عید قربان، مندر اور دیناناتھ

عید قربان کے ساتھ کئی یادیں بھی لوٹ آتی ہیں. چند سال قبل اپنے دوست کے ساتھ بچھڑا خریدنے گئے. بارشیں ہونے کے باعث بہت کیچڑ پھیلا ہوا تھا. جس میں تین چار گھنٹے چلنے سے جان گلے کو آئی ہوئی تھی. جو بچھڑا ہمیں پسند آیا وہ گھر کا پلا ہوا تھا. چمکدار بھوری رنگت پر کالی سیاہ آنکھیں بہت خوب لگتی تھیں. بھاؤ تاؤ وغیرہ سے فارغ ہو کر جب بچھڑا حوالے ہونے لگا تو اس کے مالک نے اس کی گردن کے گرد بانہیں پھیلائیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا. اس وقت یوں لگا گویا بچھڑے کی بھی ہچکی بندھ گئی ہو. ہمارے دوست کچھ فاصلے پر موجود تھے البتہ مجھے یہ منظر دیکھ کر الگ قسم کا احساس ہوا.

واپسی پر ہمارا قافلہ دو موٹرسائیکل، ایک کار اور ایک سوزوکی (جس میں حاصلِ مشقت بچھڑا تھا) پر مشتمل تھا. کارآگے جا رہی تھی جو کہ بےطرح کیچڑ میں پھنس گئی. بائیک والوں میں مولاجٹ بننے کے جراثیم ویسے بھی زیادہ پائے جاتے ہیں سو انہوں نے گاڑی کو پیچھے سے پاؤں لگا کر دھکا دینا شروع کیا.. اب جو کیچڑ میں پھنسی گاڑی نے تیزی سے پہیے گھمائے تو سارا کیچڑ بائیک والوں پر آ رہا. گمان تک نہ ہوتا تھا کہ اس کیچڑ کے ڈھیر میں دو عدد بائیک رائڈر موجود ہیں. پاس میں جانوروں کے پانی پینے کا حوض تھا.جس میں منہ بمع سر ڈبونے کے بعد ہمارے بائیک رائڈر باہر  برآمد ہوئے.

راستہ تو جیسے تیسے کٹ گیا. دوست کے محلے پہنچے تو دور سے بچوں کا ایک غول آتا دکھائی دیا. یوں گمان گزرا  گویا افریقہ کے جنگلی قبائل شکار دیکھ کر جتھا بناتے، ہو ہا مچاتے، آبابابابابا کرتے آ رہے ہوں. بچھڑا اتارنے کا کام تسلی بخش طریقے سے ہوا. اتارنے کے بعد ابن الجنات بچوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا. ایک بچے نے دم پکر کر جھٹکا دیا جس سے بچھڑا بدک گیا. میں اور دوست بڑی مشکل سے سنبھال پائے. اگلے شرارتی نے ران پر چٹکی بھری اب کی بار بہت مشکل سے بچھڑا قابو آیا. زیادہ پریشانی تب ہوئی جب بچوں کے شور اور جانور کو “انگلی کرنے” سے وہ چھلانگیں لگانے لگا. کس کس کو دور رکھتے کس کس کو سمجھاتے، بہرحال کسی طرح اسے اپارٹمنٹ کے سامنے لائے.

یہاں ایک اور ہی منظر تھا۔۔۔۔
یہ کراچی کے وسط میں گرومندر کا علاقہ تھا. اور یہاں ہندو برادری کی بڑی تعداد موجود تھی. رام مندر کے سامنے رنگین لباس میں بہت سی لڑکیاں، عورتیں اور بچے اندر جانے کے لیے  قطار میں کھڑے تھے. معلوم ہوا کہ آج ان کا تہوار “دسہرا” ہے. مندر کی دیوار کے ساتھ قطار میں قربانی کے جانور بندھے تھے. دوست نے اپنا بچھڑا وہیں باندھا اور ادھر کھڑے دیناناتھ کے ساتھ اچھے طریقے سے ملا. واپس آیا تو میں نے پوچھا
“کہیں اور باندھنے کی جگہ نہیں ملی تھی”.

کہنے لگا “یار یہ ہندو پڑوسی ہیں، اپارٹمنٹ کے تمام بڑے جانوروں کی رکھوالی کرتے ہیں اور ان کے چارے کا انتظام کرتے ہیں. اگر منع کرو تو ناراض ہونے لگتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمیں خدمت کرنے دیجئے۔۔ چند ہی دن کی تو بات ہے پھر شہر کے بیچ میں گاؤ میّاں  کہاں آتی ہے “.

Advertisements
julia rana solicitors

وہ دن مجھے حیران کر گیا تھا. ایک جانور کو کسی نے پال کر بڑا کر کے بچوں کی طرح محبت دی اور کسی نے اس کے تقدس کی بنا پر خیال رکھ کر ماں کی طرح پیار اور احترام دیا.. اُنس اور تقدس کے یہ دو بے ضرر روپ کیسے خوبصورت لگے تھے.اُنس اور تقدس کے یہ روپ کیسے اعلی ہوتے ہیں.

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply