بارہ اکتوبر ایک سیاہ دن ۔۔۔۔عامر ہزاروی

بارہ اکتوبر 1999کی شام چند جرنیلوں نے وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگتے ہوئے اپنے ہی ملک کے وزیر اعظم کو فتح کر لیا تھا قوم کے منتخب نمائندوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا تھا . چوکیداروں نے آقا کو یرغمال بنا لیا تھا باوردی چند جرنیلوں نے ایسا کیوں کیا ؟اس سوال کا جواب جنرل شاید عزیز کی کتاب یہ خاموشی کہاں تک. ؟میں دیکھ لیں . چند جرنیلوں نے ذاتی انا کی خاطر فوج کے ادارے کی سالمیت داؤ پہ لگا دی تھی جنرل ضیاءالدین بٹ کے چاہنے والے اگر بغاوت کردیتے تو فوجی ادارے میں جنگ شروع ہوجاتی لیکن حکومت کرنے کے شوقین لوگوں کو اس پہلو سے کیا غرض ؟ انہوں نے اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنا سیکھا ہے کچھ لوگ آج بھی فوجی آمر کو آواز دیتے ہیں سیاسی یتیم اور چند بوٹ پالشی اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی آمر کی راہ تک رہے ہوتے ہیں ..

ان لوگوں کی مجبوری ہے اس لیے کہ ان کی روزی روٹی آمریت سے وابسطہ ہے لیکن یہ سادہ لوح لوگ کیوں فوجی آمریت کے گن گاتے ہیں ..

آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ سیاستدانوں نے کیا کارنامے سرانجام دیے اور فوجی جرنیلوں نے کیا گل کھلائے؟

اس ملک میں پہلا مارشل لاء ایوب خان نے لگایا ایوب خان نے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے سیاسی لوگوں پہ پابندیاں لگائیں مشرقی پاکستان میں غربت اور جہالت کو رواج دیا فاطمہ جناح کا مقابلہ کیا انہیں ھاندلی کے ذریعے ہرایا ان پہ الزامات لگائے اہل علم و قلم لوگوں کو گرفتار کیا معاہدہ تاشقند کیا تین دریا بھارت کو دیے اپنا بنایا ہوا آئین روندا ائیربیس امریکہ کے حوالے کیے اور پھر جب رخصت ہونے لگے تو ملک ایک ایسے شخص کے حوالے کیا جس کا کردار انتہائی متنازعہ تھا م اس نے فوج مشرقی پاکستان میں جھونکی ملک دو ٹکڑے کروایا نوے ہزار فوجی گرفتار کروائے پاک فوج کے چہرے پہ ہتھیار پھینکنے کا بدنما داغ لگوایا …

جبکہ اس کے مقابلے میں بھٹو آئے جنہوں نے ایٹم کی بنیاد رکھی نوے ہزار فوجی رہا کروائے زمین واپس لی ملک کو معاشی ترقی کی راہ پہ لگایا تمام مسلم ممالک اکھٹے کیے چین اور روس سے دوستی کی امریکہ کو آنکھیں دکھائیں فوج کے ادارے کو مضبوط کیا اور ملک کو متفقہ آئین دیا ..

اور پھر؟

 اسی محسن کو ایک منافق شخص نے گرفتار کیا اسے سزائے موت دی جنرل ضیاء کا تاریک دور شروع ہوا امریکہ کو یہاں جگہ دی گئی افغان جنگ لڑی گئی اسلحہ کلچر عام ہوا منشیات عام ہوئیں غیر سیاسی لوگ لائے گئے جماعتیں توڑی گئیں لسانی و مذہبی بنیاد پہ ملک میں آگ لگائی گئی اقتدرا کو طول دینے کے لیے ملک کو مقتل گاہ بنایا جنرل ضیاء کے دور کی تاریکیاں آج بھی ختم نہیں ہوئیں۔

اس کے بعد محترمہ اور نواز شریف اقتدار میں آئے ان پہ دو طرح کے الزامات دہرائے گئے محترمہ کو سیکورٹی رسک کہا گیا اور کرپشن کے الزمات لگائے گئے نواز شریف نے سہیل وڑائچ کو جلاوطن کے دوران جو انٹرویو دیے اس میں انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ طاقت ور اداروں کے کہنے پہ کیا لیکن یہی سیاست دان تھے جنہوں نے ایٹمی دھماکے کیے امریکی امداد ٹھکرا دی اسکی کالوں کے آگے لیٹنے کی بجائے ڈٹ گئے جبکہ دوسری طرف مشرف نے ایک کال پہ پالیسی تبدیل کی ملک کو جہنم بنا دیا افغانوں کو دشمن بنایا فاٹا وزیرستان میں فوج جھونکی نیٹو سپلائی کے لیے راستہ فراہم کیا لوگ امریکہ کو بیچے کراچی میں اسلحہ کلچر عام کیا بلوچوں کے خلاف آپریشن کیے اکبر بگٹی جیسے محب وطن بوڑھے کو مارا لال مسجد آپریشن کیا افغان سفیر امریکہ کے حوالے کیا پاکستان کو دہشستان بنایا کشمیر پہ سودے بازی کی ججوں کو گرفتار کیا نظام عدل تباہ و برباد کیا اور آخر میں این آر او کر کے مزید کرپشن کو فروغ دیا ..

ان سب خرابیوں کے باوجود اگر آمریت اچھی ہے تو پھر ان لوگوں کی عقل پہ ماتم کرنا چاہیے جمہوریت لاکھ بری ہو اچھی آمریت سے ہزار گنا بہتر ہے یہ کوئی طریقہ نہیں کہ قوم کے منتخب نمائندوں کو کوئی آمر اٹھا کے جیل میں ڈال دے یا انہیں سولی پہ لٹکا دے اگر کوئی سیاست دان عوامی اعتماد پہ پورا نہیں اتر رہا تو عوام کا حق ہے اسے مسترد کرے۔

مولانا فضل الرحمن بھی کہاں یاد آئے مولانا نے ایک مثال دی اور کیا خوب دی..کہا ڈاکٹر اگر مریض کا علاج کرنے میں ناکام ہوجائے تو عقل کہتی ہے دوسرے ڈاکٹر کو لایا جائے وہ علاج کرے یہ تو نہیں ہوسکتا کہ مریض کو قصاب کو کے آگے ڈال دیا جائے

خلاصہ یہی ہے کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

علاج ڈاکٹر کریں قصاب نہیں .

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply