محبتوں کی روداد

فقط ایک ہفتے کے وقفے سے لاہور اور کراچی میں دو “مکالمہ” کانفرنس ہو چکیں، الحمدللّٰہ۔ احباب نے پوچھا کہ تم نے کچھ لکھا نہیں؟ کیا لکھوں کہ میں تو مخمور ہوں، اس شراب محبت سے جو لاہور اور کراچی کے مے خانوں نے مجھے جی بھر کے پلائی۔

وصی بابا میرا دوست ہے(کم از کم میں تو یہی سمجھتا ہوں)، ہمارا انباکس تو تڑاخ بھی چلتا ہے۔ جب لاہور کانفرنس کا اعلان کیا تو ایک دن میرے انباکس میں آیا اور بولا کہ “او اوت رانگڑ، نا تیرے پاس فنڈنگ ہے، ٹکٹ بکنے نئیں اور سپانسرشپ کی اپیل تو نہیں کر رھا، کیوں محنت کے کمائے پونڈ برباد کر رھا ہے، کیوں کر رھا ہے؟” میں نے ہنس کر کہا کہ رسالے کیلیے پچاس ہزار احمد رضوان نے ارینج کر لیا ہے، کچھ تو ٹکٹس بکیں گی اور باقی، میں ہوں نا۔ مگر سچ پوچھیں تو لندن سے جب جہاز پہ بیٹھا تو رستہ بھر کئی بار میں نے خود سے بھی پوچھا کہ میں یہ سب کیوں کر رھا ہوں؟ پیسہ؟ کما نہیں رھا الٹا میری جیب سے لگے گا۔ شہرت؟ مگر وہ تو اللہ نے پہلی ہی دی ہے اتنی کہ لوگ ملنے کو آئیں۔ مکالمہ سائیٹ؟ میں نے تو اسے ریٹنگ ریس سے ہی نکال لیا ہے “ریٹنگ پلگ انز” اتار کر۔ تو پھر آخر کیوں؟

سترہ دسمبر کی سہ پہر میرے سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔ کہکشاں تھی کہ پلاک ہال لاہور میں اتری تھی۔ ہر عمر، طبقہ فکر، نظرئیے کے لوگ جوق در جوق آئے تھے۔ عائشہ اذان، ہمارے موسیو، حافظ صفوان، میاں ارشد، فہیم اکبر اور دیگر دوستوں کی محنت رنگ لائی تھی۔ سعید بھائی نے مجھ سے کہا کہ یار لوگ تو اب مفت نہیں آتے، تو نے ٹکٹ بیچ کر اتنے لوگ کیسے اکٹھے کر لئیے؟ پورے پاکستان سے لوگ آئے تھے، اسلام آباد سے طفیل ہاشمی تھے تو فیصل آباد سے مفتی زاہد، لاہور سے عامر خاکوانی اور بلال قطب، کراچی سے میرا یار عارف خٹک تھا تو خیبر سے وقاص خان اور عامر ہزاروی، ہاں بلوچستان سے کوئی نا تھا تو میں نے اعلان کیا کہ اس کانفرنس میں میں بطور ایک بلوچستانی تصور کیا جاوں۔ (بعد ازاں معلوم ہوا کہ دو بلوچی بھائی جو لاہور پڑھتے ہیں، وہ شریک تھے اور مجھے چھیڑتے رہے کہ اب شاید آپ بھی گمشدہ ہوں)۔

جب فقط پانچ دن کے وقفے سے پچیس دسمبر کو کراچی آرٹس کونسل میں میرے دوست منصور احمد مانی کی مہربانی سے ہنگامی حالات میں کانفرنس منعقد کی گئی اور عارف خٹک ، مزمل فیروزی، آمنہ احسن اور دیگر دوستوں نے ایک بہترین مجلس قائم کی تو مجھے میرے سوال کا حتمی جواب مل گیا۔ سید انور محمود، عقیل عباس جعفری، مبشر زیدی، فیض اللہ خان اور لالہ صحرائی سمیت دیگر دوستوں نے بھرپور شرکت کی۔

دوستو دونوں کانفرنس میں کیا کہا گیا، یہ تو آپ وڈیوز میں بھی دیکھیں گے اور دیگر مضامین میں پڑھیں گے بھی۔ وسیم ملک، بھائی عطاری، سہیل کروٹانہ، ناد علی، کعب قاضی اور حیران کن ٹیلنٹ خوش بخت کی تصاویر بھی کہانی بیان کر چکیں۔ مگر میں تو آپکو بس یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے سوال کا جواب کیا تھا۔

مکالمہ کا مقصد، شروع دن سے فقط محبت، برداشت اور باہمی تعلق کا فروغ تھا۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جو کسی مخصوص شناخت کے بغیر دوستوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرے جہاں وہ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش نا کریں بلکہ ایک دوسرے کو سننے سمجھنے کی کوشش کریں۔ تاکہ نفرتوں اور شکوک کے پھیلے ہوے اندھیرے میں امید اور محبت کے کچھ چراغ جلیں۔

دونوں کانفرنس میں بھرپور شرکت تھی، ہر اس طبقے کی جو ہمارے معاشرے میں ہے۔ کچھ دوست اپنی مہنگی گاڑیوں پہ آئے تھے تو کچھ ایسے تھے جو دور دراز سے بس کا کرایہ خود پہ شاید بوجھ ڈال کر آئے۔ خواتین کی بھرپور شرکت تھی اور کسی ایک خاتون کو بھی یہ شکایت نہیں ہوئی کہ اس کو بدتمیزی، حتی کہ بدنظری کا بھی سامنا کرنا پڑا ہو۔ ایسے دوست بھی تھے جنکی شلوار ٹخنے سے اوپر تھی تو وہ دوست بھی جنکو ہم لبرل، سوشلسٹ یا غیر مذہبی گردانتے ہیں۔ دوستوں نے کئی جگہ پوچھا کہ آخر اس گفتند، نشتند، برخاستند سے کیا ہوا؟

ان ملاقاتوں میں کئی ایسے دوست ملے جو ایک دوسرے کو بلاک کئیے ہوے تھے، کانفرنس کے دوران ایک دوسرے کو انبلاک کر رہے تھے۔ کئی نئی دوستیاں بنیں۔ مجھے تنویر عادل ہوں، مولوی انوار، عامر کاکازئی، مبشر زیدی، مجید راجپوت یا دیگر دوست، اتنے تحفوں سے نوازا گیا کہ اب مجھے شاید ائرپورٹ پر زائد سامان کے پیسے دینے پڑیں۔ سو وہ کدورتیں دور ہوئیں جو دلوں میں موجود تھیں اور قربتیں بڑھیں۔ لوگوں نے ایک غیر حقیقی دنیا کے کرداروں کو حقیقی دنیا میں دیکھا، سنا اور اپنایا۔

دونوں محافل میں ہر نظریہ سے وابستہ افراد نے ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنی اور شائستگی سے اختلاف بھی کیا۔ لاہور کانفرنس میں خالد محمود(میرے سوشلسٹ دوست) نے مفتی زاہد کی تقریر کو بہت سراہا۔ عامر خاکوانی بھائی کا خیال تھا کہ خالد محمود کی تقریر نے کئی سوچنے والے سوال اٹھائے۔ اسلامسٹ عاصم اللہ بخش تھے تو لیفٹسٹ انعام رانا بھی۔ سعید ابراہیم کی سیکس پر بات سے طفیل ہاشمی اور عامر خاکوانی صاحب نے شائستگی سے اختلاف کیا۔ پی ٹی آئی کے کچھ دوستوں کے سخت روئیے کا جواب وقاص خان نے اپنی معصوم مسکراہٹ اور نرم لہجے سے دیا۔ مزمل فیروزی کے “مجھ کو بلاک کیوں کیا ” جیسے سوال پر مبشر زیدی نے مسکرا کر انبلاک کا وعدہ کیا۔ سو ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش فقط مقررین تک ہی نا تھی بلکہ سامعین نے بھی ایک دوسرے سے بات چیت میں ایک دوسرے کو سمجھا۔ سامعین نے مقررین پہ سوال بھی اٹھائے اور ان کی گفتگو سے سیکھا بھی۔ مجھے کراچی کانفرنس میں ہمارے بزرگ محترم انور محمود کا یہ جملہ نہیں بھولتا جب انھوں نے میرا منہ چوم کر کہا تھا “بیٹا میں تو ترس گیا تھا ایسی محفل کو”۔

دوستو، مکالمہ کانفرنس کا ایجنڈا یا مقصد نا تو کسی مخصوص نظرئیے کی ترویج تھا اور نا ہی مولوی گھیرنے کی کوئی کوشش(جیسا کہ کچھ دوستوں نے سوشل میڈیا پہ الزام دھرا)۔ ان کانفرنسز کا مقصد آپ کو بٹھا کر زبردستی کا علم دماغ میں گھسیڑنے کی کوشش بھی نا تھی کہ ابھی تو زمین بہت سخت ہے۔ یہ تو فقط لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش تھی، غلط فہمیاں دور کرنے کی، محبتیں بڑھانے کی جانب ایک قدم تھا، یہ ہی نیت تھی اور یہی مقصد۔ مکالمہ کانفرنس کی تصاویر دیکھیے، مختلف طبقوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب اور ایک دوسرے کے ساتھ قہقہے لگاتے دیکھیے، میرا مقصد، میرا “ایجنڈا” کامیاب ہو چکا۔ الحمدللّٰہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوگ مبشر زیدی کو سو لفظوں کا جادوگر کہتے ہیں۔ ظالم نے گیارہ لفظوں میں میری نیت، میری کوششوں، “مکالمہ” کے مقاصد اور ایجنڈے کو ننگا کر دیا۔ کہتے ہیں:
“قائل کرنے والے مباحثے سے غلط فہمیاں دور کرنے والا مکالمہ اچھا”۔
دوستو، مجھے تو میرے سوال کا جواب مل گیا، امید ہے آپ کو بھی مل گیا ہو گا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply