ہاۓ یہ تیزی ۔۔۔رانا اورنگزیب

کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کی تہذیبی اقدار، نظم و ضبط کا مطالعہ کرنا ہے تو آپ اس کی شاہراہوں پر ٹریفک سسٹم کو دیکھ لیجیے، آپ اس معاشرے کے اخلاقی رویے کو بخوبی سمجھ جائیں گے۔ ہم اپنے شہروں کی بات کریں تو ہمارا ٹریفک سسٹم افراتفری، لاقانونیت کی بدترین مثال ہے۔ گاڑی چلانے والے اپنے ساتھ درجنوں انسانوں کی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں، کہیں پڑھا تھا کہ کوئی جرمن کراچی آیا وہ گاڑی میں تھا ،کسی ریلوے کراسنگ پر گاڑی آنے کی وجہ سے پھاٹک بند ہوگیا۔اس نے دیکھا کہ ایک پاکستانی جو کہ بائیسکل پر سوار تھا ،پھاٹک کے پاس سائیکل سے اترا سائیکل اپنے کندھے پر رکھی اور بند پھاٹک میں داخل ہوگیا۔جب اس نے ریلوے ٹریک کو کراس کیا تو گاڑی کی ٹکر سے بمشکل بچا۔
جرمن شہری نے سوچا کہ کتنی وقت کی پابند اور اپنے کام سے پیار کرنے والی قوم ہے جو وقت بچانے کے لیے اپنی جان بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔خیر پھاٹک کھلنے کے بعد جرمن جب اگلے چوک میں پہنچا تو دیکھا کہ وہی آدمی سائیکل ایک طرف کھڑا کیے مداری کا تماشا دیکھ رہا تھا، مجھے روز دو سے تین جگہ ٹریفک میں پھنسنا پڑتا ہے، ایسے ایسے نابغے وہاں نظر آتے ہیں کہ بے اختیار منہ سے نکلتا ہے ایسی بھی چنگاری یارب اپنی خاکستر میں تھی۔ روزانہ کی بنیاد پر آپ خبریں پڑھیں تو کچھ ایسے ہوتی ہیں ،لاہور میں بدترین ٹریفک جام۔ آج لاہور میں فلاں واقعے کی وجہ سے ٹریفک جام، شہری گھنٹوں پھنسے رہے۔ بڑے شہروں میں گھنٹوں ٹریفک جام معمول بن گیا۔ ٹریفک جام کی وجہ سے مریض سڑک پر دم توڑ گیا۔ حکومت کی اعلیٰ کارگردگی کا پول کھل گیا ،ٹریفک پولیس کی ناکامی فلاں روڈ پر لوگ شدید گرمی میں گاڑیوں میں پھنسے رہنے پر مجبور ۔۔ایسی اور اس جیسی کتنی ہی خبریں ہم روز پڑھتے دیکھتے اور سنتے ہیں۔اور حکومت کے ناکافی انتظامات کو کوستے کڑھتے ناک بھوں چڑھاتے ہیں رہی سہی کسر چینلز کے نمائندے موقع پر کیمرے کے ساتھ پہنچ کر نکالتے ہیں۔
کبھی اس ساری واردات پر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے کہ اس سب میں حکومت کتنی ذمہ دار ہے اور ہم بذات خود کتنے حصے دار ہیں۔ہم ایک عجیب سی افراتفری کی ماری ہوئی قوم ہیں۔ ٹریفک جام کے جتنے مظہر سامنے آتے ہیں ان میں سے پچانوے فیصد کی ذمہ داری نہ حکومت پر عائد ہوتی ہے نہ ہی حکومتی اداروں پر۔پانچ فیصد واقعات میں وی آئی پی موومنٹ ،غلط حکومتی اقدامات اور ٹریفک کنٹرول کرنے والے اداروں کی نااہلی براہ راست شامل ہے۔مگر ہر 100جگہ کی ٹریفک جام میں سے 95%کی ذمہ داری براہ راست عوام کی اپنی غلط ڈرائیونگ اور بے وجہ تیزی ہے۔ ہر شخص سڑک پر افراتفری کا باعث ہے۔مان لیں کہ ٹرک ڈرائیور، بسوں کے ڈرائیور ،گدھا گاڑی والے ،چنگ چی رکشہ والے پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں، زیادہ تو دیہی علاقوں سے آتے ہیں اور چند دن میں گاڑیاں چلانا سیکھ کر کام شروع کردیتے ہیں، ان کے گاڑیاں چلانے کا انداز موت کے کنوئیں میں گاڑی چلانے جیسا ہوتا ہے اور ٹریفک کے قوانین سے بے بہرا بھی۔مگر کیا کار ،پجیرو، لینڈ کروزر میں بیٹھے لوگ بھی ان پڑھ ہیں ؟کیا اپنی بائیک پر سکول، کالج، یونیورسٹی دفتر فیکڑی بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیز کے ملازمین طالب علم وہ سب بھی ان پڑھ ہیں؟ ہم کیسے لوگ ہیں کہ ایک منٹ کا انتظار نہیں کرسکتے ایک گھنٹا پھنسے رہنا منظور ہے۔جن لوگوں نے گاٶں میں بکریوں کے ریوڑ کو کبھی پتلی سی پگڈنڈی پر چلتے دیکھا ہو وہ جانتے ہوں گے کہ جیسے ہی رستہ تنگ ہوتا  ہےبکریاں قطار بنا لیتی ہیں اور کبھی بھی ایک دوسری کو اوورٹیک کرنے کی کوشش نہیں کرتیں۔جبکہ ہمارا طرز عمل اسکے برعکس ہوتا ہے۔ جیسے ہی کہیں سڑک پر رکاٶٹ آئی ہم نے دائیں بائیں سے نکلنے کی کوشش شروع کردی، کسی وجہ سے اگر آگے والی گاڑی رکی اسکے ارد گرد ایسا ہجوم جمع ہوتا ہے کہ پیدل چلنے والا بندہ بھی نہ گزر سکے۔
میں روزانہ یہ نظارا دیکھتا ہوں۔جتنا گاڑیوں کا ہجوم بڑھتا جاۓ گا اتنی ہی لوگوں کی تیزی بڑھتی جاۓ گی پھر ہر گاڑی میں بیٹھا بندہ ہارن پر ہاتھ رکھ کے ہٹانا بھول جاۓ گا کل میں نے ایک بہت ہی ویل ڈریسڈ اور شکل سے کسی کالج کا پرنسپل نظر آنے والا بندہ دیکھا جو ایسے ہارن بجا رہا تھا جیسے چھوٹے بچے پہلی بار گاڑی میں بیٹھ کر بار بار ہارن بجاتے ہیں ۔آخر کا مجھے کہنا پڑا کہ جناب آپ کی غلط فہمی ہے ہارن دینے سے اگلی گاڑیاں غائب نہیں ہونگی۔اور نہ ہی آپ ہارن بجا کے اڑ سکتے ہیں اس لیے براۓ مہربانی صبر کریں۔ چنگچی والوں کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ اپنے رکشے سے اگلی گاڑیوں کو کچل کے گزر جاتے۔موٹر سائیکل سوار، ٹرکوں اور ٹرالروں کے ٹائروں کے نیچے سے گزرنے کو تیار۔اس وقت جتنے لوگ ٹریفک میں پھنسے تھے ان میں سے پچانوے فیصد لوگوں کو صرف پانچ منٹ لیٹ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر ایسی افراتفری تھی کہ لگتا تھا ہر ایک کے پیچھے پاگل کتے دوڑ رہے ہیں ۔
موٹروے پولیس اپنی سی کوشش کر رہی تھی کہ لوگ قطار بنا کے اپنی باری آنے پر آگے آئیں مگر وہ ایک کو دائیں طرف روکتے تو چار بائیں طرف سے آگے آجاتے۔گاڑیاں کسی حسینہ کی زلفوں کی طرح الجھی تھیں اور الجھی لٹ کو سلجھانے والا بالم خود الجھ الجھ جاتا تھا۔اور گاڑیوں، ٹرکوں ،رکشوں کے ڈرائیور اس زلف کو الجھانے میں آندھی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ہم کیا ہیں کون ہیں کیا ہم انسان ہی ہیں ؟کیا ہم واقعی ایک قوم کہلاۓ جانے کے قابل ہیں؟؟ اشارے پر رکنا ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔قطار میں کہیں بھی لگنا ہمیں گوارا نہیں۔اپنی باری کا انتظار نہیں کرنا بلکہ دوسرے کا حق کھانا اور چھیننا ہمارا فخر ہے۔مجھےسمجھ نہیں آتی کہ ہمیں اتنی تیزی اور تیزرفتاری کی کیا ضرورت ہے۔کل ایک بھائی سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے کہ میں نے دس سال، یو اے ای میں گزارے، وہاں کی سڑکیں اور ٹریفک کا نظام بہت اچھا ہے اور یو اے ای کا ڈرائیونگ لائسنس ساری دنیا میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔میں نے کہا اپنے کسی یو اے ای کے لائسنس یافتہ بندے کو کہیں کہ لاہور میں ڈرائیونگ کرکے دکھائے تو مان سکتا ہوں کہ یو اے ای کا لائسنس اچھا ہے یا نہیں۔کانوں کو ہاتھ لگا کر بولے کہ لاہور لاہور ہی ہے۔ یہاں ٹریفک کا بس ایک ہی قانون ہے کہ کوئی قانون نہیں۔
بہت سے ایسے لوگ روزانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں کہ بائیک پر پیچھے خاتون بٹھا کے فل سپیڈ جارہے ہوتے ہیں۔کچھ نے معصوم بچے آگے پیچھے بٹھائے ہوتے ہیں اور تیز رفتاری ایسی کہ دل کی دھڑکنوں پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔براۓ مہربانی آپ تیز ڈرائیونگ کریں، چاہے گاڑی کی ،چاہے بائیک کی ،مگر اپنی اور دوسرے لوگوں کی زندگی کا خیال کریں۔زندگی بہت قیمتی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزا اور لائسنس لینےکے لیے سخت شرائط کا اطلاق کرے۔لوگوں میں ٹریفک قوانین بارے شعور اجاگر کرنے پر زور دے،اور عوام کو چاہیئے کہ سڑک پر تھوڑا سا تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں۔ صرف چند سیکنڈ کا صبر آپ کو لمبے ٹریفک جام اور ذہنی کوفت سے نجات دے سکتا ہے۔انسان بنیں ایک قوم بنیں۔باڑے سے نکلا ہوا بھینسوں کا ریوڑ نہ بنیں،کہ جدھر منہ اٹھا کے چل دیے، نہ آگے پیچھے کا علم، نہ دائیں بائیں کا ہوش۔

 

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply