع کرتی نظر آ رہی تھی۔ ملبے تلے دبے بچے اور دوسرے لوگ امدادی اہلکاروں اور لوگوں سے چیخ چیخ کر جان بچانے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ہر طرف خون، آگ اور جلی لاشوں کے جسموں کا منظر تھا۔ مہوش نامی ایک بچی جس کی عمر صرف چھ سال تھی، کی ایک ہی ٹانگ مل سکی جو اپنی گڑیا کے پاس پڑی تھی، جو اس کے بابا نے کچھ دیر پہلے مینا بازار سے خرید کر دی تھی۔ باقی کا جسم پانی ہو گیا تھا، جو نہ مل سکا”
اگلے صفحہ پر عقیل یوسف زئ مزید لکھتے ہیں کہ
“خود کش دھماکے کچھ اس طرح کے ہوتے تھے کہ ان میں جسم ہڈیوں سمیت پانی بن جاتا تھا۔ اس طرح کسی لاش کی شناخت ناممکن ہو جاتی تھی۔ متعدد لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کو تلاش کرتے ہوئے کئی کئی ہفتے لگ جاتے تھے، بالآخر تھک ہار کر وہ مایوس ہو جاتے اور اُن کی آنکھیں بے بسی اور انتظار کے باعث پتھر کی بن جاتیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ایک سرجن کے مطابق ایک خاتون تین مہینوں سے اپنے ایک گمشدہ سترہ سال کے بیٹے کی تلاش میں نیم بےہوشی کے عالم میں ہر دوسرے تیسرے دن آ کر دریافت کرتی رہی کہ اس کے دوسرے بیٹے کی لاش کب ملے گی۔ ڈاکٹر کے مطابق اس کے دو بیٹے مینا بازار خریداری کے لیے آئے تھے کہ دھماکہ ہو گیا۔ بڑے بیٹے کی تو لاش شام تک آ گئی مگر چھوٹا تاحال لاپتہ ہے۔ ان کی ماں اب دیوانگی کی حدود کراس کرتے دیکھائی دے رہی ہے””اس جنگ کے ایک اور پہلو کی طرف کسی نے بھی توجہ نہیں کی۔ جو شہید اور زخمی ہوۓ، وہ تو ہوۓ مگر کسی نے ان لوگوں کی داستانوں اور فریادوں کی طرف دھیان نہیں دیا، جن کا کاروبار، دکانیں، عمارتیں، کاریں اور قیمتی املاک اس دہشتگردی کی نذر ہوئیں۔ ان کو ایک طرف تو دہشتگردوں نے مارا تو دوسری طرف حکومت کی بے حسی نے پاگل کر دیا۔ ان کے نقصان کا نہ صرف درست اور بروقت حساب نہیں لگایا جاتا، بلکہ جب متعلقہ اہلکار تخمینہ لگانے آتے تو متاثرین سے رشوت طلب کی جاتی۔ دفاتر کے مہینوں چکر لگانے کے بعد بھی ان کو کچھ حاصل نہ ہوتا”
فضل ربی راہی، جو سوات کے صحافی ہیں، اپنی کتاب “اور سوات جلتا رہا”میں اسی طالبانئزیشن کے مظالم کے بارے میں لکھتے ہیں۔”کتنی تباہی ہوئی یہ داستان طویل بھی ہے اور دردناک بھی۔ کشت و خون کے مناظر عام تھے۔ گلیوں اور چوراہوں میں سر بریدہ لاشوں کا لٹکتا ہوا نظر آنا روز کا معمول تھا۔ روز کسی تھانے پر خودکش حملہ، کسی اسکول کی عمارت کو بارود سے اُڑانے ، کسی کے لاپتہ ہونے اور کچھ عرصے بعد لاش برآمد ہونے، بھرے بازار میں نامی گرامی لوگوں پر گولیوں کے بوچھاڑ اور قاتلوں کا بحفاظت چلے جانا، پاکستانی نظام حکومت کی مکمل ناکامی تھی۔” ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں۔ “لوگوں کو ذبح کیا جاتا، ان کی لاشوں کو درختوں اور کھمبوں سے لٹکایا جاتا تھا۔ سرعام لوگوں کو کوڑے مارے جاتے تھے۔ خودکش اور بم دھماکے کیے جاتے۔معمولی باتوں پر لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا۔ بارات پر ریموٹ کنٹرول دھماکے کیے جاتے۔ یہاں تک کہ جنازوں میں بھی خودکش حملے جائز سمجھے جاتے۔ ٹارگٹ کلنگ عام تھی۔
سب سے افسوسناک پہلو اس جنگ میں یہ تھا کہ ہمارے مذہبی رہنما، ہمارے اسلامسٹ، ہمارے دائیں بازو کے مفکر اور لکھاری اِس آگ ،جو کہ اُن کے اپنوں کی لگائی ہوئی تھی، کو کبھی غیر ملکی مداخلت کے نتیجہ پر ہونے والے ردِ عمل اور کبھی اسے ہنود و یہود کی سازش قرار دیتے۔ اب یہ بات سمجھنے سے یہ ارقم قاصر ہے کہ اگر یہ دہشتگردی غیرملکی مداخلت کے ردِ عمل کانتیجہ ہے تو ہنود و یہود کی سازش کیسے ہوئی؟ اس طرح اسلامسٹ مسلسل قوم کو گمراہ کر رہے تھے کہ کوئی تیسری قوت مسلمانوں کو کمزور کرنے میں مصروف ہے۔
اب آتے ہیں، مذہبی رہنماؤں کے رویوں کی طرف۔ عقیل یوسف زئی ان رویوں کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ “جب بھی کوئی دھماکہ ہوتا تو جہاد کے بابوں اور پاکستان کے نامور علماۓ کرام اور دینی سیاسی جماعتوں کے باریش لیڈروں کے موبائل اور ٹیلی فون سیٹ بند ہوتے یا بند کر دیے جاتے۔ تاکہ میڈیا جہادیوں کی مذمت اور حالات پر تبصرہ کرنے کے لیے ان کو کسی آزمائش میں نہ ڈالے”اِن چالیس سالوں کی ہاتھیوں کی جنگ میں دونوں طرف کے ملکوں کے لاکھوں بے گناہ لوگ کوئی جرم کیے بغیر اس دنیا سے رُخصت ہو گئے۔ اس جنگ کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہےکہ جو زندہ بچ گئے، وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو کر دوسروں کے محتاج بن گئے ہیں۔ ان کو نہ ہم زندوں میں شمار کر سکتے ہیں نہ مُردوں میں۔
ہم اس دُکھ دو انصار اللہ خلجی کے ان اشعار پر ختم کرتے ہیں۔
اک عجب بو ہے اب ہواؤں میں
جسم اُڑتے ہیں اب فضاؤں میں
اب نہ روزی نہ کاروبار کوئی
بھوک بدتر ہے مگر
موت سے بہتر ہے
اس لیے غریب شہر نے
غربت سے دوستی کر لی
ہم شکر گزار ہیں پختون خواہ کے مشہور صحافی اور پشاور کے ایک اخبار کے اڈیٹر عقیل یوسف زئی صاحب کے کہ انہوں نے اذنِ اشاعت دی اپنی کتابوں طالبانئزیشن اور آپریشن ناتمام سے کچھ اقتباس نقل کرنے کی۔ ان کی کتابوں کے بغیر پختون خوا کے دُکھ کو اور طالبان کی بربریت کو اس مضمون میں بیان کرنا ناممکن تھا۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply