مکالمہ ون مین شو نہیں ہے

گذشتہ دنوں مکالمہ کانفرنس کا بہت ذکر رہا، لاہور میں کانفرنس منعقد ہوئی تو انعام رانا کی دعوت کے باوجود اپنی ذاتی مصروفیت کی بنا پر شرکت سے معذرت کر لی۔کراچی کی کانفرنس بھی اچانک ہی ہوئی، انعام رانا نے کہا کہ اب تو کوئی بہانہ نہیں ہے کہ اب تو آپ ہی کے شہر میں ہے۔

کراچی میں مکالمہ کانفرنس کا احوال تقریباً تمام شرکا اپنے اپنے طور پر بیان کر چکے ہیں۔ کس طرح اسے ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کیا گیا۔ سب ہی نے اپنا اپنا مشاہدہ بہت خوبی سے بیان کیا بلکہ بہت تفصیل سے بیان کیا۔ کانفرنس کی ویڈیوز بھی فیس بک پر سبھی نے دیکھ لیں اور خود کو کانفرنس کا شریک ہی سمجھا۔

کانفرنس کے آغاز پر تقریباً تمام شرکا وقت پر پہنچ گئے لیکن جنہیں سب سے پہلے وہاں موجود ہونا چاہئیے تھا وہی نہیں تھے یعنی انعام رانا۔ گھنٹہ بھر بعد پتہ چلا کہ ان کی لاہور سے آنے والی فلائٹ لیٹ ہو گئی ہے اور وہ پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ کانفرنس کا آغاز انعام رانا کے انتظار کے ساتھ ساتھ کر دیا گیا۔ ان کے پہنچنے تک صدر، مہمان خصوصی اور دیگر شریک مہمان ڈائس پر آتے گئے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے گئے اور یہ سب انعام رانا کے پہنچنے سے قبل ہو چکا تھا۔ یہ سب کچھ آپ سب ویڈیوز میں دیکھ ہی چکے ہیں۔

بس یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے واقعی محسوس ہوا کہ مکالمہ ون مین شو نہیں ہے یعنی انعام رانا نے اس ویب سائٹ کا آغاز ضرور کیا مگر وہ اس کے حوالے سے خزانے کے سانپ کی مانند کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔ ان کی ٹیم نے پروگرام شروع کیا اور ان کے آتے آتے تقریباً تمام شرکا اپنے حصے کی تقاریر کر چکے تھے۔ انعام رانا نے اپنی تقریر کے دوران خود بھی کہا کہ اس تقریب کا زیادہ تر حصہ میرے بغیر ہوا، یہ ثبوت ہے کہ مکالمہ اب ایک شخص کا نہیں رہا یہ آپ سب کا ہو چکا۔

یہ دراصل ایک ٹیم لیڈر کا اپنی ٹیم پر اعتماد ہوتا ہے جو وہ اپنی ٹیم پر کرتا ہے، ٹیم کو عزت دیتا ہے، انہیں ان کے فرائض تفویض کر کے انہیں بھروسہ دیتا ہے اور کامیابی کی صورت میں پورا کریڈٹ خود نہیں لیتا بلکہ ہر شخص کو دیانت داری کے ساتھ اس کا حصہ اس کا کریڈٹ ضرور دیتا ہے۔ ہمارے یہاں کوئی بڑی سے بڑی یا چھوٹی سے چھوٹی سیاسی جماعت ہو یا کوئی ادارہ ، اس جماعت یا ادارے کا سربراہ اس ادارے کی کرسی پر یوں بیٹھتا ہے گویا یہ کرسی اسے خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی ہو اور اس کرسی پر تاحیات اسی کا حق ہے۔ خود کو نمایاں کرنا، اپنے منہ میاں مٹھو بننا، اپنے ادارے کے ملازمین کو ذلیل کرنا یا اپنی جماعت کے لوگوں کواحترام نہ دینا ان کا شیوہ بن جاتا ہے پھر ادارے یا جماعت ایک طرح سے ون مین شو کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ان جماعتوں اور اداروں کے سربراہان اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک صاف ستھرے مقابلے کی فضا پیدا ہو اور ہر جماعت ہر ادارہ ترقی کی جانب گامزن ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

ممکن ہے میرے انعام رانا سے یا مکالمہ ویب سائٹ سے ایک ہزار اختلافات ہوں مگر ان اختلافات کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کا جو طریقہ مکالمہ ویب سائٹ نے اپنایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔اس سب کے لئے میں انعام رانا اور مکالمہ ٹیم کو مبارک باد پیش کرتی ہوں اور ان کی کامیابی کے لئے دل سے دعاگو ہوں۔ اختلافات کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے میں ہی سب کی بھلائی ہے۔

Facebook Comments

ام رباب
محنت کش عورت ہوں خواب دیکھتی ہوں قسمت پر یقین رکھتی ہوں کتابیں پڑھنے کا شوق ہے مگر انسانوں کو پڑھنا زیادہ دلچسپ خیال کرتی ہوں اپنی بات عام فہم الفاظ میں کہنا پسند ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply