پانامہ کا اونٹ

زرداری دور میں سپریم کورٹ بال کی کھال اتارتی رہی، ٹماٹروں، پکوڑوں، اخباری تراشوں اور سموسوں پر سوموٹو لیا گیا، ہر کونے کھدرے سے ثبوت بھی خود ہی ڈھونڈے گئے تو کیا اب وہی عدلیہ نواز دور میں پانامہ کا موٹا تازہ 10 من اونٹ بآسانی نگل سکے گی؟قطری شیخ کے خط کو قائداعظم کی تصویر کے برابر لٹکا دیا جاۓ گا یا اس پر بھی سموسے پکوڑے رکھے جائیں گے؟؟
عالمی اسٹیبلشمنٹ امریکہ/برطانیہ/انڈیا نیز کمیشن اور ککس بیک کی رسیا چائینہ، قطرو ترکی کی طاقتور کاروباری کمپنیاں ہر قیمت پر نواز شریف کو بچانا چاہتی ہیں لیکن اگر سپریم کورٹ نے جرات کا مظاہرہ کیاتو انشاءاللہ ایک خود مختار، کرپشن فری پاکستان دنیا کے نقشے پر جگمگاۓ گا۔
انکشاف پانامہ پیپرز میں ہوا جسکا نواز شریف اینڈ فیملی نے اعتراف کرلیا۔ عمران خان یا سراج الحق نے کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا کہ ان سے ملزم کے خلاف ثبوت طلب کیے جا رہے ہیں بلکہ دونوں رہنماء فریق ثالث و منصف سپریم کورٹ میں اس استدعا کے ساتھ گئے ہیں کہ نواز شریف صاحب پانامہ الزام یا انکشاف کے تناظر میں جس جائیداد کی ملکیت کا اعتراف کر چکے ہیں اسی جائیداد کو پارلیمنٹ میں دیے گئے اپنے بیان اور قوم سے کیے گئے خطاب کی روشنی میں حلال و لیگل ثابت کرنے کے لیے 1978 سے 2006 کے دوران کی دستاویزات عدالت میں پیش کریں نیز پانامہ پیپرز میں موجود تمام افراد کو بھی کٹہرے میں لایا جاۓ۔اگر نوازشریف اینڈ فیملی ملکیت کا ہی انکار کر دیتی تو پھر مدعیان سے ملکیت ثابت کرنے کے لیے ثبوت بھی مانگے جاتے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے حوالے سے پانامہ کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاتا جبکہ پانامہ کیس تو 2+2 کی طرح واضع ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکمران ملکیت کا اعتراف کر چکے ہیں، نواز شریف و اہل خانہ کے 99 رنگے متضاد بیانات، مسلم لیگی وزراء و رہنماؤں کے بیانات اور التوحید ٹرسٹ کیس کو عدالتی کاروائی کا حصہ بناتے ہوۓ
01۔ امارات میں قائم کردہ فیکٹری کے منی ٹریل، فائدہ/نقصان اور خرید و فروخت کی دستاویزات طلب کی جائیں۔
02۔ شیخ القطر کو 1980 میں میاں شریف اور الثانی گروپ کے مابین ہونے والے معاہدے کی دستاویزات، فلیٹ نمبر 16/16 اے اور فلیٹ نمبر 17/17 اے کے ملکیتی پیپرز،(یو۔کے 1994/95) ٹیکس پیڈ ڈاکومنٹس، (قطر) منی ٹریل، میاں شریف مرحوم کا وصیت نامہ اور حسین نواز کے نام فلیٹ ٹرانسفر پیپرز (2005/6) کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان میں طلب کیا جاۓ۔
03۔ تمام دستاویزات کی کسی فارن کنسلٹینسی سے فرانزک لیبارٹری رپوٹ حاصل کی جاۓ۔
۔۔۔۔
اگر اب کے بار بھی لیپا پوتی سے کام لیا گیا قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ اس کے ساتھ ہمیشہ کی طرح "گناہ کر کے حج کر لے اور چوری کر کے جج کر لے والا" معاملہ ہو گیا ہے۔

Facebook Comments

سردار جمیل خان
کرپشن فری آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے جدوجہد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply