چھرا مار حملہ آور کے دن پورےہونے کو ہیں۔۔۔ علی اختر

حالیہ دنوں میں ہمارے شہر کراچی میں ایک چھرا مار حملہ آور نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ اس حملہ آور کی کاروائیاں گلستان جوہر کے علاقے رابعہ سٹی سے شروع ہوئیں اور حالیہ دنوں میں اسکا دائرہ کار گلشن اقبال کے علاقے تک پھیل چکا ہے ۔ یہ صرف خواتین کو ہی نشانہ بناتا ہے اور سنسان گلی کوچوں میں اچانک بر آمد ہو کر اپنے ٹارگٹ پر کسی تیز دھار آلے سے وار کر کے کسی چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔ اسکے نشانہ پر ہونے کے لیئے صرف صنف نازک ہونا شرط ہے، اسکے علاوہ ذات، پات، رنگ نسل، عمر وغیرہ کی کوئی شرط نہیں۔ اسکی کاروائیاں یوم عاشور سے چند دن پہلے شروع ہوئیں اور تاحال جاری ہیں اور ابھی تک قانون کے آہنی شکنجہ میں نہیں آسکا ۔
کئی لوگوں کاخیال ہے کے یہ حملہ آور ایک ذہنی مریض ہے لیکن میری معلومات کے مطابق یہ ایک انتہائی شاطر اعلیٰ تربیت یافتہ انسان ہے جو کے ناصرف آٹھ زبانیں بول سکتا ہے بلکہ ارد گرد کے ماحول میں کیمو فلاج ہو نے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے، ہر طرح کا اسلحہ چلانے میں ماہر ہے، کئی ناموں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ اس کی جیب میں موجود رہتے ہیں ، اس کے علاوہ اسکے کارندوں کا ایک جال ہے جو اسے ہر طرح کی معلومات بہم پہنچاتے ہیں بلکہ وقت پڑنے پر فرار میں بھی مدد کرتے ہیں، مختصر یہ کہ اسکے پیچھے پکا پکا بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔دشمن نے اس بار “پراڈکٹ ” کے بجائے ڈائریکٹ “پروڈکشن یونٹس” کو نشانہ بنانے کا پلان کیا ہے۔
اگر آپ تفصیل سے اسکی کاروائیوں کا جائزہ لینگے تو پتا چلے گا کہ یہ لومڑی سے بھی زیادہ مکار شخص ہے ۔ مثلاً راجن پور سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کو اس نے سرائکی زبان میں مخاطب کیا اور جب اس نے انسیت محسوس کر کے قریب آنے کی کوشش کی تو وہ کمینہ وار کر کے فرار ہو گیا۔ یہی نہیں باٹنی کی ایک طالبہ کے راستے میں یہ چمبیلی کے جھاڑ کے روپ میں کھڑا ہو گیا اور جب وہ اسپر ریسرچ کے لیئے قریب پہنچی تو چھرا مار کر یہ جا اور وہ جا۔بعض لوگوں نے اسے سیٹلائٹ فون پر بھی بات کرتے سنا ہے اور بعض نے اسے پڑوسی ملک کے سفارتکاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بھی پایا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اور کیا رہ جاتا ہے لیکن اس پر بھی ہمارے عوام قانون نافذکرنے والے اداروں کو لعن طعن کر رہے ہیں کہ ایک معمولی آدمی کو بھی نہیں پکڑ پا رہے۔ارے احسان فراموش لوگو تم وہ وقت بھول گئے جب انہی اداروں نے عزیز آباد کے ایک سو بیس گز کے گھر کے 6×10 کے ٹینک سے پاکستان کی تاریخ کی اسلحہ کی سب سے بڑی کھیپ پکڑی تھی۔ یہ اتنا اسلحہ تھا کہ چھوٹی موٹی جنگ لڑنے کے لیئے کافی ہو جاتا۔ اندازہ لگائیں کہ اس کھیپ کو رکھنے کے لیئے پولیس کا مال خانہ چھوٹا پڑ گیا تھا ۔ سنا ہے کہ اس چھاپے میں دو اپاچی ہیلی کاپٹر، ایک ٹینک اور دو “گنز آف نیورآن ” والی توپیں بھی ملی تھیں وہ تو عوام میں خوف پھیل جانے کے پیش نظر انہیں چھپر کر دیا گیاتھا۔
ان اداروں نے منگھوپیر اور سپر ہائی وے کے اطراف پولیس مقابلوں میں اتنے طالبان اور دہش دہشت گرد مارے ہیں کہ ان تنظیموں کے عہدے دار خود بھی حیرت سے کہتے ہیں “ہمیں خود نہیں پتا تھا کہ ہم اتنے سارے ہیں “۔
ابھی حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک تصویر میں، جو کہ ایک دہشت گرد کی تھی،جسے سپر ہائی وے پر مقابلہ  کرنے بعد ہلاک کیا گیا ۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اس دور میں بھی دوسری جنگ عظیم کے زمانے کی تھری ناٹ تھری بندوق استعمال کرتا تھا، صرف یہی نہیں وہ اس بندوق سے ایک ہی وقت میں دو مختلف بور کے کارتوس بھی چلاتا تھا جنہیں اسکی لاش کے پاس بکھرا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
ان دہشت گردوں کے فہرست الگ ہے جو کمر پر ہاتھ باندھ کر مقابلہ کرتے ہیں اور اسی حالت میں مارے جاتے ہیں۔ ان کا ذکر پھر کبھی  ۔
ان نام نہاد ناقدوں کی تنقید اس وقت جائز ہے جب وہ حملہ آور دن دیہاڑے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر حملے کر رہا ہو اور یہ ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں۔ لیکن پھر بھی اس ساری مکاری اور عیاری کے باوجود بہت جلد وہ قانون کی گرفت میں ہوگا۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply