نائی کی زبان قینچی برابر/محمد علی افضل

نائی کی دکان پر جانا بچپن سے ہی بہت چیلنجنگ رہا ہے۔ بچپن میں ابّا لے جا کر زبردستی گنجا کروا دیتے تھے اور ہم روتے بلبلاتے رہ جاتے تھے۔نائی سے تعلقات اسی دور میں خراب ہونا شروع ہوئے جب وہ ہماری بجائے ابا کی سائیڈ لے کر سر پر موٹی یا باریک مشین پھیرتے ہوئے ایک کی چار لگاتا جاتا تھا اور نئی نسل کا نوحہ پڑھتا جاتا تھا۔ نوّے کی دہائی میں چارجنگ والے ہیئر ٹرمر نہیں آئے تھے۔ ہاتھ سے زور لگا کر چلانے والے ٹرِمّر کو ‘مشین ‘ ہی کہتے تھے۔ ایک ٹنڈ بنانے میں ٹک ٹک ٹک کرتی یہ مشین ہمارے سر کے گولے اور نائی کے بازوؤں کے ڈولے نکال دیتی تھی ۔یہ سلسلہ دسویں جماعت کی گرمیوں کی چھٹیوں تک چلا۔لڑکپن میں پہنچ کر گنجا ہونے کے خوف سے تو آزادی مل گئی مگر مشکل یہ آن پڑی کہ کوئی بھی ڈھنگ کا نائی نہ ملتا جو ہماری مرضی کے بال کاٹ سکتا۔ بڑے بوڑھے سناتے تھے کہ حجام کہیں کا بھی ہو اس میں تین عادتیں ضرور ہوتی ہیں۔ بے صبرا ، باتونی اور نالائق ہوتا ہے۔ چوتھی بات ہم نے دریافت کی۔ ناشکرا بہت ہوتا ہے۔ اسے جتنے مرضی پیسے دے دو کبھی سَیر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بغیر دام پوچھے حجامت بنوانے بیٹھ گیا تو ایسا ٹیکہ اسے لگاتا ہے کہ اگلا ہاتھ ملتا رہ جائے۔ اور اگر نرخ پوچھ کر بیٹھ جاؤ تب بھی آخر میں تین گنا پیسے بنا دے گا۔

انہی باتوں سے تنگ آ کر ہم نے ایک سے ایک نائی آزمایا مگر کسی کو تسلی بخش نہ پایا۔ عین جوانی میں جب ہمارے گھنے چمکدار بال اپنی مثال آپ تھے تب بھی ہر حجامت کے بعد ہم مایوس ہی لوٹتے۔ اس دور میں حجامت کے دوران نائیوں کا سارا بھاشن بالوں کی اناٹومی ، بالوں کی مختلف اقسام ، ان کے رنگ اور ان کی خوراک پر ہوتا۔ جا کر ابھی کرسی پر ٹھیک سے بیٹھے نہیں کہ ریشمی کپڑا گردن میں باندھتے ہی شروع ہوگیا۔ بالوں میں پانی کا سپرے مارنا اس وقت تک بند نہ کیا جب تک بال یوں نہ ہوجاتے جیسے کسی نے بالٹی میں ڈبکی دے کر نکالا ہو۔ذرا دور بدلا تو ایک اور تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ بعضوں نے کرسی کے آگے واش بیسن اور ٹونٹیاں لگائی ہوتی تھی۔ وہ پکڑ کر سر سیدھا ٹونٹی کے نیچے کردیتے اور شیمپو سے دھو دیتے۔ پھر تولئے سے خشک کرتے۔ پھر دوبارہ سپرے مار کر گیلا کرتے۔ ساتھ ساتھ بالوں میں انگلیاں پھیر کر کہتے جاتے ‘ماشااللہ ماشااللہ ! آپ کے بال بہت ہی خوب صورت ہیں ۔ بالکل اجے دیوگن کی طرح۔ کاش میرے بال ایسے ہوتے تو میں پتہ نہیں کیا کردیتا۔”ہم بیٹھے بیٹھے پھول جاتے۔ اسی دوران وہ ہماری اجے والی پف بھی نمایاں کرکے بناتا اور پھر اگلے ہی لمحے اسے ہتھیلی سے سیٹ کرتے ہوئے پوچھتا
‘یہ دیکھیں یہاں سے بالوں میں فرق آرہا ہے۔ خشک اور کھردرے ہورہے ہیں۔ صابن استعمال نہ کیا کریں۔ یہ بالوں کو کمزور کرتا ہے۔ میرے پاس ایک فارمولا ہے۔ اوئے سنی ! ذرا یہ دراز سے نکال کر دکھاؤ سر کو۔’
سنی چار پانچ شیمپو کی طرح کی لمبوتری ، بیضوی ، گول اور چورس سی بوتلیں نکال کر سامنے رکھ دیتا۔ یہ پروٹین واش ہے۔ یہ کروا لیں۔ بالوں میں جان پڑ جائے گی۔ روکھا پن ختم۔
‘لیکن ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ میرے بال بالکل اجے دیوگن کی طرح ہیں۔ ‘
ہاں ، وہ تو ہیں۔ لیکن اگر یہ نہ کروایا تو دو ایک ہفتے بعد نہیں رہیں گے۔ خراب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ دیکھو ۔ بلکہ اسی ہفتے کے آخر تک۔ ‘

اس دوران بغور شیشے میں ہمارے چہرے کو پڑھتا اور اگر ہم ‘ہاں’ نہ کرتے تو ایک لٹ اس زور سے کھینچ کر اور ایک دوسری لٹ کے تقابل میں اسے یوں ناہموار اور روکھا بنا کر پیش کرتا کہ ہم واقعی سہم جاتے کہ ہفتہ تو بہت دور کی بات ہے اگر ہم نے یہ پروٹین واش ، کیراٹین شیراٹن اور نہ جانے کیا کیا الا بلا نہ کرایا تو کل صبح جیسے ہی ہم سو کر اٹھیں گے ہمارا سر ہتھیلی ہوا ہوگا۔ عمر گذرتی گئی بال گرتے گئے۔ جیسے ہی بال کم ہونا شروع ہوئے نائیوں نے پروٹین واش کی جگہ نت نئے تیل اور بال اگانے والے نسخے بیچنا شروع کئے۔سوائے گوبر کے دنیا کی کونسی جڑی بوٹی اور کونسا ٹوٹکہ ہوگا جو نائیوں نے ہمیں نہ پڑھایا۔ ہم مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ یہاں سے مایوس ہوکر نائیوں نے سفید ہوتی قلموں پر داؤ پیچ لڑانے شروع کردئیے۔
‘سر جی کلر کردوں؟ بری لگتی ہیں جی۔ آپ تو ماشااللہ ابھی جوان ہیں۔ ‘
نفی میں جواب پاکر چہرے پر قسمت آزمائی کرنے لگے۔

ایک دن میں حجامت کے انتظار میں بیٹھا تھا۔دیکھا کہ ایک نوجوان آیا۔ نائی نے کٹنگ کے دوران اسے چکنی چپڑی سنائی اور میرے پاکستانیو والے سبز باغ دکھانے شروع کر دئیے۔ ‘اوہو ! سر جی کتنے کیل ہوئے  ہیں۔ یہ دیکھیں کلر سارا ڈارک ہوا پڑا ہے آپ کا۔ یہ ساری ڈسٹ ہے۔ اس سے پورز (مسام) بند ہوجاتے۔ سکن ڈیڈ ہوجاتی ہے۔ اور یہ بلیک ہیڈز ؟ یہ نکال دوں سر جی؟ ساتھ میں فیشل بھی ہوجائے گا؟’
لڑکے نے جھینپتے ہوئے ‘ہاں۔۔ ۔ مگر ۔۔وہ ۔ ۔لیکن ۔۔ ‘
کچھ کہنا چاہا ہی تھا کہ نائی نے قینچی اور زبان ایک ساتھ چلانی شروع کر دی اور آواز اونچی کر لی اور کسی طرح لڑکے سے ‘اچھا چلو کردو ‘ نکلوا لیا۔
بس پھر تو اس چال باز کی عید ہوگئی۔ استرے ، قینچیاں ، کنگھیاں ، کریمیں ، سپرے اور عجیب وغریب قسم کے ٹیڑھے ترچھے آلات جراحی لے کر جو شروع ہوا ہے تو تین گھنٹے لے گیا۔ ایک سٹیج پر تو رنگ و روغن سے لپا ہوا اس غریب کا چہرہ نہ جانے کس کس کے مشابہہ لگ رہا تھا۔ کئی منٹوں تک ملنے کے بعد ایک کریم اتارتا ، اور دوسری لگا کر بٹھا دیتا۔ جب کئی بار یہ کرچکا تو ایک نوک دار سلاخ لے کر ناک کے نتھنوں اور گالوں کو کریدنے لگا۔ ایک چھوٹا سا چھرا مار مار کر اس کا سارا منہ لہولہان کردیا اور ساڑھے تین ہزار روپے کا بل بنا دیا الگ۔

لڑکا شرما شرمی میں پیسے پھینک کر وہاں سے جان بچا کر نکلا۔ میری باری آئی تو مجھے بھی وہی کہانی سنانے لگا۔ میں نے انکار کیا تو اصرار کرنے لگا۔ آخر سختی سے کہنا پڑا کہ بھائی بال کاٹتا ہے یا اٹھ کر چلا جاؤں؟

ایک نائی نے جب میرے بال ایسے خراب کردئیے کہ وہ کسی ڈھب سے کنگھی ہونے میں نہیں آرہے تھے۔ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا تو بجائے شرمندہ ہونے کے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ بولا
‘سر جی بورس جانسن کٹنگ کی ہے۔ آج کل بڑا ٹرینڈ ہے سر اس کا۔ ‘

نائی ہمیشہ بین الاقوامی امور کے ساتھ ساتھ فلسفہ ، مذہب ، سپورٹس ، تعلیم اور صحت کا ماہر ہوتا ہے۔ جتنی دیر حجامت ہوتی رہتی ہے اس کی قینچی اور زبان مسلسل چلتی رہتی ہے۔ یہ اسرائیل و قلسطین کی وہ تاریخ بتاتا ہے جو نہ کسی نے پڑھی نہ سنی۔ اسے دنیا کےتمام مذاہب پر عبور ہوتا ہے اور اپنے مذہب اور فرقے پر فخر ہوتا ہے۔ اولمپک سے لے کر کرکٹ اور فٹ بال سے لے کر سنوکر تک ہر کھیل کے رموز اور تاریخ اسے منہ زبانی یاد ہوتی ہے۔ تعلیم کا کونسا شعبہ ہے جس میں اس کا کوئی رشتہ دار نہیں پڑھتا یا پڑھاتا؟ رہ گئی صحت تو اس کے خاندان میں کم ازکم پندرہ ڈاکٹر ضرور ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج میں حجامت بنوانے جانے لگا تو تھکن سے چور تھا۔ میرا بات کرنے کا بالکل موڈ نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ جا کر ایسا ٹاپک چھیڑ دوں گا کہ نائی کو اس بارے میں کچھ پتا نہ ہوگا۔ دو چار فقرے بول کر رعب جما دوں گا اور اسے چپ ہوتے ہی بنے گی۔
نائی نے کپڑا باندھا ، سپرے مارا اور ساتھ ہی ٹی وی آن کر دیا۔ خبروں میں دنیا کے مختلف ممالک میں نیو ایئر نائیٹ کی تیاریوں کا بتا رہے تھے۔ نائی اس قدر انہماک سے یہ رپورٹ دیکھ رہا تھا کہ پورے دو منٹ میرے سر میں کنگھی ہی مارتا رہا۔ بیچ بیچ میں اس قدر کھو جاتا کہ قینچی چلاتے چلاتے رک کر سننے لگتا۔ میں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو دنیا کا کوئی موضوع تو ایسا ہے جس کے بارے میں اسے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ آج حجامت سکون سے گذرے گی اور جیسے ہی یہ میرے بالوں یا گالوں پر اپنا فلسفہ بگھارے گا میں جھٹ یہ موضوع چھیڑ کر جان بچا لوں گا۔ نائی نے حسب معمول عادت سے مجبور ہوکر جیسے ہی بلیک ہیڈز اور فیشل کا تذکرہ چھیڑا میں نے ٹی وی کی طرف اشارہ کرکے کہا تمہیں پتا ہے سب سے پہلے نیو ایئر نائیٹ کہاں ہوتی ہے؟ نیوزی لینڈ میں۔’
‘اوئے ہوئے ہوئے ہوئے ! سر جی۔ نیوزی لینڈ۔ کیا بات ہے سر جی۔ آپ کو پتا ہے سر جی نیوزی لینڈ اور اشٹریلیا میں موسم الٹے ہوتے ہیں۔ اس ٹیم وہاں فل جون والی گرمی چل رہی ہے ۔ میرا کزن ہے جی سڈنی میں ، اور انٹارکٹکا کا نام تو سنا ہوگا سر جی۔  ۔۔وہ تو سارا بنا ہوا ہی برف کا ہے۔ وہ جو چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے والی رات ہوتی ۔۔۔  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply